(زمرد مغل)
ایک عرصے تک ابنِ صفی کو پاپولر ادب کا خوشہ چین قرار دیاجاتا رہا اور اسی چیز کو بنیاد بناکر ادب کے تمام دروازے ان پر بند رکھے گئے۔ ابن صفی کی ادبی جلاوطنی کی داستان پر ایک ناول لکھا جاسکتا ہے جو ایک دلچسپ، حیرت انگیز او ر سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ادب کے تخلیقی پیمانوں پر بھی کھرا اترسکے۔ ابنِ صفی کی ادبی جلاوطنی کی روداد بہت طویل ہے۔ مگر اس صبر آزما طویل سیاہ رات کے بعد جو سحر نمودار ہوئی، وہ بھی کم سحر انگیز نہیں ہے۔ابنِ صفی کی جلاوطنی کے ختم ہوتے ہی واپسی کے سفر نے بھی بے اعتدالیوں کی ایک الگ طرح کی روایت قائم کی ہے، ابنِ صفی کو راتوں رات آسمانِ ادب کا نہ صرف درخشندہ ستارہ قرار دے دیاگیا بلکہ ان کی شان میں قصیدہ گوئی کی ایسی روایت قائم ہوئی ہے کہ شاید وباید، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابنِ صفی کی جلاوطنی جس طرح ان کی تفہیم میں مدد گار ثابت نہیں ہوئی ٹھیک اُسی طرح سے ابنِ صفی کی دن پھرتے ہی جس اندھی عقیدت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اُس سے بھی کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں۔ کسی بھی تخلیق کار کے کام کی سراہنا حددرجہ اعتدال کے ساتھ ہی اس کے کام کا جائزہ لے کر کی جاسکتی ہے۔
ہمارے جہاں دیدہ نقادوں نے جاسوسی، صحافتی اور مزاحیہ تحریروں کے ساتھ ’ادبی ٹیگ‘ لگانے کی شدید مخالفت کی ہے۔تخلیقی عمل کی ان کے خود کے ہاں ہی کوئی متعین تعریف موجو د نہیں ہے، بس جو سمجھ میں آیا یا جو منہ میں آیا بول دیا اور اسے ادب کو ماپنے کا پیمانہ قرار دیاگیا۔ جبکہ سامنے کی بات ہے کہ ادب وہ ہے جس میں تجربہ زیادہ سے زیادہ فیصد الفاظ کا روپ دھارنے میں کامیاب ہوجائے۔ اگر اس چیز کو پس منظر میں رکھ کر یاذہن میں رکھ کر ابنِ صفی کے ناولوں کا مطالعہ کیاجائے تو وہ بحیثیت جاسوسی ناول نگار ہی اچھے ادب کے خالق قرار دیے جاسکتے ہیں، جبکہ ان کے ہاں مزاح کی بھرپور موجودگی بھی اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے۔
ابنِ صفی کو خالص جاسوسی ناول نگار کی حیثیت سے بھی اگر پڑھا جائے تو میری ناقص رائے کی حد تک وہ ان ناول نگاروں سے کہیں آگے نکل جاتاہے جو اخبار کے اشتہارات کا یا تھرڈپیج پارٹیز کا اردو ترجمہ کرکے اور ان کے ساتھ ’’پیچھے مڑکر دیکھا‘‘ یا’’آگے بہت دور تک دیکھا‘‘ جیسے جملے لگاکر اُردو والوں سے اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جبکہ ان کے سیکڑوں صفحات پر مشتمل ناولوں میں یاتوتجربہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے یا پھر تجربے کو الفاظ کا جامہ پہنانے میں ناول نگار کے ہاتھ میں صرف ناکافی آئی ہے۔ تقسیم ہند کے نام پر یاکسی دوسرے دکھڑے کا رونا روکر کوئی تحریر سپردِ قلم کرنے سے بڑا ادب وجود میں نہیں آسکتا، یہ بات گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دواور دوچار کی طرح صاف ہوگئی ہے۔