محمد شعیب
عرض مصنف: یہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ نہیں، بلکہ تمام بنیادی مسائل کی شکار نسل کا مسئلہ ہے۔
ہم جو اسی کی دہائی میں پیدا ہوئے، نوے کی دہائی نے جن کے لڑکپن نگلے اور اکیسویں صدی کی دہلیز پر جوان ہوئے ہم سب ہوا میں معلق ہیں۔ ہمارا ایک ہاتھ عربی زدہ اسلام سے باندھا گیا تو دوسرے ہاتھ میں اردو بازار کے خلاصے تھے، ایک پاؤں جمہوریت میں اٹکا رہا تو دوسرے پاوں نے فوجی حکومت کے کیچڑ میں لتھڑ کر اپنے ہی پائنچے داغدار کر لیے۔ ہم نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں جہادِ کشمیر کے ترانے اور جنون اور وائٹل سائنز کے گانے ایک ساتھ سنے، ہمارا لڑکپن ہمیں ایک ایسی جوانی میں دھکیل کر غائب ہو جہاں تورا بورا کی غاروں سے پسپائی ہو رہی تھی، ایک عالمی طاقت دندناتی ہوئی ہمارے ہمسائے میں آن بسی تھی اور ایک ایسی جنگ جاری تھی جس میں کئی برس تک ہمیں یہی نہیں پتہ تھا کہ شہید کون ہے اور کون نہیں اور ابھی بھی اس معاملے پر کوئی اتفاق موجود نہیں۔
میری نسل کا المیہ نہ کوئی بیان کرتا ہے نہ سمجھتا ہے، خود میں بھی نہیں۔ میں اس نسل سے ہوں جس کے ماں باپ آپس میں پنجابی میں بات کرتے رہے اور ہم سے اردو بولتے رہے۔ ہمیں انگریزی نما اردو میڈیم سکولوں اور اردو نما انگریزی میڈیم یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے۔ پانچ جماعتیں انگریزی میڈیم کی پڑھیں، تو پانچ جماعتیں ٹاٹ پر بیٹھ کر شیشم کے پیڑوں تلے اپنی تشریفوں کے سہارے پاس کیں۔ میں وہ ہوں جس کے ماں باپ کے خیال میں لڑکا انجینیر یا ڈاکٹر بننا چاہیئے اور لڑکی بھلے کچھ بھی پڑھے مگر جلد از جلد بیاہ دی جائے۔ ہمارے شہر کا بہترین کالج ہفتے میں تین روز اسلامی جمعیت طلبہ یا انجمن طلبہ اسلام کی امریکہ مخالف مظاہروں کی خاطر بند رہتا تھا، ہماری یونیورسٹی میں ہر کسی کی آنکھ میں غیرت اور حیاکے ورنیئر کیلیپر نصب تھے جن سے وہ ہمارے چال چلن کی لمبائیاں چوڑائیاں ماپتے رہے۔ میں وہ ہوں جس نے چودہ سو برس پرانے صحیفوں میں درج ترکیبوں کی بنیاد پر گلوبلائزیشن کی دیگ چڑھانے کی کوشش کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے نہ کچھ کیا، نہ ہمیں کچھ کرنے دیا گیا، نہ ہم سے کبھی کچھ ہوا۔۔۔۔۔ ہم معلق تھے، معلق ہیں اور معلق رہیں گے۔ ہمارے والدین دیہاتی تھے اور ہم تمام عمر شہری ہونے کے ڈھونگ رچانے میں اپنے برگر دوستوں کی تقلید کی کوشش کرتے رہے ( ہمارے برگر دوستوں کی پچھلی نسل بھی اسی طرح برگر ہوئی تھی جیسے شاید ہمارے بچے ہوں گے)۔ ہم نے پہلے پہل طالبان کی امارت کو دنیا کی بہترین حکومت خیال کیا، پھر اشتراکیت کی لالی میں اپنا لہو کی سرخی شامل کرنے کے آرزو مند رہے اور آج کل جمہوریت کے گیت گا رہے ہیں۔ ہم نے ضیاء الحق کی تعریفیں اپنے مولوی صاحب سے سنیں، والد صاحب کو نواز شریف کو ووٹ دالتے دیکھا اور خود بھٹو کو آئیڈیلائز کرتے کرتے عمران خان کو ووٹ دے بیٹھے۔ مگر سچ پوچھیے تو ہم نے ہر کام میں وہی آزمودہ امتحانی کلیہ آزمانے کی کوشش کی جس کے تحت آخری دنوں میں گیس پیپر سے یاد کر کے نمبر لینا ممکن ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے جس بھی نظریے کو اپنایا اسے لنڈے سے خرید کر پہنا مگر ان میں سے کوئی بھی نظریہ ہمارے تن پر اتنی دیر نہیں جما رہا کہ ہم اس کی جیبیں ٹٹول کر کچھ کام کی چیزیں ہی نکال لیتے۔
