(فیصل اعجاز)
البرٹ آئن سٹائن بیسویں صدی کے مشہور ترین سائنس دان ہیں ۔آئن سٹائن نے 1905میں کا ئنات کی وسعتوں کو سمجھنے کے لیے اپنا خصوصی نظریہ اضافیت(Special theory of relativity)پیش کیا جس پر انہیں 1921میں نوبل انعام برائے طبیعات (Physics) بھی دیا گیا۔ان کے نظریہ کو آج کی جدید سائنس میں بھی نمایاں مقام حاصل ہے ۔اس مضمون میں ہم آئن سٹائن کے اسی خصوصی نظریہ اضافیت پر روشنی ڈالیں گے۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں بلاشبہ آئن سٹائن ہی نے خصوصی نظریہ اضافیت کو ایک ترقی یافتہ اور جدید شکل میں پیش کیا،لیکن اس نظریہ میں بنیاد کا کام انہی اصولوں نے کیا جو آئزک نیوٹن کے زمانے میں موجود اور تسلیم شدہ تھے۔ان میں سے اہم ترین اور مرکزی اصول یہ ہے کہ سیدھی لکیر پر ایک دوسرے کے مطابق مستقل رفتار سے سفر کرتے ہوئے تمام مشاہدہ کرنے والوں کے لیے طبیعات(Physics) کے قوانین بھی یکساں رہیں گے۔آئن سٹائن کا کمال یہ تھا کہ اس نے انہی اصولوں کا اطلاق روشنی پر کیا اور کائنات کا مطالعہ کرنے کا ایک بالکل منفرد اور نیا طریقہ دکھایا۔
جب آئن سٹائن نے1905 میں خصوصی نظریہ اضافیت پیش کیا تو اس نے یہ کہا کہ روشنی کی رفتار ایک “کائناتی مستقل” ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ چاہے کتنی بھی رفتار سے ،کسی بھی سمت میں کیوں نہ حرکت کر رہے ہوں ،روشنی کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔لیکن دوسری چیزیں ضرور تبدیل ہو جائیں گی۔یہی وہ بات تھی جس نے اس زمانے میں ساری سائنسی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔روزمرہ زندگی میں ہمیں اس بات کا مشاہدہ نہیں ہوتا۔
اب ہم آئن سٹائن کے نظریہ کی روشنی میں تجربہ کریں گے مگر اس کے لےئے ہمیں کچھ باتیں ذہن نشین کرنہ ہو نگی۔ہمیں پوری طرح سے ذہن نشین کرنا ہو گا کہ “حرکت کرنے” اور “ساکن رہنے” میں کیا فرق ہے۔
فرض کریں کہ ایک ٹرین حرکت کر رہی ہے۔پلیٹ فارم پر کھڑا ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ٹرین اور اس میں بیٹھے تمام مسافر سفر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ٹرین میں بیٹھے ہوئے تمام مسافر اپنے آپ کو (ایک دوسرے کے حساب سے) ساکن محسوس کریں گے۔یہ دونوں باتیں ہی درست ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ٹرین،پلیٹ فارم کے لحاظ سے حرکت میں ہے لیکن ٹرین میں بیٹھے مسافر چونکہ اس ٹرین کے ساتھ اسی رفتار سے حرکت کر رہے ہیں لہٰذا وہ ایک دوسرے کے لحاظ سے ساکن ہیں۔
اب آپ کا ایک دوست ٹرین پر سوار ہے اور اس کے پاس ایک منفرد گھڑی ہے جو وقت بالکل درست بتاتی ہے ۔اس میں وقت کی پیمائش کے لیے روشنی استعمال کی گئی ہے۔اس گھڑی میں اوپر نیچے دو مخالف آئینے ہیں۔ان کے درمیان روشنی کی ایک شعاع چکر لگا رہی ہے۔ روشنی پہلے آئینے سے چلتی ہے ،دوسرے آئینے تک پہنچ کر ٹکراتی ہے اور واپس پہلے آئینے پہ آتی ہے اور اتنی دیر میں گھڑی ایک سیکنڈ پورا کرتی ہے۔یعنی اس گھڑی کا ایک سیکنڈ،اس فاصلے کے برابر ہے جو روشنی کو پہلے سے دوسرے شیشے کی جانب دو دفعہ طے کرنا پڑتا ہے (آنے اور جانے کے لیے)۔ اب چونکہ مشاہدہ کرنے والے کو روشنی کی رفتار اور دونوں آئینوں کے درمیان فاصلے کا پتہ ہے لہزا وہ اس گھڑی میں ایک سیکنڈ کا دورانیہ بھی ٹھیک ٹھیک معلوم کر سکتا ہے۔
