(علی اکبر ناطق)
دوسرے دن کی کہانی سُننے سے پہلے ذرا ہمارے بستر کی ،کمرے کی اور سونے کی واردات سُن لیں ، اول تو یہ کہ جیسے ہی قدم کراچی میں رکھتے ہیں ،سر میں درد شروع جاتا ہے ، بخار اور نزلے کا نزول بھی ساتھ ہی ساتھ ،کیوں ؟ اِس بابت وہاں کا سمندر جانے یا سمندر میں روزانہ ڈھائی کروڑ لوگوں کی بہتی ہوئی گندگی جانے۔ نہ ہوا ہمیں راس آتی ہے کہ مچھر۔
کمرا صاف تھا لیکن جب کوئی چیز زیادہ ہی صاف ہو تو بھی ہمیں اُلجھن ہونے لگتی ہے۔ بیڈ کے صوفے اتنے نرم کہ ایسے اندر دھنس گئے جیسے قبر میں اُتر گئے ہوں ۔ اِدھر ہم کھری چارپائی اور مُنجھ کی کھاٹوں پر سونے والے، نیند آ کے نہیں دیتی تھی اور آنکھیں سُرخ ۔ کھڑکی کھولتے تھے تو مچھر لبیک کرتا ہوا آتا ،بند کرتے تو حبس بڑھتا اور ائر کنڈیشن چلانا ہمیں یاد نہ رہا ۔ خیر رات کاٹی خدا خدا کر کے ۔ صبح چھ ہی بجا اُٹھا ، نہایا دھویا ، ایک افسانے پر کچھ کام کیا اور ٹھیک 9 بجے اُسی سمندری تختے پر ناشتے کے لیے پہنچا ۔ سمندر کا پانی شام کی نسبت کچھ بلند ہو چکا تھا اور مونگیر کے درختوں کے بیچوں بیچ سیر کر رہا تھا۔
وہیں آصف فرخی صاحب اور پیرزادہ سلمان صاحب براجمان تھے۔ اِدھر اُدھر کے دوستوں کو چھوڑ کر ہم منیز ے کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ آج دو بجے منیزے ہمیں ایک بک شاپ پر لے جانے والی تھیں، جو 1940 میں قائم ہوئی تھی اور اب بند ہونے کے چکروں میں تھی اور مالک اُسے بیچ رہا تھا۔ منیزے کو پتا چلا تو وہاں پہنچی ، ایک مہینہ لگا کر اُسے اول تو صاف کیا پھر مالک دکان کو راضی کیا کہ مت بیچے ، ہمارے ساتھ دو خواتین اور بھی بیٹھ گئیں ، اب یاد نہیں رہا کون تھیں ، تھوڑی دیر میں ناشتے پر بھیڑ کافی لگ گئی اور ساڑھے 9 بجے تک دانشوری کا سارا بوجھ تختے پر لد گیا۔ 10 بجے منیزے کی پینل ڈسکشن تھی، وہ تیاری کے لیے چل دی اور ہم اُٹھ کر آصف فرخی اور پیرزادہ سلمان کے ساتھ پسر گئے۔
ہم نے آصف فرخی کو سید گزار حسنین صاحب کی افسانوں کی کتاب پیش کی جسے وہ لے کر چلتے بنے اور ہم کچھ دیر سلمان صاحب کے ساتھ اکیلے ہو گئے اور شعرو ادب پر فتویٰ بازی شروع کر دی ،سلمان صاحب بڑے مہذب ،با مروت اور پڑھے لکھے انسان ہیں ، اُن سے مل کر اچھا لگا۔ ڈاکڑ ناصر عباس نیر کے مداح ہیں۔ ہمارے ساتھ ناصر صاحب کے افسانوں پر گفتگو کرتے رہے اتفاق و اختلاف چلتا رہا۔ اچھی اچھی گفتگو ہوئی۔ چونکہ ہم خود ناصر صاحب کے مداح ہیں اِس لیئے کئی باتوں پر متفق ہوئے۔ کچھ دیر بعد ہمارا سیشن تھا ، اس لیے جلدی اُٹھے اور ہوٹل کے صحن میں آ گئے۔
