آمرانہ سوچ رکھنے والے امیدواروں کے ووٹروں کی مشترک خصوصیات:

ترجمہ:فیاض ندیم

____ایمی اریکا سمتھ اور مولی کوہن کا یہ مضمون امریکی اخبار ’’ دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں 2 نومبر2016 کو شائع ہوا۔ ایک روزن اس مضمون کا ترجمہ شائع کر رہا ہے۔ اس مضمون کے جملہ حقوق مصنفین کے حق میں محفوظ ہیں___

شہریوں کو آمرانہ سوچ رکھنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے کے لئے کیا چیز اکساتی ہے؟ حالیہ ہفتوں میں ماہرین کی دلیل ہے کہ ریپبلکن نامزد صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم کا انداز اور بیان بازی عام امریکی معیارات سے منافی، بین الاقوامی سیاق و سباق کے ساتھ تشویشناک حد تک مماثل رہی ہے۔ مبصرین کے مباحثوں کے نتیجے میں ایک نئے ’’ تقابلی مردِ آہن‘‘ کی نوع سامنے آئی : وینزویلا کا ہیوگو شاویز، اُس کا جانشین نیکولس ماڈورو، اٹلی کا مسولینی، یا سلویو برلانسکی، یا ارجنٹینا کا خوان پیرون۔
جو لوگ طاقتوروں کو ووٹ دیتے ہیں، اُن میں کیا چیز مشترک ہوتی ہے؟ کیا امریکہ میں ٹرمپ کے حامی، دوسرے ملکوں کے مقبول آمر لیڈروں کے حامیوں کے ساتھ کوئی بنیادی نفسیاتی خصوصیات مشترک رکھتے ہیں؟ ہم اس نقطے پر ’’ ریسرچ اور پولیٹکس‘‘ میں نئے آنے والے آرٹیکل پر نظر ڈالتے ہیں۔ دو اقدامات اہم ثابت ہوئے: آمریت اور تعلیم کی سطح۔ لیکن یہ کیوں اہم ہیں ، ہمارے لئے حیران کن تھا۔

لاطینی امریکی انتخابات میں یہ سمجھنے کے لئے سراغ موجود ہیں کہ کون آمر لیڈروں کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکی انتخابات کی مثالوں سے اس سوال کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ بہت کم امریکی امیدواروں نے آمرانہ خیالات کا کھلے عام اظہار کیا ہے۔ تاہم، ہم نے لاطینی امریکہ کا مشاہدہ کیا، جہاں بہت سے صدور نے حکومتی طاقت پر جمہوری حدود کو نظر انداز کیا؛ ان میں شاویز اور ایکواڈور کے کے رافیل کورریا شامل ہیں، جنہوں نے صحافتی آزادی کو صلب کیا اور سلواڈور کا انتونیو ساکا، جس نے انتہائی سخت گیر حکمتِ عملی ’’ Super Mano Dora‘‘ کے ذریعے مشکوک ٹیٹو (tattoo) کھدوانے والے لوگوں کو بھی جیل میں ڈالنے کا حکم دیا۔

لاطینی امریکہ ایسے مطالعے کے لئے اس طرح بھی دلچسپ ہے کہ بر خلاف امریکہ کے، آمر امیدوار دائیں بازو اور بائیں بازو دونوں سیاسی نظریات کی طرف سے آرہے ہیں۔ کیا آمر شخصیات، آمر لیڈروں کی حمایت کرتی ہیں؟ صرف بعض اوقات۔

ہم نے یہ دیکھنے کے لئے چھان بین کی کہ آیا ’’ آمرانہ‘‘ نفسیاتی فطرت، آمر لیڈروں کے لئے ووٹ کا پیش خیمہ بنتی ہے ۔ جب سیاسی نفسیات دان آمریت کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہ اس بنیادی فطرت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس میں شہری اجتماعی اقدار اور آمر شخصیات کے سامنے سر نگوں ہوتے ہیں اور منحرفین کے بارے میں سخت گیر رویہ رکھتے ہیں۔ آمریت کا نفسیاتی تصور ضروری نہیں کہ اقدار کے تعین کی دلالی کرتا ہو۔

ہم اکثر شہریوں میں آمریت کی سطح کا تعین جائزے کے سوالات کے ذریعے کرتے ہیں، جس میں پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں میں کس قسم کی خصوصیات، جیسا کہ تخلیقی صلاحیتیں اور خود مختاری چاہتے ہیں، یا بڑوں کے احترام اور نظم و ضبط کو پسند کرتے ہیں۔ امریکہ میں لوگوں کا ان جائزوں میں سکور بہت سارے سیاسی رویوں کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوتا ہے
-____