اب اگر پلیٹ فارم پر کھڑا شخص اس گھڑی پہ وقت دیکھے گا تو اس کا مشاہدہ مختلف ہو گا۔ظاہر ہے کہ ٹرین کے ساتھ ساتھ وہ گھڑی بھی حرکت میں ہے لہزا روشنی کے راستے کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی۔ اگرچہ پلیٹ فارم پر کھڑے شخض کے لیے بھی روشنی کی شعاع انہی شیشوں کے درمیان ہی چکر لگا رہی ہے لیکن جب اوپر کے شیشے سے چلنے والی شعاع نیچے تک پہنچے گی تو نیچے والا شیشہ ٹرین کی حرکت کی وجہ سے آگے جا چکاہو گا۔اس طرح جب شعاع نیچے والے آئینے سے ٹکرا کر اوپر والے آئینے کی طرف جائے گی تو وہ بھی کچھ آگے جا چکا ہو گا۔ لہٰذا پلیٹ فارم پر کھڑے شخض کے لیے روشنی کا راستہ تھوڑا ترچھایعنی “زگ زیگ”ہو جائے گااور اس کے لحاظ سے روشنی کو دونوں شیشوں کے درمیان چکر لگانے کے لیے لمبا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔اب اگر ذہن میں رکھاجائے کہ (نظرےۂ اضافیت کے مطابق) روشنی کی رفتار ایک کائناتی مستقل ہے تو یہ بھی پتہ چلے گا کہ پلیٹ فارم پر کھڑے آدمی کے لیے چلتی ٹرین میں رکھی گھڑی میں روشنی کی شعائیں کچھ زیادہ فاصلہ طے کر کہ آئینوں کے درمیان چکر لگا رہی ہیں۔یعنی کہ یہ انکشاف ہو گا کہ اس کے لیے چلتی ٹرین پر موجود گھڑی کا وقت سست ہو جائے گا۔
اگر پلیٹ فارم پر کھڑے شخص کے پاس بھی ویسی ہی گھڑی ہو اور چلتی ٹرین میں بیٹھا شخض اس گھڑی کو دیکھے تو حیرت انگیز طور پر وہ بھی یہی دیکھے گا کہ پلیٹ فارم پر کھڑے شخض کی گھڑی سست ہو گئی ہے۔
یہی آئن سٹائن کے خصوصی نظریہ اضافیت کا اہم پہلو ہے کہ اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار کے برابر یا قریب تر رفتار پہ سفر کرنے لگے تو اس کے لیے وقت کی رفتار سست ہو جاتی ہے یعنی کہ اس پر گزرنے والا ایک دن زمین کے کئی دن گزرنے کے برابر ہوگا۔
عام زندگی میں ہمیں اس کا مشاہدہ نہیں ہوتا مگر اب تک کیے گئے ہزاروں تجربات سے ان باتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔اوپربیان کی گئی مثال میں بھی ٹرین کی رفتار کو روشنی کی رفتار کے قریب قریب تصور کیا گیا ہے۔اس خیالی تجربے میں وقت ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ عدم یکسانیت کا معاملہ اس ٹرین میں رکھی ہرچیز کی لمبائی پر بھی ہو گا۔فرض کریں کہ ٹرین میں بیٹھا آپ کا دوست اپنے ٹرین کے ڈبے کی لمبائی معلوم کرنا چاہتا ہے۔فیتہ لے کے وہ اپنے ڈبے کی لمبائی ناپ لیتا ہے۔آپ جو کہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں،چلتی ٹرین کے ڈبے کی لمبائی ناپنے کے لیے یہ کرتے ہیں کہ پلیٹ فارم کا کوئی مقام بطور نشانی مقرر کر لیتے ہیں کہ جب ٹرین اس کے سامنے سے گزرے تو آپ ڈبے کے پہلے سرے سے لے کر آخری سرے تک کے اس مقام کو عبور کرنے کا درمیانی وقت اپنی گھڑی کی مدد سے نوٹ کر لیں۔اس وقت کو ٹرین کی رفتار سے ضرب دے کر آپ اس کی لمبائی معلوم کر لیتے ہیں۔آپ کا دوست بھی ٹرین سے آپ کی ساری کاروائی دیکھ رہاہے۔جب آپ دونوں اپنی کی گئی پیمائشوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے ٹرین پہ سوار دوست کے مطابق ڈبے کی لمبائی زیادہ ہے مگر آپ کی مطابق ڈبے کی لمبائی کچھ کم ہے۔دونوں کہتے ہیں کہ انہوں نے بالکل ٹھیک مشاہدہ کیا ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔مگر آپ کا دوست جو ٹرین پر سوار تھا،یہ بتاتا ہے کہ آپ کی گھڑی کی رفتار سست تھی۔
یہیں سے خصوصی نظریہ اضافیت کا ایک اور نقطہ جنم لیتا ہے۔جس کی پیش گوئی فٹزجیرالڈا اور لور ینٹزنے کی تھی۔اس کے مطابق اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار کے قریب قریب سفر کر رہی ہوتو ایک ساکن مشاہدہ کرنے والے کے لیے اس کی لمبائی کچھ کم ہو جائے گی۔یعنی آپ کے لیے صرف ٹرین کے ڈبے کی لمبائی ہی کم نہیں ہوگی بلکہ اس میں موجود ہر چیز (آپ کے دوست سمیت )کی لمبائی کم ہو جائے گی۔اس اثر کو نظرےۂ اضافیت میں لینتھ کونٹریکش (Length Contraction)کہا جاتا ہے۔