ہجوم اتنا تھا کہ تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔ سیشن مین گارڈن میں تھا اور ہم چار لوگ تھے ، افضال احمد سید صاحب، سیف محمود ، سیدہ عارفہ زہرہ اور راقم خود یعنی علی اکبر ناطق ، سیشن کا نام عجیب تھا ،،اردو نوں کیا ہوا ،، اور گفتگو بھی عجیب بلکہ غریب تھی ، یعنی سیدہ عارفہ نے طے کر رکھا تھا کہ سب کی بات کو رد ہی کرنا ہے اور رد پر اپنی ڈیڑھ اینٹ کھڑی کرنی ہے ، چنانچہ وہی ہوا ۔ بات نہ کرتی تھی کوسنے دیتی تھیں۔
گارڈن بھرا ہوا تھا ،مطلب یہ کہ دو ہزار آدمی کھڑے تھے اور بیٹھے تھے، گاہے تالیاں بجاتے تھے، گاہے روتے تھے اور گاہے سرپیٹتے تھے۔ سب سے پہلا سوال سیف محمود نے ہمیں سے کیا کہ پنجابی اردو میں داخل ہونے کی روایت پر کچھ کہیے ،ہم نے پنجابی ہونے کے ناطے بساط بھر جو کچھ جھولی میں رکھتے تھے، اُلٹ دیا اور لوگ سمجھ بھی گئے مگر ہائے عارفہ صاحبہ کی دانش وری ہمارے حقائق کو کیسے گوارا کر سکتی تھی۔ لگیں ایک ایک کر کے ہمارے دلائلِ مبینہ پر آری پھیرنے۔ البتہ افضال احمد سید صاحب نے ہماری طرف داری کی اور خوب کی اور دشمنوں کے دانت نہ صرف کھٹے کیے بلکہ جاتے ہوئے، اُنھیں مسواک بھی دی۔ بڑے شاعر ہیں نا ، بڑاپن تو دکھائیں گے ہی اور شائستہ گفتگو سے سامعین کا دل موہ گئے۔
سیف محمود کی گفتگو نے مجمعے کو یوں باندھے رکھا کہ ایک پر اِدھر سے اُدھر نہ ہوا۔ اُنھوں نے مجھے ایک پنجابی نما اردو نظم کے لیے کہا۔
آخر میں سوال جواب چلے۔ ایک اردو سپیکنگ بیچارا پنجابیوں کو کوسنے دینے لگا کہ ہماری زبان خراب کر دی، ہائے اسکول کو سکول کر دیا، اسپیچ کو سپیچ بنا دیا،اب اُس سے کیا پوچھتے کہ بھائی آپ نے بھی تو انگریزی کو خراب کر کے سپیچ کو اسپیچ بنا رکھا ہے پنجابیوں نے تو اِس پھیر کو سیدھا کیا۔ خیر سیشن ختم ہوا تو لوگ دوڑ دوڑ کر سیلفیاں لینے کو بڑھے، تب ہمیں بھی محسوس ہوا کہ بھائی زندوں میں ہیں، ہم پھولے نہ سماتے تھے اور سیلفیاں دیتے تھے۔
ساتھ ہی کتابوں کے اسٹال لگے تھے، بھئی اللہ جھوٹ نہ بلوائے اُن اسٹالوں پر ہماری جو کتابیں تھیں، سب نکل گئیں، اور اِسی بات کی ہمیں زیادہ خوشی بھی ہوئی ۔باقی تو سب چونچلے ہیں میاں۔ بارہ بجے تک ہوٹل میں تلِ دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ ایک ایک وقت میں پانچ پانچ سیشن چل رہے تھے ۔ اور ہر ایک میں ہال لدے لدے تھے ۔ مجال ہے کوئی جگہ خالی ہو ۔ بھئی اتنا ہجوم پہلے نہ تھا۔ ایک طرف ضیا محی الدین پڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف حنیف اور کاشف اور رفاقت کا سیشن چل رہا ہے۔ اور سب میں مجمع برابر۔
اُس کے بعد ہم رائٹر روم میں آگئے جہاں سب بیٹھے گپیں ہانکتے ہیں۔ یوسفی صاحب، غازی صلاح الدین ، فہمیدہ ریاض ، تنویر انجم ،عذرا عباس، عقیل عباس جعفری، اداکارہ شبنم، ندیم، ثانیہ سعید،زاہدہ حنا اور شاہد صدیقی کے علاوہ بیسیوں لوگ تھے۔ یہ کافی اور چائے والا کمرہ ہر وقت باتوں چیتوں کا گویا ٹھکانا تھا اور باہر علم و ادب کے سیر گروں کا جھُرمٹ تھا، اتنے میں پھر نسیم سید صاحب آ گئیں اور ہم اُن کے ساتھ خوش گپیوں میں جُت گئے۔ دو بجے منیزے ہمیں ہوٹل اور میلے سے نکال کر اُسی بک شاپ پر لے گئی جس پر تفصیلی مضمون ہم لکھنے والے ہیں اور کل لکھیں گے۔
