قاسم یعقوب
آزادی کا دن یومِ خود احتسابی ہے، ہم اپنے معروض کو کچھ دیر دیکھنا بند کریں اور اپنے اندر اتریں ___اور اپنے باہر اُگے اپنے ہی سوالوں کے جواب اپنے اندر سے دریافت کریں۔
ہم بالاخر اُس مرحلے تک آگئے جہاں ہمیں اپنی زنجیرِ پا کا شور سنائی دینے لگا۔ہم پر بہت سے انقلاب اُترے مگر ہم نے جسم کو بستر بنا لیا اور پلکیں اوڑھ کے سوئے رہے۔زندگی کی جذباتی اور روحانی اقدار میں اُترنے کی بجائے زندگی کو بنے بنائے سانچوں میں اُتارنے لگے۔ہر لحظہ ،نئی تجلّی ہمیں خوش آمدید تو کہتی رہی مگر ہم یہ جان ہی نہ سکے کہ ہم ہر لحظہ ہم واپس پلٹ رہے ہیں ۔نیا منظر ہمیں مطمئن تو کر رہا ہے مگر صرف نئے پن کی حد تک۔ہم تو دائرے کے سفر پر رواں ہے ۔ایک قدم آگے اور دوپیچھے۔۔۔۔۔۔اور یہ تب سے ہے ۔۔۔کہ اب ہم اپنادائرہ مکمل کرنے والے ہیں۔ہم چلتے چلتے بند گلی میں آگئے اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی کہ ہماری فیصلہ کرنے کی قوت تو دم توڑ چکی ہے ۔ہم تو واپس بھی نہیں پلٹ سکتے ۔ہمیں بڑے فیصلے کرنے کی ہمت کون دے گا۔موت ہماری ترجیحات کی فہرست مانگ رہی ہے اور ہم پیش وپس سے کام لے رہے ہیں۔حقیقت کا ادراک ابھی تک ہماری پیش بینی کے معیار پر نہیں اُترا۔ہم جس خطے کے باسی ہیں یہاں ہمیشہ سے ایک فکری سیراب، سایہ فگن رہا ہے۔ہم ہمیشہ سے تاریخی انتشار،معاشی بے زاری، تہذیبی تقسیم اور معاشرتی گھٹن کا شکار رہے ہیں۔نئے سیاسی منظر نامے کی تشکیل کے بعد یہاں ٹھراؤ آنا چاہیے تھا مگرہم نے دَم لے کر آگے چلنے کی پالیسی جاری رکھی۔ہمارے خطے کا فلسفۂ حیات ایک مشکل فہم متن ہے ۔یہاں جذباتی اور سماجی مسائل پیہم اکھٹے ہو گئے ہیں۔ہمارے ہاں مختلف نظریات زندگی کی روانی کو طے شدہ حقائق کی روشنی میں جانچتے رہے ہیں جس سے اُن کے ہاں شدید نوعیت کا تضاد اُبھرا ہے۔حاصلات میں ہم ’’ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے‘‘ ہی کماتے رہے ہیں۔ہم نے چوں کہ سفر کیا ہی نہیں لہٰذا اس جادے سے گرد جھاڑ کے ایک دائرہ ہی بچاہے ۔۔۔ہم نے ابھی تک یہ دائرہ ہی کمایا ہے۔۔۔دائرے کا سفر۔۔۔۔۔۔!!
