شکوررافع
وہ نجانے کس عاشق مزاج ادیب نے ایک علم دوست دوشیزہ سے کہا تھا کہ تم جب مُسکراتی ہو تو پھول کھلتے ہیں اور پھر وقت کی آندھی بیس برس تک اڑتی پھری۔۔۔ ڈھلتی عمر میں دوبارہ آمنا سامنا ہوا تو حضرت بولے۔۔۔ ’’اب پُھول نہیں کھلتے‘‘
اب پھول نہیں کِھلتے مگر امید پر ستوں کو جو وحشت لاحق ہوتی ہے۔ اس میں ہر متبسم کلی انہیں خوشبو کا ہی پیام دیتی ہے۔
دل کی دنیا تہلکے یا ذہن کی بھٹکے ، من کی دنیا گول مول ہو یا تن کی ڈانوال ڈول۔۔۔ شکست و ریخت کی ساری آندھیاں امیدکے کھلتے پھولھوں کو بکھرنے سے بچاتی ہیں۔۔۔ بچاپاتی بھی ہیں؟۔۔۔ (یہ الگ بحث ہے)
دل کتنا گندا ہو جائے۔ دل نہیں مانتا کہ اتنی بڑی تباہیاں اور ایسی رسوائیاں ابلتی رہیں اور وہ نہ آئے۔
وہ ایک جو سنبھال لیتا ہے اور طوفانوں میں گھری کشتی نکال لیتا ہے۔
دو چار دہائیاں قبل۔۔۔ سہولتوں اور آسائشوں بھری جو زندگی آئیڈئیلائز کی جاتی تھی آج وہ غریب ترین شخص بھی گزار رہا ہے۔ اس کے باوجود دہائی ہے۔ایک ہی پکار ہے۔۔۔
’’چاروں طرف دکھ ہیں‘‘۔
شاید ہم ان دکھوں کا تذکرہ کرتے ہی اس لیے ہیں کہ ہم خود سکھ میں ہیں۔
دکھ میں رہنے والے تذکرہ نہیں کرتے، مداوا کرتے ہیں یا کم ازکم اس کی کوشش!
جبکہ علاج کی، درماں کی، مداوا کی کوئی ٹھوس اجتماعی شکل نظر نہیں آتی۔۔۔ تو کیا سب محض دکھ کی ادا کاری کرتے ہیں۔۔۔ دکھی کوئی نہیں؟ ۔۔۔ان دکھوں سے نجات چاہنے والا کوئی نہیں؟
’نجات دہندہ‘ کب آتا ہے؟،۔۔۔ کیسے آتا ہے؟۔۔۔
شاید جب دکھ بڑھتے ہیں یا دکھوں کا تذکرہ بڑھتا ہے۔۔۔ پھر کوئی دلِ زار کو تھپکی دینے آجاتا ہے۔۔۔
مکہ میں دُکھ تھے۔۔۔ ایک سُکھ دینے والا آگیا۔۔۔
اپنے دائیں بائیں بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔ روس نے۔۔۔ چین نے۔۔۔ ایران نے اور اب شاید ہندوستان نے۔۔۔ دکھ دیکھے تو درماں کیا۔۔۔ سُکھ آیا۔۔۔ یا آنا ہی چاہتا ہے۔۔۔
شاید جدید نظام اتنا الجھا ہوا ہے کہ ہر شخص تسکین جاں کا سامان کر لینے کے بعد ہی عادتاً دردِ دنیا کا تذکرہ کرتا ہے۔۔۔ مگر لطیفے، شعر، نغمہ، حُسن سب تھرڈ کلاس کیوں ہوگئے ہیں۔۔۔ شاید اس لیے کہ سُکھ میں رہنے والوں کو اچانک دکھ کا سامنا کرنے کا خوف لاحق ہے۔۔۔ اور اندیشے تخریب زیادہ کرتے ہیں ، تخلیق کم!