موجودہ انتخابات میں نا صرف ٹرمپ کی حمایت اور ٹرمپ کے اُجاگر کئے گئے مسائل کی حالت، بلکہ دہشت گردی کے خلاف رویے اور ریپبلکن پارٹی کی عمومی پہچان سے بھی____،
2012میں امریکی بیرومیٹر جائزے (American Barometer Survey) پورے شمالی اور جنوبی امریکہ میں منعقد کئے گئے۔ شہریوں کے سامنے والدین کے طور پرآمریت پر فطری رویے کے بارے تین سوالات کا استعمال کیا گیا اور جوابات کو صفر (انتہائی غیر آمرانہ) سے ایک (انتہائی آمرانہ) کے پیمانہ پر پرکھا گیا۔
تو کس طرح شہریوں کی آمرانہ جبلتیں اُن کو آمرانہ لیڈروں کے لئے ووٹ دینے کے امکان کو ظاہر کرتی ہیں؟
اس کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس طرح کے آمر رہنما کی بات کر رہے ہیں۔ جیسے کہ آپ نیچے دی گئی تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔imrs-php
آمرانہ نفسیات کی جبلتوں والے لوگ زیادہ تر دائیں بازو کے کے آمر رہنماؤں کی حمایت کرتے ہیں۔ جیسا کہ گوئٹے مالا کے اوٹو پیریزمولینا یا پیرو کے کیکو فوجیموری۔ کسی شخص کی دائیں بازو کے آمر رہنما کو ووٹ دینے کے امکانات 10 % پوائنٹس تک بڑھ جاتے ہیں، جیسے جیسے ان میں آمریت کی سطح نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتی ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ کچھ ملکوں میں آمریت دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے امیدواروں، جو آمر نہیں ہیں، کی حمایت سے بھی منسلک ہے۔ ان میں یوروگوئے اور کوسٹا ریکا شامل ہیں۔ لیکن حیرانی یہاں ہے: فطری آمرانہ نفسیات کا حامل ہونا، بائیں بازو کے آمروں کی حمایت کرنے سے مشروط نہیں ہے۔ مثال کے طور پر شاویز، لاطینی امریکہ کا موجودہ صدی کے شروع کا سب سے مشہور آمر۔

مشرقی یورپ سے تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ سوویت بلاک میں آمر مزاج شخصیت کے حامل شہریوں نے بائیں بازو کی آمر حکومتوں کی حمایت کی۔ یہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ اُن حکومتوں کو پرانے نظام کی نمائندگی کرنا تھی ۔ ایسا بہت سارے لاطینی امریکی ملکوں میں نہیں ہے۔ آمرانہ جبلتوں والے شہری عام طور پر دائیں بازو کے طرف دار ہوتے ہیں۔ امیدوار چاہے آمر ہوں یا نہ ہوں۔

بائیں بازو کے آمر بلند اور پست دونوں قسم کی آمرانہ سوچ رکھنے والے امیدواروں کو کھینچتے ہیں۔ اور دولت آمر لیڈروں کے لئے ووٹ کے امکان کو کم کر دیتی ہے، لیکن صرف بائیں بازو کی سوچ والے رہنماؤں کے لئے۔
تو کیا چیز ہے جو کسی بھی طرح کے آمر لیڈروں کے لئے ووٹ کی پیشین گوئی کر سکتی ہے؟ تعلیم کی سطح
جیسے آپ نیچے دی گئی تصویر میں دیکھ سکتے ہیں تعلیم کی سطح دونوں طرح کے؛ دائیں بازو اور بائیں بازو؛ کے آمر لیڈروں کے لئے حمایت میں بڑا حصہ ڈالتی ہے۔

imrs-php2

 

جتنی زیادہ آپ کی تعلیم ہوگی، اُتنے ہی آپ کے آمر لیڈر کےلئے ووٹ ڈالنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ اگرچہ آپ کی فطرت آمرانہ ہی کیوں نہ ہو۔

بائیں بازو کے آمر امیدواروں کے لئے یہ فرق بہت زیادہ ہے۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے شہری جو رسمی تعلیم نہیں رکھتے، اُن کے بائیں بازو کے آمر لیڈر کو ووٹ دینے کے 20% امکانات زیادہ ہیں، بہہ نسبت اُن شہریوں کے جن کے پاس کالج کی سطح یا اس سے زیادہ کی تعلیم ہے۔ دائیں بازو کے آمر رہنماؤں کے لئے تعلیم کا یہ فرق اتنا زیادہ نہیں ہے۔ یہ فرق 6 % پوائنٹس کے قریب ہے۔ شماریاتی لحاظ سے یہ بھی اہم ہے۔ آمر رہنماؤں کے لئے حمائت تعلیم کی بلندی کے ساتھ اتنی کیوں گر جاتی ہے؟ ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے سکول جمہوری اقدار سکھا تے ہیں اور کمرۂ جماعت میں گزارا ہوا زیادہ وقت ان اقدار کو اپنانے کا باعث بنتا ہو۔ ممکن ہے تعلیم ایک دوسرے فائدے سے منسلک ہو، جو لوگوں کو لبرل جمہوریت کے آدرشوں کی حمایت پر اکساتی ہے۔ بظاہر ’’ جمہوری ادارے‘‘ دراصل سکول ہیں۔

ایمی اریکا سمتھ: آیووا سٹیٹ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائینس کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور اس وقت یونیورسٹی آف نوٹریڈیم میں انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز کی وزٹنگ فیلو ہیں۔

مولی کوہن: وینڈربلٹ یونیورسٹی میں لاطینی امریکی عوامی رائے کے پروجیکٹ میں ریسرچ فیلو ہیں۔

About فیاض ندیم 14 Articles
پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حیاتیات میں گریجویشن اور ماسٹرز کیا۔بعد ازاں انھوں نے اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’ تعلیمی انتظام و انصرام‘‘ میں ماسٹرز بھی کیا اور آج کل ’’تعلیمی انتظام و انصرام ‘‘(EPM) میں ایم ایس کر رہے ہیں۔فیاض ندیم کری کولم ونگ(curriculum) سے بھی گاہے گاہے وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے سکول اور کالج کی سطح کے حیاتیات کے مضمون کے نصاب کی تیاری میں بھی حصہ لیا اُن کی لکھی اور نظر ثانی کی ہوئی درسی کتابیں کے پی کے اور وفاقی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی ہیں فیاض ندیم اسلام آباد کے ایک سرکاری کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔ اُن کا شعبہ حیاتیات اور نباتیات ہے۔