ہمارے چند بڑے مسائل میں سے سب سے بڑا مسئلہ نظریاتی نوعیت کا ہے۔ہم آج تک مختلف قسم کے نظریاتی فریمز(Frames) میں جکڑے ہوئے ہیں۔جو جہاں کھڑا ہے وہیں سے اطراف کا نقشہ کھینچتا ہے۔اُس کا دائیاں،بائیاں اوراُس کا آگے، پیچھے اپنی ذات سے متعین ہوتا ہے ۔اُس کا آسمان اور زمین صرف وہی ہے جو اس کی آنکھ کے نقوش میں ہے۔ہمارے ویژنز(Visions) ،ہماری جہاں بینی(World View) ہمارے اپنے اپنے تناظرات میں کھڑے ہمیں مطمئن کرتے آرہے ہیں۔ہم خانوں میں نہیں مورچوں میں تقسیم ہیں۔
آغاز ہی سے ہم ایسے تنازعات میں گھیر دئیے گئے جسے بعد میں ہم نے نہادنام’’ بقا‘‘ سے منسلک کر دیا ۔اب اس ’’بقا‘‘ کی جنگ لڑنا تو لازم تھااور ہم نے وعدہ بھی پورا کیا۔ہم اس ’’بقا‘‘ کی حفاظت میں شروع دن سے ہی لگے رہے۔اس ’’بقا‘‘ کی حفاظت کا ذمہ اُس طبقے نے لے لیا جو ’’طاقت یا اشرافیہ‘‘ کہلاتاتھا۔گویا ایک طرف اشرافیہ اور دوسری طرف عوام۔یہ تقسیم اپنی اپنی ’’بقا‘‘ کی تقسیم ثابت ہوئی۔یہ تقسیم مارکس کی Have اور Have not والی تقسیم نہیں تھی۔دونوں طبقے ہی Have اور Have not تھے۔دونوں ایک دوسری کی جگہ بدلتے رہے۔ایک دوسرے کے ممد و معاون بنے رہے اورکبھی مدِّ مقابل رہے۔ہم نے اپنی ’’ بقا‘‘ کو نظریاتی اور سیاسی دونوں میدانوں میں خوب لڑا۔’’سیاسی بقا‘‘جغرافیہ کی’’ سیاسیات‘‘ میں محدود رکھی۔مگر’’نظریاتی بقا‘‘ کے لیے ہم کمر بستہ ہو کے نکل پڑتے۔ہم نے مذہبیات کے غیر منطقی دلائل کو اپنی سماجیات اور دینیات کا بھی حصہ بنا ڈالا۔ہم نے وقت کے تیشے سے پہاڑ تو کھود لیا مگر ہمیں یہ خبر ہی نہ ہوئی کہ شیریں تو کب کی مر چکی ہے۔ہماری آنکھوں میں آنسو غم، دکھ یا خوشی کے نہیں بلکہ موت کے ہیں۔
ہمیں کسی نے بتایا ہی نہیں کہ معاش،معاشرت اور محبت میں کیا فرق ہے!!ہم فلسفۂ مذہب کے مدِّ مقابل ،فلسفۂ جمالیات لے آئے۔اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ۔اب کچھ کرنا ہو گا۔
ہمارے فکری ترازو اب ڈولنے لگے ہیں ۔ہم ایک بڑے فیصلے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔آہستہ آہستہ نہیں بہت تیزی سے۔۔۔۔۔۔ haveاور have not کا تضاد بڑھنے لگا ہے۔اب کی بارکوئی فلسفہ درآمد نہیں ہوگا اسی تکرار اور تضاد کی جنگ میں ہم اپنا فیصلہ خود لکھیں گے۔اسی حیات کاری کے عمل میں ایک فکر ابھرے گی۔اسی تناظر سے نئے امکانات اپنا کوندا بھریں گے۔شاخ تراشی کا عمل خزاں کے دوران ہی شروع ہو جاتا ہے تاکہ بہا کے نئے پتوں کو خوش آمدید کہا جا سکے۔شپنگلر نے کہا تھا کہ تہذیب کا ارتقائی عمل ایک درخت کے حیاتیاتی عمل کی طرح ہوتا ہے۔جو بیج سے پھول تک کا دائرہ مکمل کر کے پھر بیج میں منتقل ہو جاتا ہے ۔گویا زوال پھر کسی کمال کی طرف محوِ سفر ہو جاتا ہے۔جیسے دیہاتوں میں پہنچنے والی رات کی آخری گاڑی وہاں سے نکلنے والے مسافروں کی صبح دَم پہلی سواری بن کے نکلتی ہے۔یہ الگ قضیہ ہے کہ ہم پر کب عروج آیا اور زوال کب سے شروع ہوتا ہے۔