اس چیز کو ہم عام حالات میں اس لیے بھی محسوس نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے تیز رفتار ترین بلیسٹک میزائل بھی زیادہ سے زیادہ 18یا20 ہزار میل فی گھنٹہ رفتار سے سفر کرتے ہیں جو ایک سیکنڈ میں 7 کلو میٹر بنتی ہے۔اس کا موازنہ روشنی سے کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ یہ روشنی ہے پچاس ہزار گنا کم ہے۔نظرۂاضافیت استعمال کرتے ہوئے معلوم ہو گا کہ اس کی لمبائی میں آنے والی کمی صرف چند نینو میٹر جتنی یعنی دو یا تین ایٹموں جتنی ہو گی۔
نظریہ اضافیت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کائنات میں کسی بھی چیز کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔کسی حرکت کرتے جسم کی رفتار جیسے جیسے روشنی کی انتہائی رفتار(C)کے قریب پہنچے گی،ویسے ویسے اس کی لمبائی بھی کم ہوتی جائے گی اور وقت اس کے لیے سست پڑ جائے گا۔یعنی اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار (تقریباََ ۳لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ)سے کرنے لگے تو اس کی لمبائی بالکل صفر ہو جائے اور اس کے لیے وقت بالکل رُک جائے گا۔
یہ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ اگر چلتی ٹرین سے (اس کی حرکت کی سمت میں)گولی چلائی جائے تو پلیٹ فارم پر کھڑے کسی شخص کے لیے گولی کی رفتار زیادہ ہو گی۔مطلب یہ کہ وہ گولی کی رفتار اور ٹرین کی رفتارکا مجموعہ ہو گی۔ لیکن فرض کریں کہ اگر ٹرین کی رفتار ،روشنی کی رفتار کے قریب ہو تو کیا ہو گا؟کیا اس صورت میں بھی گولی کی رفتار،ٹرین کی اور گولی کی رفتاروں کا مجموعہ ہو گا؟ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ خصوصی نظریہ اضا فیت کے مطابق کائنات میں کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پہ سفر نہیں کر سکتی۔
فرض کریں کہ ٹرین0.75 c (C=Speed of light)کی رفتار سے سفر کر رہی ہے اور اس سے اتنی ہی رفتار0.75 c پر اس کی حرکت کی سمت میں گولی چلائی گئی ہے۔عام حالات میں اس کا جواب یہی ہوتا کہ پلیٹ فارم پر کھڑے ایک شخص کے لیے اس گولی کی رفتار 1.5c(یعنی روشنی کی رفتار سے ڈیڑھ گنا)ہو گی،لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہو گا۔چونکہ کائنات میں روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار کسی چیز کی نہیں ہو سکتی لہٰذا نظریہ اضافیت خصوصی کے مطابق(جس میں فٹزجیرالڈا اور لورینٹز کے متعارف کردہ جزوسے استفادہ کیا گیا ہے) پلیٹ فارم پہ کھڑا آدمی ،ٹرین سے فائر کی گئی گولی کو 0.96c(یعنی روشنی کی رفتار سے چار فیصد کم)رفتار پہ حرکت کرتا دیکھے گا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی چیز کا معیار حرکت(Momentum)اس کی کمیت(Mass)اوررفتار(velocity)کا حاصل ضرب ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ جب گولی چلائی تو اس کو کچھ نہ کچھ اضافی توانائی دے کرہی ٹرین سے تیز رفتار بنایا ہو گا۔توانائی ہی کی وجہ سے اس کی ر فتار اور معیار حرکت میں اضافہ ہوا ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ساری کی ساری توانائی جو گولی چلانے میں استعمال ہوئی ہے وہ ساری کی ساری اس کی رفتار بڑھانے میں استعمال نہیں ہوئی ۔اگر ایسا ہوتا تو گولی کی رفتار واقعی0.96c کے بجائے 1.5cہوتی۔ اس کا جواب ہمیں اس گولی کے معیار حرکت سے ملتا ہے۔