ابنِ صفی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کنڈیشنڈ ذہنیت سے اپنی تحریروں کو سپرد قلم نہیں کرتے اور یہی چیز انہیں اردو کا بہترین ناول نگار بناتی ہے۔ابنِ صفی چونکہ کنڈیشنڈ ذہن سے نہیں لکھتے، اسی لیے عمران جیسے عظیم اور لافانی کردار کو خلق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جو برے سے برے حالات میں اپنی حس مزاح سے کام لینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ابنِ صفی کا مزاح ’’The Great Indian Loughter‘‘ جیسا مزاح نہیں ہے جہاں راجو شریواستو یا احسان قریشی مائیک پر کھڑے ہوکر لطیفے سناتے ہیں اور نہ ہی ابنِ صفی کے ہاں وہ عامیانہ پن ہے جس میں کسی مشاعرے کی روداد کے بہانے اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے ڈائس پر موجود کم ظرف شعراء کو ذلیل کیا جاتا ہے۔ بلکہ ابنِ صفی کا مزاح اس وقت وجود میںآتا ہے جب حالات اس بات کا تقاضاکررہے ہوتے ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں، وہ حواس باختہ ہوجائے،یا ڈیپریشن کا شکار ہوجائے، جو ان کے کرداروں کی نفسیاتی صحت مندی کی طرف اشارہ کرتاہے اور یہی وجہ ہے کہ ابنِ صفی کو وقت اور حالات ’’کنڈیشن‘‘ نہیں کرسکے۔
دوسری اور اہم بات جو ابنِ صفی کو اُردو ادب کے لیے نہ صرفRelevantبناتی ہے بلکہ ابنِ صفی کے ناولوں کی قرأت کو مشرقی تہذیب کے قاری کے لیے لازم قرار دیتی ہے وہ ہے ابنِ صفی کا ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے پس منظر اور پیش منظر کو جزئی تفصیلات کے ساتھ اجاگر کرناSamuel Huntingtonنے جو ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا نعرہ بلند کیاتھا وہ دیوانے کی بڑ نہیں تھا، بلکہ اس وقت دنیا کی دوبڑی تہذیبیں عالمی سطح پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں اور مغربی لکھنے والے اپنا کام خاموشی سے کررہے ہیں مگر مشرقی تہذیبوں نے اُس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے میں جو آناکانی کی ہے، اس کا خمیازہ اس کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ابنِ صفی وہ واحد ناول نگار ہے جس نے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے اس بلند ترین عمارت کی نیورکھ دی ہے جس کی آخری منزل پر مشرقی تہذیب کے جھنڈے کو نصیب ہونا ہے۔ ابنِ صفی کے عظیم اور لافانی کردار’’عمران‘‘ کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عمران جن مشکل ترین مہمات کو سرکرتا ہے، ان مہمات کو سرکرنے کے لیے عمران جن خصوصیات اور صفات کا استعمال کرتاہے، اور مشکل سے مشکل سچولیشن سے مکھن کے بال کی طرح نکل جاتا ہے وہ اس کا مارشل آرٹ کا ماہرہونا ہے اور یہ مارشل آرٹ اس نے اپنے چینی استاذ سنگ ہی سے سیکھا ہے۔ اس مارشل آرٹ کا نام بھی ’’سنگ آرٹ ہی ہے‘‘ جو غالباً ا س بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس آرٹ کا موجد’’سنگ ہی‘‘ ہی ہے۔ یہاں پر جو باتیں قابلِ غور ہیں وہ یہ ہیں:
عمران کے لیے ابنِ صفی کا چینی استاذ کا انتخاب کرناابنِ صفی کی دوراندیشی پر دال ہے۔ وقت نے ثابت کردیاکہ ’’بائی پولر‘‘دنیا سے روس کے زوال کے بعد ’’یونی پولر‘‘ دنیا جس کا سربراہ اور سرغنہ امریکہ تھا، نے بھی اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کردیاہے۔ ظلم وستم کی جو داستان سقوطِ غرناطہ سے شروع ہوئی تھی اور جس نے اپنے عروج کے دن کو لمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے بعد دیکھے اور ظلم ستم سے تاریخ کے صفحات کو سیاہ کرنا جاری رکھا ، اب افغانستان سے انخلا کے بعد وہ بسترِ مرگ پر ایڑھیاں رگڑنے میں مصروف ہے۔ اس وقت چین ہی دنیا کی ایسی بڑی طاقت ہے جس نے دنیا کی زمام کار سنبھال لی ہے۔ مشرقی تہذیبوں کو آئندگان کی منزلیں چین کی سربراہی میں ہی طے کرنی ہیں۔ ابنِ صفی نے جو نوشتۂ دیار پڑھا تھا وہ سچ ہوکر رہا۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے جو نقاد مغرب سے صرف وہی سامان نظریات کے نام پر اسمگل کرتے ہیں جو وہاں سوسال پہلے سے ہی اپنی معنویت اپنے ہی وطن میں کھوچکا ہو، جس کا کوئی پرسان حال خود اسی سرزمین پر نہ ہو جہاں اس کا طوطی بولتا رہا ہو، ایسے مغربی نظریات کو برآمد کرکے ہمارے ہاں ،خاص طور پر اُردو ادیب لے آتے ہیں، آخری سانس لیتے ہوئے فرسودہ مغربی نظریات کو ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر ادبی آکسیجن کی فراہمی کے ذریعے زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایسے لوگوں کوابنِ صفی کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا یہ بات بعید از قیاس بھی ہے اور بعید از امکان بھی۔ کیونکہ ابن صفی براہِ راست ’’عہد حاضر‘‘ کے مغرب کو برآمد کرتے ہیں۔ ا ن کے ہاں تہذیبوں کی کشمکش کے وہ رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو عہد حاضر کا خاصہ ہیں، ان کے ہاں ہمیں وہ مغرب نظر آتا ہے جو ہمارا ’’ہم عصر‘‘ مغرب ہے۔ ابنِ صفی کی اہمیت کے اجاگر ہونے کے پیچھے بھی یہی راز کارفرما ہے کیونکہ ابنِ صفی کے وقت کے مغرب کو ایک زمانہ گزرگیاہے۔ اور ہمارے دانشور ’’جبل گردد جبلت نہ گردد‘‘ کے مصداق اس وقت کے مغرب کی برآمدگی کے لیے راہیں ہموار کررہے ہیں، ایسے میں انہیں ابنِ صفی کے عیوب بھی محاسن نظر آنے لگے ہیں۔
ابنِ صفی کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس بات کو بھانپ لیا تھا کہ مغرب کا سیاسی زوال مغرب کے فکری غلبے اور تسلط کے سنگِ بنیاد کا کام کررہا ہے۔جنسی بے راہ روی کو سامنے کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ابنِ صفی وہ واحد مصنف ہے جس نے مشرق کے اس خطے کو (جس میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش آتے ہیں) جنسی بے راہ روی سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ نہیں تو حال یہ تھا کہ بڑے بڑے شنکراچاریہ اور شیخ الحدیث لحاف اوڑھے اوباش، فحش، عریانیت سے بھرپور اورچھچھورے لٹریچر پڑھنے میں مصروف دکھائی دے جاتے تھے۔ ادیبوں کا حال تو یہ تھا کہ وہ ہم جنسیت کا شکار ہوکر رہ گئے تھے، تیسرے درجے کی فحش اور عریانیت سے بھرپور تخلیقات پر مضامین کے انبار لگائے جارہے تھے، ایسے میں ابنِ صفی کا قارئین کا دھیان بالکل ایک دوسری سمت میں کھینچنا اتنا بڑا سیاسی، سماجی، ادبی اور تہذیبی کارنامہ ہے جس کے لیے دفتروں کے دفتر بھی کم پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