تو کیا میں بھی اس فہرست میں شامل ہوں کہ جو خود تو سکھ میں ہیں لیکن تذکرے دکھ کے کرتے ہیں۔۔۔
ایسا نہیں ہے۔۔۔میں دُکھ کا تذکرہ نہیں کروں گا۔۔۔ میں سُکھ دیکھتا ہوں۔۔۔
وہ آئے گا۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نہ آئے کہ جب بچوں میں مقبول ٹیبلو یہ ہو کہ ’’ایک تھی لڑکی۔۔۔ باغ میں بیٹھی۔۔۔ رو رہی تھی۔۔۔ اس کا ساتھی۔۔۔ کوئی نہیں تھا۔‘‘
یا پھر۔۔۔’’نانی اماں۔۔۔ جلدی سے اک آنہ دے دے تو کنجوسی چھوڑ دے۔‘‘
نوجواں نسل کا مقبول گانا یہ ہوا کہ ’’مجھے اور کسی کی ضرورت کیا، میں تو خود سے ہی پیار جتاؤں‘‘۔
اور جب بوڑھوں کا نظریہ۔۔۔ یعنی رضیہ غنڈوں میں پھنس جائے۔
جب نیکی کرنے والے تاسف سے انگشت بدنداں ہوں اور بدی کرنے والے مستاں و رقصاں ہوں۔ جب مچھر زہریلے ہو جائیں اور جب ایک برس میں دو سیلاب آئیں۔۔۔ جب سارے اوپر والے اپنے سے نیچے والوں کو دھوکا دیں اور سب نیچے والے سب اوپر والوں کو دھکا دیں تو عقل یہ کہتی ہے کہ شاید پھر وہ نہ آئے۔۔۔
لیکن نہیں۔۔۔ وہ آئے گا۔۔۔ وہ میرا محبوب ہو گا۔۔۔ ایمان کیا؟۔۔۔گمان کیا؟۔۔۔ تاریخی میزان کیا؟۔۔۔ سچ کیا؟ داستان کیا؟۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آتی۔۔۔ لیکن ایک آنے والے کو اب آجانا چاہیے۔ جب وہ آجائے گا تو میں اس کی تصویر بریف کیس میں پڑے اس قیمتی فریم میں سجا کر لگاؤں گا کہ جسے دیمک لگنے کو ہے! جس میں، جب بھی کوئی تصویر سجی، چند دن بعد وہ ایک گتا بن کر رہ گئی ۔۔۔ کارڈ بن کر رہ گئی۔۱۲۰؍گرام آرٹ پیپر کہ جس سے کریڈٹ کارڈ بنتے ہیں۔۔۔ شادی کارڈ بنتے ہیں!!
فریم خالی ہے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔وہ آئے گا۔۔۔!
مان لیا کہ تبدیلی صرف اچھوں سے آتی ہے تو کیا۔۔۔ مکہ ایران والے سب اچھے تھے؟۔۔۔
یونان والے تو اتنے گندے تھے کہ سچے کو زہر کا پیالہ پلا دیا لیکن وہاں بھی ’’دیوتا‘‘ آتے رہے۔۔۔ اور وہ کہ جو مصلوب ہوگیا لیکن یہ کہتا رہا کہ درگزر کرنا سیکھو۔۔۔ اتنا کہ تھپڑ مارنے والے کے سامنے دوسرا گال پیش کردو۔۔۔ اور وہ کہ جس نے کہا کہ بچوں، ضعیفوں، عورتوں اور جانوروں پر رحم کرو لیکن اس ؐکے پیروں سے خون بہایا گیا۔۔۔
بُرے لوگوں میں ہی تو اچھے لوگ آئے۔۔۔
عربوں، چینیوں، ایرانیوں۔۔۔ کون مکمل ٹھیک تھے۔۔۔
سب پِھسلے تھے۔۔۔غلاظت میں تھے۔۔۔ پھر صاف ہوگئے۔۔۔ کیونکہ وہ آگیا تھا۔
وہ ہم میں سے ہی ہوگا۔۔۔ ہم میں ہی پلا بڑھا ہوگا۔۔۔ اس نے محرومی کا تجربہ کیا ہوگا، کم ازکم مشاہدہ ضرور کیا ہوگا۔۔۔
دکھ اس کی اپنی آپ بیتی میں شامل ہوگا۔۔۔ جگ بیتی اور ہڈبیتی میں شامل ہوگا!
’’رقیبان سفید رو‘‘ اس کے رنگ ڈھنگ اور چال ڈھال پہ رشک کریں گے اور شاید حسد بھی۔۔۔ کتنے ’’کیدو‘‘اس چندہ جبیں پہ تھوکنا چاہیں گے لیکن وہ چمکتا جائے گا دمکتا جائے گا۔۔۔ میں اس پر اپنا وہ قصیدہ مکمل کروں گا کہ جب بھی۔۔۔ جس پر بھی۔۔۔ کہنا شروع کیا۔۔۔ مکمل ہو کر ’ہجو‘ بن گیا۔۔۔
ٹوٹے ہوئے دِل اور ترسے ہوئے بدن اسے اپنے سامنے پاکر سلیم رضا کی طرح لہک لہک گائیں گے۔۔۔
جان بہاراں رشک چمن۔۔۔ غنچہ دہن، ۔
شمع فروزاں آنکھیں تیری، ہراک نظر میں جادو گری
خنداں جبیں، شیریں سخن۔۔۔
اے جان من!