آدھے ادھورے خواب:نئے موضوع ،نئے عہد کا ناول

آصف فرخی

آصف فرخی
559697_10151308850362338_1139598613_n

برسوں پہلے اور شہروں دور ، اسلام آباد کی اس شام کی ابتدائی ملاقات کے دھندلے سے نقش زیادہ دیر میرے ذہن میں محفو ظ نہ رہ سکے، اس لیے شاہد صدیقی کو میں نے یا د رکھا تو تعلیم اور ترقی کے حوالے سے ان کے مضامین کے حوالے سے جن سے میں ناشتے کی میز پر اخبار پڑھتے ہوئے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور چائے کی دوسری پیالی ختم ہونے سے پہلے مضمون پورا کر لینے کی جلدی میں ہر بار اپنی صورت حال پر افسوس کرتا ہوا اٹھ جاتا ہوں۔ لیکن یہ افسوس ذاتی سے بڑھ کر اجتماعی ہوتا ہے اور فاضل مصنّف کے ہر مضمون کے بعد لاحق ہونے کے باوجود، نہ اس کی شد ت میں کمی آتی ہے اور نہ میرے احساسِ زیاں میں ۔ کئی بار سوچا کہ ان کے مضمون پر مضمون جماؤں اور ان کی باتوں سے اپنی بات نکالنے کی کوشش کروں۔ مگر اخبار کے مضمون کے ساتھ قباحت یہ ہے کہ اچھے سے اچھا مضمون بھی تھوڑی دیر ساتھ چلتا ہے۔ دن کے آغاز کے ساتھ کوئی نئی خبر، کوئی نیا افسوس اور ایک نئی لاحاصلی ہمیں پکڑ لیتی ہے۔ میڈیا کی جو یلغار ان دنوں ہم پر چاروں طرف سے ہو رہی ہے، وہ بھی تو اتنی دیر دم نہیں لینے دیتی کہ خبر، دل میں اتر جائے۔ ایک خبر کے بعد دوسری خبر، اس کے بعد ایک اور ، تانتاہی نہیں ٹوٹتا ۔ ہمارے مقّدر میں جنوں رہا تھا نہ پری رہنے پائی، سواب بے خبری بھی نہ رہی۔
اخباری مضمون سے بڑھ کر شاہد صدیقی کا قائل تو میں اس ناول سے ہوا جو کراچی کی ایک شام ، کاغذکے ڈبے میں بند میرے دروازے پر کوئی گم نام اسکوٹر سوار یوں چھوڑ گیا کہ پیچھے دیکھنے کا روادار بھی نہیں ہوا۔ پہلے میں نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ ان مجلّد اوراق میں کوئی ناگہانی اندیشہ چُھپاہوا نہیں ہے۔اس میں سے زندگی کو سمیٹے ہوئے ایک ناول نکلااور اپنے صفحوں کے الٹنے پلٹنے کے دوران ہی مجھ پر اس شہر کی شام کے رنگ آشکار کرنے لگا جو میرے چاروں طرف رنگ بدل رہی تھی۔ یہ ناول ایسی ہی کیفیت کے اظہار سے شروع ہوتاہے، جو فوراً ہی اپنا رنگ جمانے لگتی ہے:
“ساحلی علاقوں میں گرمیوں کی شام کے بہت سے رنگ ہوتے ہیں ۔ ان رنگوں میں گہرے پانیوں کاسحر ہوتا ہے اور سمند ر کی ٹھنڈی ہواؤں کوتھامنا چاہیں تو شام کے رنگ ہتھیلیوں پر رہ جاتے ہیں ۔ سارے ساحلی شہر ایک جیسے ہوتے ہیں۔وہی مرطوب ہوا ، وہی بارش میں بھیگتی عمارتیں اور شاموں کی وہی ساحری ”
میں نہیں مانتا۔ میں ماننا نہیں چاہتا۔ ساحل پر بسے ہوئے شہر ایک جیسے ہوتے ہیں ،نہ ان شہروں کی شام اور اگر کسی کو ایسا لگتا بھی ہو تو ساحلی شہروں سے شروع ہونے والے ناول ایک جیسے نہیں ہوتے۔ شام کے رنگوں کی طرح ناول کے رنگ بھی بدلتے رہتے ہیں اور اگر یہ رنگ پکے نہ ہوں تو ساحل پر سرپٹکنے والی بے تاب موجوں کو چھولینے کی ہلکی سی کوشش میں بہہ جاتے ہیں ۔اس ناول کے رنگ الگ ہی نظر آتے ہیں۔