ابنِ صفی نے کچھ دنوں تک اسرار ناروی کے نام سے شاعری بھی کی مگر اسرار ناروی نے جلد ہی اس بات کو محسوس کرلیاکہ اب وقت شاعری کرنے کا نہیں بلکہ اس میدانِ ادب سے کوڑا کرکٹ اور کباڑ ہٹانے کا وقت آگیاہے۔اگر وہ شاعری ہی کرتے رہے تو اس عظیم مشن کو کبھی بھی پایۂ تکمیل تک پہنچایانہیں جاسکے گا۔لہٰذا انہوں نے فکشن کے میدان کا انتخاب کیا، کیونکہ اس وقت فکشن کے ہی راستے سے اخلاقی اقدار کا جنازۃ نکالنے کے لیے راہیں ہموار کی جارہی تھیں، معیار سے گرے ہوئے، تہذیبی اقدار سے عاری، عریانیت او ر فحاشی سے لیس تحریروں سے فکشن کے نام پر ادبی بازاروں میں گہما گہمی تھی، لیکن فحش وعریاں ادب کے علمبرداروں سے ان کے قارئین کی کثیر تعداد چھین لی اور انہیں ڈرائنگ رومز تک سمٹے رہنے پر مجبور کردیا۔ابنِ صفی پر’’پاپولر ادب‘‘ تخلیق کرنے والوں کو اپنے اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لینا چاہیے۔ابنِ صفی نے ایسے قارئین کی ایک کثیر تعداد وقت کے نام نہاد بڑے تخلیق کاروں سے چھینی ہے، جن کی تربیت انہوں نے اپنے درجنوں ناولوں،سیکڑوں افسانوں سے کی تھی، کئی سال کی محنت سے تیار کی گئی قارئین کی اس نسل نے جب اپنے اپنے چہیتے ناول نگاروں، افسانہ نگاروں کو پیٹھ دکھاکر ابنِ صفی کے ناولوں کا انتظار بے چینی سے کرنا شروع کیاتو ایسا محسوس ہوتاتھا کہ جیسے میدان جنگ میں فوجیوں نے بغاوت کردی ہو اور دشمن فوج سے جاملے ہوں۔ اس لیے ابنِ صفی پر پاپولر ادب خلق کرنے کا الزام بھی دعویٰ بلاثبوت کے ہی مترادف قرار پاتا ہے اور یہ ابنِ صفی کی تحریروں کی عظمت ہی ہے کہ شمس الرحمن فاروقی جیسا دیدہ ور نقاد عمر کی ایسی منزل میں، جب اعصاب جواب دے جاتے ہیں، ابنِ صفی کے ناولوں کے انگریزی تراجم کے لیے اپنے آپ کو وقف کرتاہے۔ فاروقی صاحب نے ابنِ صفی کے چار ناولوں کا انگریزی ترجمہ کیاہے۔ جن کے عناوین مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) Smoke Water
(2) Poisoned Arrow
(3) Doctor Dread
(4) The Laughing Corpse
فاروقی صاحب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں جس طرح سے خود انہوں نے ادبی من چلوں سے اُردو کی عزت وآبرو کی حفاظت کی ہے۔ ٹھیک اُسی طرح سے ابنِ صفی نے بھی اپنے ناولوں کے ذریعہ اردو ادب کو فحاشی کا اڈہ بنائے جانے کے ناپاک عزائم کو دھول چاٹنے پر مجبور کرکے اردو کی بے پناہ خدمت کی ہے۔ سچ بات تو یہ ہے شمس الرحمن فاروقی کا ابنِ صفی کے ناولوں کا ترجمہ کرنا ایک بڑے انسان کا دوسرے بڑے انسان کے تئیں احترام محبت کے اس جذبے کا عکاس ہے ،جس کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ نامکمل رہے گی۔
