(ناصر عباس نیر)
کفن ہمہ بین واحد غائب کے ’’نقطہِ نظر ‘‘میں لکھا گیا افسانہ ہے ۔اصولی طور پر یہ نقطِ نظراس بیانیے کے لیے موزوں ترین ہے،جس میں راوی خود کو غیر جانب دار رکھنا چاہتا اور افسانوی عمل کو یہ آزادی دینا چاہتا ہے کہ وہ خود اپنی منطق کے تحت جاری رہے۔عام طور پر یہ نقطہِ نظر سماجی نوعیت کے بیانیوں میں اختیار کیا جاتاہے۔اور جہاں بیانیے کی نوعیت شخصی ہو یا سماجی بیانیے کو شخصی تجربے کے استناد کے ساتھ پیش کرنا مقصود ہو وہاں واحد متکلم کا ’’نقطہِ نظر‘‘ برتا جاتا ہے۔مگر ضروری نہیں کہ افسانہ نگار اس اصولی بات کا لحاظ رکھیں۔کفن اگرچہ واحد غائب کے نقطہِ
نظر میں لکھا گیا ہے اور اس سماجی بیانیے کے لیے یہی موزوں بھی تھا،مگر اس کا کیا کیا جاے کہ بیانیے میں راوی کئی مقامات پر خود کو غیر جانب دار نہیں رکھ پاتا ،مداخلت کرتا اور افسانوی عمل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے،جو ایک دوسرے انداز میں آئیڈیالوجی کو افسانے پر مسلط کرنے کی کوشش ہے۔مثلاًمادھو اور گھیسو کے کرداروں کی وضاحت میں راوی کا یہ بیان اور خاص طور پر اس کا پہلا لفظ:’’ کاش دونوں سادھو ہوتے تو انھیں قناعت اور توکل کے لیے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔‘‘راوی کی اس خواہش کے زمرے میں آتا ہے ،جو ان دونوں کی بد تر حالت کے بدلنے کے ضمن میں وہ اپنے دل میں رکھتا ہے۔ نیز وہ سادھووں کو ایک ترجیحی مقام دیتا ہے۔اسی طرح مادھو اور گھیسو کی ذہنیت کے تجزیے میں راوی کا یہ کہنا بھی افسانوی عمل میں مداخلت ہے:’’ ہم تو کہیں گے کہ گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔‘‘ ۔۔۔ اس لیے کہ بیان کنندہ نہ صرف دو طبقات کا ترجیحی ،اقداری بیانیہ پیش کرتا ہے بلکہ طبقات کے لیے جن صفات (تہی دماغ ،فتنہ پرداز، شاطر)کا استعمال کرتا ہے ،وہ بھی غیر جانب دارانہ نہیں ، اقداری ہیں۔یہ کفن کے قاری کو اصل افسانوی عمل سے باہر کرداروں کے بارے میں راے قایم کرنے ترغیب دیتی ہیں۔
عام طور پر سمجھا گیا ہے کہ واحد غائب کے بیانیوں میں بیان کنندہ کی مداخلت کا امکان زیادہ ہوتا اور واحد متکلم کے بیانیوں میں یہ امکان کم ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ امکان دونوں جگہ یکساں ہے۔مداخلت،تیکنیکی طور پر متکلم یا غائب کا وہ بیان،وضاحت اور تعبیر ہے جو بنیا دی افسانوی منطق کے لیے زاید اور غیر ضروری ہی نہ ہوں،اسے متاثر بھی کرتی ہوں۔بیدی کا گرم کوٹ واحد متکلم میں لکھا گیا ہے،مگر اس میں بھی دو ایک مقامات پر متکلم مداخلت کا مرتکب ہوتا ہے۔مثلاً اس افسانے کا متکلم ؍راوی ، گرم کوٹ کی خواہش کرتا ہے ۔یہ خواہش جس محرک (دوسروں کے سوٹ )کے تحت پیدا ہوتی ہے ،اس کا تجزیہ بھی کرتا ہے ۔وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ نئے کوٹ کی خواہش ،دوسروں کے نئے کوٹ دیکھ کر ہی پیدا ہوتی ہے۔وہ یہ بھی اقرار کرتا ہے کہ اسے رفعتِ ذہنی سے زیادہ ورسٹڈ پسند ہے۔اس کے باوجود اس کا یہ تبصرہ’’ نئے نئے سوٹ پہننااور خوب شان سے رہنا ہمارے افلاس کا بدیہی ثبوت ہے۔‘‘ناگوار حد تک غیر ضروری تبصرے کی ذیل میں آتا ہے۔
