(عتیق چوھدری)
بچے جوکسی ملک کامستقبل،سرمایہ اوراثاثہ ہوتے ہیں ،جب حالات
سے مجبور ہوکرہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں تویقیناً اس معاشرے کیلئے ایک المیہ وجود پارہاہوتاہے۔ یہ المیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتاہے اور پھرناسور بن کرسماج کاچہرہ داغ دار اوربدصورت کر دیتاہے۔ پاکستان میں بھی معاشی بدحالی، سہولیات سے محرومی، استحصال، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے جگہ جگہ اس المیے کوجنم دے رکھا ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور بنتاچلاجارہاہے۔ ساری دنیا ہی اس لعنت کا سامناکررہی ہے اوراس کے خاتمے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن پاکستان میںچائلڈ لیبرایک سماجی ضرورت بن چکی ہے۔ امیر کے امیرتر اور غریب کے غریب تر ہونے پرقابو نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا کوئی راہ نہیں پاتے کہ وہ بچوںکوابتدا سے ہی کام پرلگادیں تاکہ ان کے گھر کاچولہا جلتا رہے، ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں ۔ سکول جانے کی عمر کے بچے دکانوں ، ہوٹلوں ، بس اڈوں، ورکشاپوں اوردیگر متعدد جگہوں پر ملازمت کرنے کے علاوہ مزدوری کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ قوم کے مستقبل کا ایک بڑا حصہ اپنے بچپن سے محروم ہو رہا ہے۔ مملکت خداد اد کے قیام کو ساٹھ سال گزر چکے مگر آج تک کسی بھی حکومت نے ٹھوس بنیادوں پر کوئی حکمت عملی مرتب نہیں جس سے چائلڈ لیبر کو روکا جا سکے۔اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کو منشور کاحصہ بنایا۔ معاشرے کے کسی اورطبقے کی طرف سے بھی اس جانب کوئی پیش رفت سامنے نہیںآئی۔ ایسالگتاہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی چائلڈ لیبر کو اپنے لیے ناگزیر مجبوری تسلیم کر لیا ہے۔ بالخصوص ارباب اختیار کواس ضمن میں کوئی پریشانی لاحق نہیں۔
بچوں سے مشقت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر تصویر کا ایک تلخ اور حقیقی پہلو یہ ہے کہ مختلف این جی اوز اور سیاسی جماعتیں ہوٹلوں میں سیمنارز کریں گی کہ چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے گا مگر عملی طور پر ان معصوم ننی کلیوں جن کی پڑھنے لکھنے کی عمر تھی انکی فلاح کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھائے گا
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 11 سیکشن 3 کے تحت ملک میں 14 سال سے کم عمربچے کسی فیکٹری، کان یا ایسی جگہ ملازمت نہیں کرسکتے جو ان کے لئے جسمانی اعتبار سے خطرناک ثابت ہو۔
پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ہرسال بچوں سے جبری مشقت کا عالمی دن روایتی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے تاہم قوانین کی موجودگی کے باوجود ملک میں چائلڈ لیبرکی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق دنیا بھرمیں ایک اندازے کے مطابق 168ملین بچے مشقت کرنے پر مجبورہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کی عمر18 سال سے کم ہے۔ پاکستان کا شماربدقسمتی سے دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم ’’سوسائٹی فاردی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چلڈرن‘‘ کے مطابق ملک بھرمیں تقریبا ایک کروڑ 2 لاکھ بچے محنت مزدوری کرنے پرمجبور ہیں۔ ان میں 60 لاکھ بچے 10 سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔
پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کا حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے جو مختلف سیکٹرزمیں مشقت کرنے پرمجبور ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں وہ 18 برس قبل اکھٹے کیے گئے تھے یعنی سرکاری سطح پرآخری بار سن 1996 میں سروے کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق ملک کے 40 ملین بچوں میں سے تقریباً 3.3ملین بچے مشقت کرنے پرمجبور تھے۔ ان میں 73 فیصد تعداد لڑکوں کی جبکہ 27 فیصد تعداد لڑکیوں کی تھی۔
سب سے زیادہ چائلڈ لیبر کا شرح صوبہ پنجاب میں پائی گئی، جہاں 1.9 ملین بچے چائلڈ لیبر کے زمرے میں آئے۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) میں یہ تعداد ایک ملین، صوبہ سندھ میں 2 لاکھ 98 ہزار جبکہ بلوچستان میں 14ہزار بچوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔
ماہرین کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی صرف غربت اور مہنگائی کو ٹہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں، ’’جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے۔ بلکہ جو کچھ وہ کمائی کر رہے ہوتے ہیں، وہ ان کی اپنی ماہانہ کمائی ہوتی ہے۔ لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے بھی کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے۔ تو اگر بچوں کو وہ ہزار پانچ سو مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ بہتر تعلم و تربیت کا فقدان ہے۔‘‘
پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قانون موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اورغیر موثر ہیں، ’’آپ کو یہ سن کربہت حیرانی ہوگی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک ایک بھی شخص کو بچوں کو ملازمت پررکھنے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ سزا دی گئی تو صرف جرمانے کی جس کی رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ عملدرآمد نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنے بھی قوانین بنائے گئے ہیں وہ رسمی یا فارمل سیکٹر کا احاطہ کرتے ہیں۔ جو ہمارا غیررسمی سیکٹر ہے، اس سے متعلق بہت ہی کم قوانین ہیں۔ مثلا گھریلو ملازم بچوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اسی طرح جو بچے گاؤں یا دیہات میں زراعت کے پیشے میں کام کرتے ہیں، ان سے متعلق کوئی قانون نہیں۔ یعنی چائلڈ لیبر کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے، جن سے متعلق کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے۔
‘‘
واضع رہے کہ ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
عالمی ادارہ محنت کے مطابق چائلڈ لیبر کے زمرے میں آنے والے بچوں کی تعداد زیادہ تر قالین بافی، چوڑیاں بنانے کی صعنت، سرجیکل آلات بنانے، کوڑا چننے، چمڑا رنگنے کی صعنت کے علاوہ گھروں میں ملازمت کرتے ہوئے پائی جاتی ہے۔
چند ماہ قبل انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے تحت جو رپوٹ شائع ہوئی، اس میں دنیا کے 67 ایسے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے، جہاں چائلڈ لیبر کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔حکومت وقت اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس اہم ترین مسئلہ کے حل کے لئے عملی اقدامات اٹھانے چاہیئیں۔خالی نعروں اور دعووں سے مسائل حل نہیں ہونگے ۔جو قوانین موجود ہیں ان پر سختی سے عمل کروایا
جائےاورخلاف ورزی کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔
ملک میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ مملکت خداداد میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی لہٰذاچائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے صرف حکومتی سطح پر ہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمہ کیلئے معاشرہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرناہوگااور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم ¾ علاج معالجہ اور انہیں کفالت فراہم کرنے کے ذرائع مہیا کرنا ہوں گے اس کے علاوہ کروڑوں کے فنڈ خرچ کرنے والی این جی اوز کو بھی چائلڈ لیبر اور اس کے اسباب کےخاتمہ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے