( نسیم سید)
ہمارے سماج میں یوں تو وقت موجود میں مسائل کی ایسی بہتات ہے کہ جس طرف نظر ڈالو وہی لگتا ہے کہ دیوالیہ ہوچکا ہے، اگر باقی بچا ہے کچھ تو مذہبی انتہا پسندی اور لا قانونیت کی چکی کے دوپاٹ جو تمام تر انسانی اقدار و اخلا قیات کو پیس پیس کے اپنے اطراف انکا ڈھیر لگا رہے ہیں۔ ایسے میں کسی ایک مسئلہ پر انگلی رکھ کے اسے بنیادی مسئلہ کہنا گوکہ مشکل ہے لیکن ایسا ناممکن بھی نہیں۔
ہمارے سما ج کا بنیا دی مسئلہ میرے خیال میں مکالمے کا فقدان ہے اور مکالمے کی تہذیب، دوسرے کی بات بغیر تحفظات اور تعصب کے سننا ہے۔ مکالمے کے فقدان کا اگر ہم چھوٹے پیمانے پر جا ئزہ لیں توشا ید ہمارے پچانوے فیصد گھروں کی ایک ہی کہانی ملے گی کہ دلوں میں بے دلی اور بد گمانیوں کی کائی جم جائے، مسائل کا دھواں سانسوں تک اتر آئے اور محبت کی جگہ سمجھوتے لے لیں، مکالمہ کی طرف دھیان نہیں جاتا۔ وہ خواہ میاں بیوی کے مسائل ہوں یا ساس بہو کے یا نند بھاوج کےتمام رشتوں کے درمیان بد گمانیوں کی ایک دیوار کھڑی ہوجاتی ہے، بات چیت بند ہوجاتی ہے۔ نفرتیں گھر اجاڑ دیتی ہیں لیکن مجال ہے کہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کے پوچھیں اورسمجھیں کہ آخر مسئلہ ہے کیا۔
یعنی؟ مکالمہ کا فقدان، ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے سے انکار، ہٹ دھرمی، انا پرستی، فقط میں اور میری ذات کی اہمیت۔ یہ وہ تربیت ہے ہماری، جو ہم اپنے اپنے گھروں سے لیتے ہیں اور اسے اپنی با قی زندگی میں برتتے ہیں۔ اب اگر ہم بغور جائزہ لیں اپنے سماج اور اپنے معاشرے کے مزاج کا اور اس کے کرتا دھرتاوں کا تو ہو بہو یہی سب نظر آئے گا۔ مسائل کی بھر مار لیکن ان کے اثبات سے لاتعلقی، ماننے سے انکار۔ انا پرستی اور ہٹ دھرمی کے سبب تبدیلی کے ہر امکان سے مایوسی نظر آتی ہے۔ اپنے چاروں طرف مسائل کا حل کیا ہے؟ کوئی اس پر مکالمہ کرنے کو تیارنہیں ہے۔ اگر تیار ہے بھی تو صرف اس حد تک کہ اس کی بات سنی جائے۔ اس کی بات مانی جا ئے اور اس پر عمل کیا جائے۔ لہٰذا مکالمے کی جگہ فتویٰ نے لے لی ہے اور سماجی مسائل ہوں یا سیاست، یا ادب ہر جگہ مکالمے کی جگہ فرمان اور فتوے جڑے نظر آتے ہیں۔رہا مذہب تو اس میں تو مکالمے کی گنجا ئش ہی نہیں ہے۔ لہٰذا سمجھیں تو کیسے کہ یہ جو ہمارے سماجی مسائل ہیں، بے اعتمادی ہے، جگ ہنسائی ہے، انتہا پسندی ہے، خوف ہے۔
پر اس کاحل کیا ہے؟ اس کا حل ایک قول پیش کرتا ہے: “بات کروتاکہ پہچانے جاو”؛ یہ ایک بات “پہچانے جاو ” اپنے اندر معنی کی ایک کائنات رکھتی ہے۔ آج ہم جس بری طرح اپنی شناخت کے بحران میں مبتلا ہیں اور پوری دنیا جس نظر سے دیکھ رہی ہے ہمیں جو دہشت گرد کی مہر لگ رہی ہے ہمارے ماتھوں پر، اس کا بہت سے دیگر اسبا ب میں سے ایک بڑا سبب اصل مسئلہ سے نظر پوشی اور مکالمہ کا فقدان ہے؟
Dialogue is a communication tool that allows people to