منیزہ نقوی کے ساتھ جونہی پانئیر بک شاپ پر پہنچے، حیرانیوں نے گھیر لیا، اتنی خوبصورت اور کھلی بک شاپ اور ایسے اچھے ٹھکانے پر تو پہلی دفعہ نظر میں آئی۔ مالک دوکان کا نام ظفر تھا اور مست آدمی تھا ، ہمارے جانے پر نیند سے چونکا ، منیزہ نے ساری دوکان کا سروے کرایا، دوکان کی تین سٹوریاں ہیں۔ آپ بک شاپ میں داخل ہوں تو گویا 1920 میں داخل ہوگئے۔ پُرانا دور ایک دم کایا کلپ کر کے سامنے چلا آتا ہے ۔ سب کچھ دیکھ بھال کر ،جسے منیزہ نے صفائی کر کر کے صیقل کر دیا تھا ،ہم واپس فرشی حصے میں آگئے۔
اگرچہ منیزہ صاحبہ نے ظفر صاحب سے ہمارا تعارف کرا رکھا تھا مگر ابھی تک اُسے ہم میں شاعر کم اور لونڈا زیادہ دکھائی دیتا تھا ۔ خیر بیٹھ گئے ، باتیں واتیں چلیں ، حضرت صاحب کم کم ہی بولتے تھے ۔ اتنے میں دوکان کے اندر دو آدمی داخل ہوئے اور لڑیچر کی کتابیں مانگیں یعنی اچھی قسم کی شاعری کی ۔ ادب کی کتابیں یہاں نہ ہونے کے برابر تھیں ، منیزہ نے اُنھیں بھی پکڑ کر بٹھا لیا کہ ناطق صاحب بڑے شاعر ہیں، اِن کو سُنتے جاؤ، اب ہم نے نظم شروع کی۔ چند مصرعوں بعد صاحب مکمل جاگ گئے ۔ اور بہت خوش ہوئے ،ہم بھی ہوئے اور منیزہ تو بہت ہی ہوئی۔
نظم ختم ہوئی ،چائے آئی ، اجنبی نے مروت میں ایک کتاب خریدی ،جو عذرا عباس کی تھی ،اور ہم نے ایک کتاب خریدی ،جو آصف فرخی کی تھی ، یہی وہاں پڑی تھیں ، مالک دوکان کے چہرے پر رونق بحال ہوئی ، ہم نے چائے پی اور اب نکل لیے کہ چھ بجے فیسٹول میں مشاعرہ تھا۔ ہوٹل پہنچے تو بہت دوست انتظار میں تھے، سب سے ملاقاتیں واتیں کیں، اتنے میں علی ہاشمی بھی آ چکے تھے، اُن سے گپ شپ چلی اور پھر عین وقت پر مشاعرے میں چل دیے۔ پانچ دس ہزار بندہ سُننے کو بیٹھا تھا۔ ہم دس شاعر تھے۔ اور ہم یعنی میں سب سے چھوٹا تھا ، مگر پڑھا درمیان میں یعنی کچھ بڑے مجھ سے پہلے اور کچھ بڑے بعد میں پڑھنے والے تھے۔ ہم نے نظم پڑھی ، احباب کا خیال ہے ٹھیک پڑھی تھی ، مگر ہم ویسی نہیں پڑھ پائے جیسی پڑھنی چاہیے تھی دو چار مصرعے بھول گئے اور پڑھی بھی ڈر کے مارے تیز تیز۔ خیر اچھا ہی ہو گیا۔
مشاعرہ ختم ہوتے ہی ہم تو چلے گئے دال روٹی کھانے ،جو یو بی ایل والوں نے جما رکھی تھی مگر یہاں خالی خالی ماحول تھا انگلش ٹائپ لوگ نہ تھے، بعد میں پتا چلا تعداد اِس لیے کم ہے کہ اُن کا سامان وہاں نہیں تھا۔ خیر وہی بارہ بج گئے یعنی ہم تو روٹی کھاتے رہے اور عوام باہر بیٹھی لال بینڈ سُنتی رہی ، اللہ بچائے لال بینڈ سے، پتا نہیں اِس تیمور کو کس نے بتا دیا ہے کہ اُس کی بینڈ اچھی بجتی ہے۔
جاری ہے