زندگی میں موجود ابہام کو ہم نے اندھیرا کہہ دیا اور اسے مٹانے کے در پئے ہو گئے۔ہم متحدہونے کے مسئلے میں ایسے الجھے کہ تفریق در تفریق ہوتے گئے۔نفاق ہمارا رویہ اورتضاد ہماری جذباتی گھٹن کہلائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آگے سمندر ہے۔خشکی کا سفر اعلانِ اختتام کرتا ہے۔اب کون فیصلہ کرنے آگے بڑھے گا۔کوئی ادارہ،کوئی راہبر اور کوئی فکر زندہ نہیں رہی۔سب آزمائے ہوئی تقدیر کے راکب ہیں۔یہ زمانہ عجیب زمانہ ہے ۔’’مہا بیانیے‘‘ ٹوٹ چکے ہیں ۔چیزیں اپنے وجود کے تھیسسز اپنے اینٹی تھیسسز لے کر پیدا ہو رہی ہیں۔کوئی سانتھیسسز(Synthesis) نہیں بنتا۔فیصلے تیزی سے ہو رہے ہیں۔ہر چیز ہائیپررئیلٹی کی زَد میں ہے۔ابھی ہم نقطے پر پَرکار رکھتے ہی ہیں قوس اپنا مرکز تبدیل کرنے لگتی ہے۔ہر چیز اپنے تناظر سے جنم لیتی ہے اور وہیں مر جاتی ہے ۔تناظر کے بدلتے ہی سارا فلسفہ نیا لباس پہننے لگتا ہے۔ہم ابھی تک ’’بیانیوں ‘‘کی سیاست کرتے آرہے ہیں۔کل کے اخبار کے صفحۂ اوّل پر خو بصورت خطاطی میں لکھا جانے والے والا نعرہ’’افغان باقی،کہسار باقی۔۔۔الحکم اللہ،الملک اللہ‘‘کیسے پلک جھپکتے ہی شرمندگی کے غار میں دھکیل دیتا ہے۔مگر کون شرمندہ اور پشیمان۔۔۔۔۔۔!
ہم کیا ہیں؟ ہم کہاں ہیں؟ ہماری سمت کس طرف کو ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ سوال پو چھنے یا بتانے کی ضرورت نہیں ۔ایک چکی چل رہی ہے اور اُس میں سب کچھ پِستا جا رہا ہے۔ایک طرف سے داخل ہو رہاہے اور دوسری طرف سے نکل رہا ہے۔ہم وقت کے اُس کٹہرے میں لائے چکے ہیں جہاں مجرم کا جرم’’ دیر کر دینا ‘‘ ہے۔
لوگ مر چکے ہیں۔۔۔فکر مر چکی ہے۔۔۔جمالیات، فلسفہ، مذہب ، سماجیات، معاشیات اور ان سب میں ہماری معاشرت ۔۔۔سب پر جمود کا جاڑا سو رہا ہے۔صرف ’’خبر ‘‘زندہ ہے جو منتقل ہو رہی ہے۔۔۔ایک سے دوسرے کی طرف،۔۔۔شر سے خیر اور خیر سے شر کی طرف۔۔۔ ،فرد سے اجتماع اور اجتماع سے فرد کی طرف۔۔۔،ہنگام سے آشتی اور آشتی سے ہنگام کی طرف۔۔۔، خو ف سے موت کی طرف۔۔۔ موت سے ہماری طرف۔۔۔ !!
یہ ’’خبر‘‘ ہی ہمیں تبدیل کرنا چاہ رہی ہے۔یہ خبر ہی ہمیں قدیم سے ہم عصر کر رہی ہے ۔۔۔!ہماری اندر جو جوٹ پھوٹ جاری ہے اسی خبر ہی کے مرہونِ منت ہے۔ہم اپنا سامنا کرنے سے ڈر رہے ہیں ۔آئنہ کی ضرورت جتنی ہمیں آج ہے اِتنی کبھی نہیں تھی۔
یہ خبر ہمیں یومِ خوداحتسابی کا پیغام دینے آئی ہے۔
ہمارے پاس تجدیدِ خود اعتمادی کا دن لائی ہے۔
آئیے اس کا استقبال کریں۔