understand other viewpoints
میں یہاں ایک ذاتی تجربہ شیئر کرنا چاہوں گی کہ مکالمہ کس طرح ہمیں ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کا کام انجام دیتا ہے۔ میں نے چند روز قبل اسی ویب سائٹ ایک مضمون لکھا تھا، “مہاجر کیوں“۔ ہمارے ٹورنٹو کے ایک بیباک صحافی آصف جاویدصاحب، جو میرے بہت اچھے دوست بھی ہیں، ان کا شام کو فون آیا۔ ان کی آوازمیں پہلی بار میں نے غصہ کی آمیزش دیکھی۔ موضوع کے متن کے حوالے سے وہ کا فی خفا تھے۔ لیکن میں نے پہلے ان کی بات بہت سکون سے سنی اور پھر اسی طرح ان کو اپنا موقف سمجھایا۔
اور وہ اختلا ف رائے جو عموماً دشمنی کی شکل اختیار کرجاتا ہے ہمارے ہاں، بول چال بند ہوجاتی ہے، کردار کشی اور ایک دوسر ےکو زند ہ گاڑ دینے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، ہماری دوستی اور محبتوں کو تفصیلی مکالمہ کے سبب کچھ اور مضبوط بنا گیا۔
خیر یہ تو ایک جملئہ معترضہ تھا بات کوپھر وہیں سے جوڑتی ہوں کہ ہمارے سماج کے وجود میں مسائل کی جڑیں جس گہرائی سے اندر اترتی جا رہی ہیں اتنی ہی ان لاتعلقی بھی نظر آتی ہے۔ سیاست دانوں کے لئے بڑے بڑے جلوس نکالنے والے بھنگڑے ڈالنے والے لاکھوں کی تعداد میں دھرنے دینے والے بہت خاموشی سے اور بہت صبر سے بڑے سے بڑا سانحہ جھیل جاتے ہیں کوئی جلوس نہیں نکالتے کوئی کانفرنس نہیں ہوتی کوئی مکالمہ نہیں ہوتا۔
میڈیا عوام میں مسائل کی جانکاری پیدا کرنے کا ان کی سوچ کو بیدار کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کے ٹی وی کا کوئی سا بھی مارننگ شو لگا لیں۔ رنگ گورا کرنے کی تراکیب، بال بڑھانے کے نسخے، ڈیزائنر کپڑوں اور پرس کی نمائش کے علاوہ کسی سنجیدہ موضوع پر، کسی تباہ کن مسئلہ پر بات چیت نہیں ہوتی بلکہ ایک خوف زدہ گھمبیر خاموشی کے خول میں بند ہیں، تمام آوازیں! شاید اس لئے کہ سب فتووں کی زد پر ہیں؛ اور خوف کی زنجیر ہر سو چ ہر آواز ہر لفظ کے گرد لپٹی ہوئی ہے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن وہ تمام مسائل، وہ تمام تکلیف دہ حقائق اور وہ سارا جھوٹ جو ہم یا تو قالین کے نیچے چھپا دیتے ہیں یا ان پر بات کرنے کی اجا زت نہیں دیتے۔ انہیں سطح پر لانا ہوگا اور سطح پر لانے کے لئے مکالمہ کرنا ہوگا۔
مکالمہ ہم کسی ڈیبیٹ کو نہیں کہہ سکتے، بحث کو نہیں کہہ سکتے بلکہ مکالمہ یہ ہے جس کا اہتمام ” ایک روزن ” نے کیا ہے۔ کسی مسئلہ پر مختلف افراد کی آراء کو ذاتی پسند و نا پسند کے پیمانے پر ناپنے کے بجائے پوری توجہ کے ساتھ کھلے دل سے سننا، جاننا، سمجھنا اور پھر اس مکالمے کو بڑے پیمانے پر عوام اور خواص تک پہنچانے کوشش کرنا آج کا ایک اہم تقاضا ہے۔ مکالمہ دوریوں کو ختم کرتا ہے۔ سوچ کے دروا کرتا ہے، جانکاری پیدا کرتا ہے؛ اورمسائل کو سمجھ کے ان سے نپٹنے کے گر بتا تا ہے۔ اسے رواج دینے کی “ایک روزن ” کی یہ کاوش یقینا لا ئق تحسین ہے۔