ہمارے اجزائے ترکیبی میں ہمارے بزرگوں نے ایک ایسے ماضی کی قلمیں لگا دی ہیں جو کبھی تھا ہی نہیں، نسیم حجازی صاحب نے ایک ایسے مجاہد کا نقشہ کھینچا جسے شکشت نہ ہو سکتی تھی، طارق اسماعیل ساگر نے ایک ایسے جاسوس کی پہچان کرائی جس نے دشمن کی جیب کترنے کے خواب دکھائے، یہاں سے نکلے تو علی عباس جلالپوری اور سبطِ حسن نے دامن تھام کر اس میں روسی انقلاب کے نمک پارے اور بوندی ڈال دی۔ ابھی اس کا ختم جاری تھا کہ وجاہت مسعود اور ندیم ایف پراچہ کے ہتھے چڑھ گئے اور ابھی تک انہی کے افکار کے پیرو ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں علم ان کے بنیادی ماخذوں سے کٹ کر محض اخباری کالموں اور آج کل محض وائرل میمز پر کھڑا صحیح غلط کے فیصلے دے رہا ہوں اور زندہ باد مردہ باد کے نعرے بلند کر رہا ہوں۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پیر کبھی بھی کسی بھی زمین سے ٹکرائے نہیں، ہمارے ماں باپ ہمیں پنجاب کا نہیں بنانا چاہتے تھے، مذہب پسند دوستوں کے اڑن قالین پر بیٹھ کر عرب صحراوں میں اترنے لگے تو ماسکو اور بیجنگ کی جانب دھکیل دیے گئے اوراب آج کل فرنگی عدسوں سے مقامی انسانوں کا جائزہ لیتے پھر رہے ہیں۔ آمریت کے فوائد یاد کر رہے تھے کہ اشتراکیت کا باب شروع ہو گیا، اشتراکیت کا سبق رٹ رہے تھے کہ جمہوریت کی کہانی آ گئی اور آج کل اسی کہانی کے تسلسل کے لیے کوشاں ہیں۔ ہماری کوئی شناخت نہیں، نہ مذہب، نہ علاقہ، نہ زبان، نہ برادری، نہ کوئی کارنامہ۔۔۔۔۔ بس ایک ماضی ہے جس کی لاکھوں متنازع تعبیریں ہیں اور ایک ایسا مستقبل ہے جہاں تک پہنچنے کی کوئی راہ نہیں۔
ہم اپنی تہذیب اور روایت سے کٹی ہوئی نسل ہیں جس کے سامنے زندگی کا کوئی واضح مقصد نہیں، جس کے سامنے ایسے غیر حقیقی ماضی کی جنتیں ہیں جن کا حصول ممکن نہیں، ہمارے پاس چودہ سو سال پرانے سے لے کر انیسویں اور بیسویں صدی تک کے مردہ گدھے موجود ہیں جنہیں ہم اپنے اپنے چھکڑوں میں جوت کر دم درود یا مارکسی ٹوٹکوں کی مدد سے زندہ کرنے میں لگے ہیں۔ ہماری تربیت ایک ایسی نسل نے کی جس نے ہمیں ہماری مقامی تہذیب سے گاچی کر کے نکالا اور ان شہری گملوں میں اگا دیا جہاں عرب صحراوں کی ریت، انگلستان اور امریکہ کی کھاد اور ان شہروں کے بدبو دار نالوں کا پانی میسر تھا۔ ہماری جڑوں کو جو ہوا لگ چکی ہے وہ ہمیں ہرابھرا نہیں ہونے دیتی۔ ہم پر کسی بھی اخلاقیات، کسی بھی نظریے، کسی بھی عقیدے کا کوئی پھل نہیں آتا بس کانٹے اگتے ہیں۔ (مگر میں اپنے بزرگوں کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دیتا، ایک ایسا ملک یا ایک ایسی نسل جو اس قدر متضاد اور دقیانوسی بنیادوں پر تعمیر کیے گئے ہوں وہ اسی طرح کے ہوں گے۔)
اس معلق نسل کا ایک ہی بنیادی مسئلہ ہے اور وہ یہ خود ہے، اس کے سامنے کوئی راستہ نہیں، کوئی نصب العین نہیں، کوئی سمت نہیں۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ کبھی یہ تبلیغی جماعت کا چورن خریدتی ہے، کبھی مارکسی پھکی پھانکتی ہے، کہیں کہیں لبرل جمہوریت کے چنے مخانے مل جاتے ہیں مگر ہم ہوا میں ہی معلق ہیں، ہم معلق تھے اور رہیں گے۔ ہمارے پیچھے ہماری اپنی تہذیب کے سوکھتے دریا ہیں، ہمارے آگے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے کھارے سمندر ہیں اور ہم ایک ایسے ساحل پر کھڑے ہیں جہاں نہ آگے جانے کا رستہ ہے نہ پیچھے ہٹنے کی گنجائش۔۔۔۔۔۔