بہ ہر کیف ،ابتدائی صفحات پر راوی کی مداخلت کے بعداورآگے کفن آئیڈیالوجی کو منکشف کرتا ہے، بنیادی افسانوی منطق کو پورے فنی وقار کے ساتھ قایم رکھتے ہوے! کفن کا موضوع ’’ بنیادی انسانی خواہش ‘‘ ہے۔وہ بنیادی خواہش ،جو حقیقی نہیں،مگر اسے کچھ ایسے تاریخی عمل کے ذریعے سماج میں رائج کر دیا گیا ہے کہ لوگ اسے فطری سمجھتے اور خود کو اس کے سپرد کر دیتے ہیں۔یہی نہیں وہ اس خواہش کا ایسا اسرار آمیز تصور بھی رکھتے ہیں کہ اس کی تکمیل کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد قرار دیتے ہیں۔اور اسی بر بس نہیں ،وہ اپنی زندگی کے اس بڑے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی دست رس میں اور دست رس سے باہر،ہر چیز کوداؤ پر لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔اور جب ان کی مراد بر آتی ہے تو وہ ’’ارتفاع ‘‘ کے غیر معمولی تجربے سے بھی گزرتے ہیں۔اور اس سارے عمل میں وہ بنیادی خواہش کے حقیقی اور آئیڈیالوجیکل ہونے کی رمز سے نا آگاہ رہتے ہیں۔واضح رہے کہ یہاں سوال آئیڈیالوجی کے چھوٹے بڑے ہونے کا نہیں ،اس کی کارکردگی کا ہے۔بعض اوقات آئیڈیالوجی بڑی ہوتی ،وسیع انسانی طبقے کی حقیقی فلاح کی ضامن ہوتی ہے اور کبھی یہ چھوٹی ہوتی اور ایک اقلیتی گرو ہ کے وقتی مفادات کا ایجنڈا رکھتی ہے،دوسروں کے مفادات کی قیمت پر ۔یہی صورت ادبی آئیڈیالوجی کی ہوتی ہے۔بہ ہر کیف ان سب صورتوں میں اس کی کارکردگی یکساں ہوتی ہے۔جو لوگ اور ادبا آئیڈیالوجی کے زیرِ اثر ہوتے ہیں ،وہ اسے ’حقیقی انسانی صورتِ حال ‘ سمجھ کر اس سے معاملہ کرتے ہیں مگر انسانی شخصیت میںآئیڈیالوجی کے آسیب نما عمل دخل کو ادبی متن منکشف کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔کفن ایک ایسا ہی ادبی متن ہے!
کفن کی کہانی مادھو اور گھیسو(باپ بیٹے )کی اس بنیادی خواہش کی تکمیل کی کہانی ہے،جو ایک خاص سماجی نظام میں انسانوں کی ’’روح‘‘کی عظیم طلب بن جاتی ہے۔یہ ایک طبقاتی سماجی نظام ہے:محنت کرنے والوں اور محنت کا استحصال کرنے والوں پر مشتمل طبقاتی نظام،جو بہ ہر حال ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے،تاریخی قوتوں پر ایک طبقے کے اجارے کے نتیجے میں!ایسے نظام میں افراد کی زندگیوں کے مقاصد غالب طبقے کی آئیڈیالوجی کی رو سے ،طے ہوتے ہیں۔جب یہ مقاصد طے ہو جاتے ہیں ، آئیڈیالوجی مستحکم ہو جاتی ہے تو مذکورہ طبقاتی نظام کو ’فطری انداز ‘ میں مستحکم ہونے کی سہولت از خود حاصل ہو جاتی ہے۔۔۔مادھو اور گھیسو کی بنیادی خواہش یا ان کی ’’ روح‘‘ کی طلب بہ عینہٖ وہی ہے جو غالب طبقے نے بہ طور آئیڈیالوجی سماج میں رائج کی ہے۔:عیاشانہ اور مسرفانہ مسرت۔طبقاتی سماج میں اس مسرت کا حصول ،زندگی کی سب سے بڑی قدر بن جاتا ہے۔
مادھو اور گھیسو کے پاس کچھ نہیں ،جس کا استحصال کیا جاسکے، نہ مال اور نہ محنت !اور نہ وہ مرتبے اور اختیار کی طاقت ہے کہ وہ دوسروں کا استحصال کر سکیں۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ استحصال کی خواہش ہی سے بے نیاز ہیں۔وہ محروم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔اور لگتا ہے کہ ان کی محرومی ایک ایسا خلا بن گئی ہے جسے سماج کی حاوی آئیڈیالوجی بھر رہی ہے۔چناں چہ دیکھیے کہ وہ طبقاتی درجہ بندی میں سب سے نچلے درجے پر ہیں، مگر اپنے نقطہِ نظر اور عمل کے اعتبار سے بالائی
طبقے میں شامل ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ان کا نقطہِ نظر اور عمل ٹھوس مادی بنیاد کی عدم موجودگی کے سبب ایک طرح کا باطل شعوراوربھونڈی نقل ہیں۔بدھیاکی تکلیف سے لاپروا ہو کرآلو بھون کر کھاتے چلے جانا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر کھانے کی حرص میں مبتلا ہونا،اور پھر کفن کے پیسوں سے دارو پینا، یہ بالائی طبقے کی استحصالی روشوں کی بھونڈی نقل ہی ہیں۔