ابنِ صفی نے یہ جان لیاتھا کہ مستقبل کی کمان عورت کے ہاتھوں میں جانے والی ہے۔ کیونکہ مرد نے غلبہ اور تسلط کے ہزاروں سال یہ ثابت کرنے میں لگادیے ہیں کہ وہ نااہل ہے، عورت بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہے۔ اس کا احساس ابنِ صفی کو تھا، لیکن ابنِ صفی کوئی خطرہ مول لیے بغیر عورت کی صلاحیتوں کو لوہا منوانا چاہتے تھے، اسی لیے انہوں نے ویلن کے کردار میں عورت کو پیش کیا، ہیرو کے کردار میں پیش کرنے کی جرأت نہیں کرپائے، اور ایسا شاید ابنِ صفی کے اندر کے بڑے تخلیق کار اور پاپولر لٹریچر کے خالق کے بیچ نفسیاتی کشمکش میں پاپولر لٹریچر کے خالق ابنِ صفی کی بڑے تخلیق کار ابنِ صفی پر برتری اور غلبہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ مثلاً تھریسا اورچولیا کے کرداروں میں ابنِ صفی نے مورت کو بے پناہ صلاحیتوں کی مالک کے طور پر متعارف کرایا ہے، مگر وہ عمران، حمید اور کرنل فریدی جیسا کوئی نسوانی کردار خلق نہیں کرتے غالباً جس کا سبب یہ ہے کہ وہ بھیMale Dominant Societyسے انحراف کی جرأت نہیں کرپائے۔
بے حد دلچسپ مضمون جو مصنف کی تحریروں کے اہم گوشوں پر روشنی میں لاتا ہے اور سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کیا یہ صرف پاپولر اور تفریحی ادب تھا یا اس سے آگے کی کوئی چیز؟ اس معاملے میں ہمیشہ مختلف آراء رہیں گی مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ ابن صفی ہی کیوں؟ پاپولر لٹریچر والے اور ادیبوں پر تو یہ بحث ہوتی نہیں ہے۔ تو بھائی کچھ نہ کچھ تو ہے ان کے فن میں۔ ع
جو کہہ گئے وہی ٹہرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی
بھائی زمرد مغل ابن صفی کے قارئین اور اہلِ خانہ کی جانب سے بھ حد شکریہ اس مضمون کو تحریر کرنے اور ہم سب کو شریک کرنے کے لئے۔
خیر اندیش
احمد صفی
بہت زبردست اور ادب کے ٹھیکداروں کو چبھتی ہوئی ایک تحریر
انسان زندہ نہیں رہتے لیکن ان کا کام زندہ رہ جاتا ہے۔
ابن صفی نے جو کارنامہ ہائے سر انجام دیے ہیں اب اس پیڑھی کا کام ہے کہ اس کی جزیات کو عام لوگوں پر ظاہر کریں
تحریر تو بہت عمدہ ہے۔ البتہ ابن صفی صاحب نے جو نئی راہیں نکالی وہ اپنے کردار فریدی و حمید کو بنا کر نکالی۔ تحریر میں جگہ جگہ عمران کا ذکر ہے۔ عمران تو بعد میں ابن صفی صاحب نے بنایا اور بعد میں مقبول ہوا۔ عمران سے پہلے فریدی و حمید شہرت کی بلندیوں کو بھی عبور کر چکے تھے۔ تحریر میں اسی بات کا ذکر ملتا ہے کہ ابن صفی صاحب نے کیسے اعلی معیار قائم کیا۔ یہ سارا معیار فریدی و حمید کرداروں کے ذریعے سامنے آیا پھر عمران کا کردار بنایا گیا۔ جب بھی کوئی تحریر مختلف فورمز پر دیکھتا ہوں تو فریدی و حمید کا ذکر نہ ہو تو وہ تحریر پسند ہی نہیں آتی۔ فریدی و حمید کے ذکر کے بغیر ابن صفی صاحب کا ذکر ادھورا ہے۔ اسی طرح عمران کا ذکر نہ ہو اور فریدی و حمید کا ذکر ہو اس طرح بھی ابن صفی صاحب کا ذکر ادھورا ہے۔ باقی تحریر بہت اچھی ہے۔