توانائی کی ایک تعریف ہے کہ توانائی نہ تو پیدا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ضائع کی جا سکتی ہے۔البتہ ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔یعنی گولی چلاتے ہوئے اسے جتنی بھی توانائی دی گئی وہ ضائع تو نہیں ہو سکتی۔جب ہم اس کا معیار حرکت دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ ساری توانائی،گولی کا معیار حرکت (Momentum)بڑھانے میں استعمال ہو چکی ہے۔لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہگولی کی رفتار اتنی نہیں بڑھی کہ جتنا اسے بڑھنا چاہیے تھا ۔تو پھر باقی توانائی کہاں گئی؟
یہیں پہ نظریہ اضافیت ہمیں بتاتا ہے کہ وہ توانائی اس گولی کی کمیت بڑھانے میں صرف ہوئی۔دراصل نظریہ اضافیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے آئن سٹائن پر یہ انکشاف ہوا کہ حرکت کرتے وقت کسی جسم کی کمیت بڑھ جانی چاہےئے۔اور کمیت میں یہ اضافہ اس جسم کی رفتار میں اضافے کے مطابق ہونا چاہےئے،جبکہ فنٹز جبر الڈ اور لور ینٹز کا جزو بھی ساتھ میں شامل رکھا جائے ۔آئن سٹائن نے یہی بات اپنے نومبر1905 کے شائع شدہ تحقیقی مقالمے میں بتائی،اور اسے 1907ئمیں باقاعدہ مساوات E=MC2کی صورت میں پیش کیا ۔
آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی یہ اہم ترین مساوات آج کی سائنس اور ترقی میں اہم بنیاد ہے۔اس کا نتیجہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں ۔ یعنی مادے کو توانائی میں اور توانائی کو مادے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔عام حالات میں ہم چونکہ بہت کم رفتار سے سفر کرتے ہیں لہٰذا ہماری کمیت میں اضافہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔بڑے بڑے ذرّاتی اسراع گروں(Particle Accelerators)میں، جہاں ایٹمی ذرات کو روشنی کے قریب قریب رفتاروں پر حرکت دی جاتی ہے، وقت کے سست پڑنے اور کمیت میں اضافے کے اثرات واضح طور پر دیکھے گئے ہیں۔
گلوبل پوزیشنگ سسٹم (جی پی ایس) کو بھی وقت کی درست ترین پیمائش کے لیے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔جی پی ایس کی رفتار کے باعث ان پر موجود گھڑیاں تھوڑی سست چلتی ہیں اور زمینی گھڑیوں کی نسبت ہر دن،سات مائکرو سیکنڈ پیچھے رہ جاتی ہیں ۔لیکن ساتھ ہی ساتھ ان سیارچوں پر سطح زمین کی نسبت کشش ثقل کا اثر بہت کم رہ جاتا ہے اور وہ ہر روز 45مائکرو سیکنڈ آگے بھی ہو جاتی ہیں۔جی پی ایس سے درست ترین ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ رفتار اور کشش ثقل کے نتیجے میں ہونے والی غلطی کا اذالہ کیا جائے،لہٰذا انہیں ہر روز 38مائیکرو سیکنڈ پیچھے کیا جاتا ہے۔نظرےۂ اضافیت کی وجہ سے ہونے والی غلطیاں صرف “وائیڈ ایریا آگمنٹیشن سسٹم” (WAAS)نامی نظام سے استفادہ کرنے والے جی پی ایس ریسورز میں ختم ہو جاتی ہیں کیونکہ یہ یونٹ سیارچوں کے علاوہ زمینی جی پی اسٹیشنوں سے بھی اضافی سگنل موصول کر کے جگہ اور وقت کا تعین کرتے ہیں۔
لیجئے قارئین ،آئن سٹائن کے خصوصی نظریہ افافیت کی “موٹی موٹی”باتیں تو یہا ں آکر ختم ہوئیں لیکن یہ تو صرف ابتداء ہے۔نظرےۂ اضافیت (خصوصی اور عمومی ) کو سمجھنا بہت مشکل ضرور ہے لیکن اسی کی بدولت آج ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جس کے بارے میں انیسویں صدی کے سائنس دانوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