آئیڈیالوجی کے نقطہِ نظر سے ،افسانے کا سب سے اہم حصّہ آخری ہے جہاں مادھو اور گھیسو شراب کے نشے میں دھت دکھاے گئے ہیں۔کفن کے پیسوں سے خریدی گئی شراب پی کر وہ ’’ ارتفاع‘‘ کے ’’غیر معمولی تجربے ‘‘سے گزرتے ہیں۔یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا تجربہ ہے،جس کی تمنا انھیں ہمیشہ رہی۔ ان کے بے ساختہ اظہارات سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی مراد ،عیاشانہ اور مسرفانہ مسرت کا حصول ہی ہے:’’ مرتے مرتے ہماری جندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کر گئی۔‘‘ اور ’’ہماری آتما پرسن ہو رہی ہے تو کیا اسے پن نہ ہو گا؟‘‘ ……یہ تجربہ ارتفاعی اس مفہوم میں ہے کہ وہ ’’ گہری مسرت‘‘ محسوس کرتے ہیں۔تاہم اتنی ہی گہری،جتنی ان کی ’’ روح‘‘ ہے۔نشان خاطر رہے کہ یہ ’’ مسرت‘‘ فقط شراب کے نشے سے طاری ہونے والی بے خودی کا دوسرا نام نہیں ہے،بلکہ ان کی داخلی بے داری کا نام ہے۔اصل یہ ہے کہ اس تجربے کے نتیجے میں ان کی ’’ بہترین ذہنی صلاحیتیں‘‘ بے دار ہو گئی ہیں اور وہ اس سماج پر تنقیدی راے ظاہر کرنے لگے ہیں،جس کی وہ خود پیدا وار ہیں۔
’’کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چھپڑ بھی نہ ملے اسے مرنے پرنیا کپھن چاہیے۔‘‘
’’کپھن لگانے سے کیا ملتا ۔آکھر کو جل ہی جاتاکچھ بہو کے ساتھ نہ جاتا۔‘‘
’’ہاں بیٹا بے کنٹھ میں جاے گی۔کسی کو ستایا نہیں،کسی کو دبایا نہیں….وہ بے کنٹھ میں نہ جاے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائیں گے جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ کو دھونے کے لیے گنگا میں جاتے ہیں مندروں میں جل چڑھاتے ہیں۔ ‘‘
کہا جا سکتا ہے کہ یہ سارے تبصرے اس احساسِ گناہ کو مٹانے کی عقلی کوشش ہیں جوبدھیا کے کفن کے پیسوں کو عیاشی پر لٹانے کا نتیجہ تھا۔گویا ان کے اندر اس قدر تو انسانیت باقی ہے کہ وہ اپنے اعمال کے خیر یا بد پر مبنی ہونے کا احساس کرسکتے ہیں۔ایک حد تک یہ بات ٹھیک بھی ہے،مگر یہ بھی دیکھیے کہ وہ اپنے احساسِ گناہ کو مٹانے کے لیے کس قسم کی کوشش کر رہے ہیں؟ وہ اپنے عمل کی تعبیر کے ذریعے ایک التباس پیدا کر رہے ہیں ۔بالکل ویسا ہی التباس ،جیسا آئیڈیالوجی پیدا کرتی ہے۔آئیڈیالوجی ،کسی عقیدے،نظریے کو فطری اور تاریخی بنا کر پیش کرتی ہے،حالاں کہ وہ فطری اور تاریخی ہوتے نہیں۔لہٰذا ان کا فطری ہونا التباس ہی ہے۔کفن میں بھی باپ بیٹا اپنی گفت گو سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے ان میں انسانیت باقی اور وہ بنیادی انسانی اقدار کا علم رکھتے اور اپنے باطن میں ان کی پاس داری کی مبہم سہی،خواہش ضرور رکھتے ہیں۔شاید اپنے دگرگوں اور نا موافق حالات کی بنا پر وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں،لیکن یہ ساری کوشش ،واضح سماجی تجزیوں کے باوجود باپ بیٹے کے عمل کے’’عیاشانہ اور مسرفانہ پہلووں‘‘ کے کسی بھی درجے کے دفاع میں ناکام ہے۔تاہم ان پر تعبیر اور تبصرے کا ایک پردہ ضرور ڈالتی ہے!
Comments are closed.
Sir, I think the story is ‘ideological’ at another level too. The ‘instinctual gratification’ of Madho and Ghasso is presented as ‘natural’ or transcendental , as if it has nothing to do with any specific class. All of us want to ‘Enjoy’ . It is just that some of us has the means to do that while others have not. If the upper classes are exploiting the likes of Madho and Ghasso, they too are doing the same to the woman dependent upon them. In this way, the story in a way, exonerates the ‘class system’ and its evils by simply presenting ‘exploitation’ as something ‘natural’ and ‘intrinsic human trait’ and not the product of socio-historic’ forces.