شہر کی شام ڈھلتی رنگ بدلتی جا رہی تھی اور میں یہ ناول انہماک کے ساتھ پڑھے چلا جا رہا تھا۔ جس کے صفحوں میں ایک ماہر تعلیم اور سماجی سائنس دان کی فکری بصیرت کہانی کے روپ میں ڈھلتی دکھائی دے رہی تھی ، یہاں ہشاش بشاش اور چونچال طالب علم ہیں دانش مند اور انسپائرنگ اساتذہ ، درس گاہوں کے گھاس بھرے راستے جن میں زندگی کی امنگ ہے اور بہت کچھ جاننے سمجھنے کی تڑپ ، زندگی کے وہ نقوش جن کی بصیرت اب ہم سے چھن گئی ہے۔ ہمارے معاشرے کے بہت سے پہلوؤں کے بر خلاف ان درسگاہوں میں زندگی ابھی سوگوار ہوئی ہے اور نہ پژ مردہ ،یہ سب پر جوش اور خوابوں بھر ے لوگ اس ناول میں زندہ حقیقت کی طر ح نظر آئے ۔ پھر میں سوچ میں پڑ گیا۔اس ناول نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔
درا صل شاہد صدیقی سے آدھے ادھورے تعارف کی بدولت اور ان کے مضا مین پہلے پڑھ لینے کی بدولت میں نے یہ سمجھ کر ناول پڑھنا شروع کیا کہ یہ اپنے شعبے کے مُختص اور ماہر ہیں، ان کی یہ کتاب پڑھ لینے سے تعلیم کی صورت حال ، نئے نظریے، اور ان نظریوں سے پیچھے رہ جانے میں اپنے ملک کی حا لتِ زیاں کے بارے میں بصیرت حا صل ہو گی ۔ سو میں اس حوالے سے بھی مایوس نہیں ہوا اور اس ناول کی بدولت تعلیمی ترقی کے بارے میں میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ لیکن یہ ناول اس سے آگے محسوس کرنے اور سوچنے پر مائل کرتا ہے۔مگر کس طرف اور کہاں ، اس مقام پر توقف کرنا چاہیے۔
ایک ماہر تعلیم نے اپنی علمی مہارت میں گوندھ کر اس ناول کا خمیر اٹھا یا ہے تو اس با ت پر تعجب نہیں ہو نا چاہیے۔ فی زمانہ ہمارے ہاں یہ ہُنر دیکھتے ہی دیکھتے نایا ب ہوتا جا رہا ہے۔ناول لکھنا تو بڑی بات ، ہمارے ہا ں سماجی علوم کے ماہرین یا کسی ایسے ہی علمی میدان میں اختصاص رکھنے والے لوگ اب نہ تو تخلیقی وژن سے سروکار رکھتے ہیں اور نہ ایسے کسی وژن کے تخلیقی اظہار کے حامل ہو سکتے ہیں ۔ زباں کی سطح پر بھی وہ ابتدائی مرحلے سے بڑھ کر لکھنے کی طرف شاید ہی آسکتے ہوں۔ لارڈ سی پی اسنو (Lord C. P. Snow) نے برسوں پہلے انگلستان میں ادب اور سائنس کے دو لخت ہو کر رہ جانے کو “دو کلچر” کی صورت حال قرار دیا تھا تو اس پر اعترا ضات کی یلغار ہو گئی تھی جن میں ایف آر لیوس (F. R. Leavis) جیسے جغادری نقاد بھی خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے تھے ۔ ہما رے یہاں علم و ادب کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے بھی اب اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ایک کو دوسرے کی خبر نہیں ملنے پاتی۔ ظاہر ہے یہ خبر کسی چینل سے نشر نہیں ہوتی۔ ایسی دو لخت صورت حال میں شاہد صدیقی کا یہ ناول، علم سے ادب کی طرف قدم بڑھاتا ہوا نظر آ تا ہے اور اس لیے مجھے خاص طور پر خوش آئند معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کی وہ حقیقتیں جو اپنی گرہ کشائی کے لئے غور و فکر کی متقاضی ہیں ، ان کو ہم صرف سیاسی وسماجی تجزیے سے پوری طرح گرفت میں نہیں لاسکتے ۔ ان حقیقتوں کو جسم میں دوڑتے خوں کی طرح محسوس کرنے کے لئے ناول ہی کا سہارا بہتر ہے اور اس ناول میں فکرو احساس کی یہ آمیزش زندگی کی حرارت سے جی اٹھتی ہے۔
ایک آدرش وادی پروفیسر اور اس کی ایک نو عمر، حساس طالب علم لڑکی کے درمیان تیزی سے بڑھتا ہوا یہ تعلق گہرائی کی جانب گریز کرتا ہے تو ایک ناول ، یعنی “ودرنگ ہائٹس” (Wuthering Heights) کے وسیلے سے ۔ پروفیسر اس کتاب کے مطالعے میں مصروف ہے۔ ایسے دل کش ناولوں کی لذت، ہمارے اساتذہ سے اب رُخصت ہوتی جا رہی ہے۔ اور پھر وہ اس کتاب کا تحفہ اس لڑکی کے لیے چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ ناول گویا محبت کا نا محسوس جذبہ ہے، ایک ان جانا پیغام (code) جس میں رابطے کے بہت سے امکانات پنہاں ہیں۔ پروفیسر رائے ایک اعلیٰ role model اور اپنے شاگردوں کے لئے قابلِ تقلید مثال ہیں ۔وہ اپنے طالب علموں کی زندگیوں کو چھو کر انہیں زندگی کی برتر اقدار سے آشنا کرتے چلے جاتے ہیں ۔ محبت سے موج زن مگر خود محبت سے روگرداں ، محبت کو تیاگ میں ڈھال دینے والے اور تیاگ سے تپسیاکی جانب مڑجا نے والے ، ان کی کہانی ما وارئی نہیں ہونے پاتی اس لیے کہ اسے جلد ہی (anti-climax) کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب طالب علم ملکی صورت حال سے بد دل ہو کر احتجاج شروع کرتے ہیں اور ان کی اس تحریک کو کچلنے کے لیے ، اقتدار کی اندھی طا قت آگے بڑھتی ہے۔ پرو فیسر رائے اپنے طالب علموں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کے آگے ڈھال بن کر آ جا تے ہیں مگر اس کوشش میں وہ خود نشانہ بن جاتے ہیں ۔ پھر آدرش ختم ہو جاتے ہیں ، خواب ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اور ہم افسوس کرتے رہ جاتے ہیں۔ کیا یہ افسوس ہمارا مقّدر بن کر رہ گیا ہے ؟
مگر اس ناول کا اختتام ، افسوس نہیں ہے۔ ایک مقام پر کہانی یہ بتاتی ہے کہ پھول کی پتّی پر آپ کوئی بھی نام لکھ سکتے ہیں۔ آپ سے یہ نام ، نئے طالب علم جب پوچھیں گے تو پھر بتانا پڑے گا کہ پروفیسررائے کون تھے، آپ کی پسندیدہ شخصیت کیوں کر بنے ۔ اور پھر ان کی کہانی اپنے انجام کے بجائے ایک نئے آغاز تک پہنچے گی۔اذیت و ستم سہہ کر خواب ٹوٹ ہی کیوں نہ جائیں ، اس ناول کی کہانی یوں ختم نہیں ہو سکتی ۔ اسے جاری رہنا چاہیے ۔ اسی لیے کاغذ کے ایک پھول پر میں اس ناول کا نام لکھ دینا چاہتا ہوں۔اور پھول پر نام لکھ کر آپ کے حوالے کرتا ہوں تاکہ تعارف کا مرحلہ مکمل ہو کر پہچان بن جائے۔اس سے آگے یہ آپ کی کہانی ہے۔