(محمد حمید شاہد)
جب سے ہمارے ہاں سوشل میڈیا عام ہوا ہے ، اِدھرُ ادھر کی اچھی بری اور کچی پکی خبریں جھٹ سے وہاں چڑھا دی جاتی ہیں ۔ اب یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ ان خبروں کی تصدیق کرتے پھریں ۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کی رحلت کی خبر مجھے اس وسیلے سے ملی تو اس پر یقین
کرنے سے پہلے میں نے جھٹ آصف فرخی کو فون ملالیا ۔ آصف فرخی کی سسکیوں میں ڈوبی ہوئی آواز سے ہی مجھے یقین ہو گیا تھا کہ ایک عالم ادیب ، ایک خوب صورت نثر لکھنے والااور ادب کی اپنی تہذیب کا سچا نمائندہ اس دنیا میں نہیں رہاتھا ۔ آصف فرخی اپنے باپ کی ادبی وراثت کے امین ہیں جب بھی ہمارا ملنا ہوتا ان کے والد صاحب کا ذکر بیچ میں ضرور آتا ، جس روز آصف اپنے والد صاحب کی رحلت کی خبر کی تصدیق کر رہے تھے ، اُنہی لمحوں میں ،جن اُنہوں نے یہ کہا تھاکہ’’ وہ تو آپ کو بہت پسند کرتے تھے ‘‘ تو یقین جانیے کہ میں اپنے آپ کو دُنیا کے خوش قسمت ترین اِنسانوں میں سے ایک سمجھنے لگا تھا ۔ یہ اطلاع میرے لیے نئی نہ تھی کہ انہوں نے میرے افسانوں کی ایک کتاب پر بہت محبت سے لکھا تھا مگر ایسا ان کے ادیب بیٹے سے سننا میرے بدن میں عجب سنسی سی بھر گیا تھا ۔
شاید اِس واقعے کو تیس سال ہو چکے ہوں گے کہ میں کراچی میں اُن کی رہائش گاہ پر اُنہیں دیکھنے گیا تھا ۔ اس کے بعد بھی کئی مواقع نکلے مگر جس اسلم فرخی سے میری ملاقات اُن کی نثر کے ذریعے ہوئی وہ یوں لگتا ہے مسلسل میرے وجود میں حاضر رہتے ہیں ۔ یہ نثر بنا بنا کر نہیں لکھی گئی ہے، یہ تو ایک تہذیبی وجود کی عطا ہے ۔ ذرا دھیان میں لائیے ان کے خاکوں کی کتابیں ۔ مگر ٹھہریے ،پہلے ان کی، اس کتاب کا ذکر ہو جائے ، جس میں انہوں نے سات کلاسیکی شعراء کی زندگیوں اور فن کا زائچہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ ہم ایک ایک شاعر کا تذکرہ پڑھتے ہیں اور لگتا ہے جیسے لپک کر ان بڑے شاعروں کے زمانے میں پہنچ گئے ہوں ۔ جی، میں’’ سات آسمان‘‘ کی بات کر رہاہوں جس میں میر تقی میر، مرزا محمد رفیع سودا، خواجہ میردرد، غلام ہمدانی مصحفی ، خواجہ حیدر علی آتش، شیخ امام بخش ناسخ اورمحمد ابراہیم ذوق جیسے کلاسیکی شاعروں پر بات کی گئی ہے ۔جس ڈھنگ اور قرینے سے اُنہوں نے ان بڑے شاعروں کی زندگیوں کو لکھا ہے ، ان کے مزاجوں کو آنکا ہے اور ان کے فن کی تعبیر کی ہے ،یہ کچھ انہی کا حصہ ہے ۔ آغاز یوں ہوتا ہے جیسے آپ ایک کہانی پڑھنے چلے ہوں اور جب یہ کہانیاں قاری کی توجہ ہتھیا لیتی ہیں تو ڈاکٹراسلم فرخی شخصیت کے فنی بھید بھنوراُس پر کھولتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً دیکھیے، میر تقی میرکا ذکر ہو رہا ہے ، اس خدائے سخن کی زندگی کے نشیب و فراز بتائے جارہے ہیں اور جنوں کا ذکر بھی ہوتا ہے جو میر کو وراثت میں ملا۔ یہیں وہ اُن کے فن کی تعیین قدر یوں کرتے ہیں :
’’اردو شاعری میں خدائے سخن ایک ہی ہے اور وہ محمد تقی میر ہیں ۔ وحدت میں جس کی حرف دوئی کا نہ آ سکے ۔میر کو یہ رتبہ کیسے حاصل ہوا ، یہ بات غور طلب ہے اور اسی غور و فکر سے ہمیں اپنے سوال کا جواب مل جائے گا ۔ مگر اس غورو فکر کا محور میر کی شاعری ہے اور کسی حد تک ان کی شخصیت بھی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے مل جل کر تخلیق کی سطح پر ، پھر معنویت کی ایک نئی دنیا پیش کرتے ہیں۔ ‘‘
خواجہ حیدر علی آتش کا ذکرکرنے بیٹھے تو اُنہوں نے لکھا :
’’اولیت خیال و فکر کو ہے ، بندش الفاظ اور مرصع سازی اس کے بعد ۔ پہلے خیال، تاثر،تجربہ،واردات، پھر فکر کی آمیزش سے اس کی تراش خراش ، یافت اور بازیافت ۔ اس کے بعد لفظیات کا مرحلہ ، جہاں بندش الفاظ میں مرصع سازی کے سارے لوازم ملحوظ رکھناپڑتے ہیں ۔نہ داری اسی سے پیدا ہوتی ہے ۔‘‘
اچھا، یوں بھی ہے کہ ڈاکٹرصاحب شاعری کے ان روشن میناروں سے ملانے محض ہمیں اُن کے زمانے میں لے جاکر ایک طرف نہیں ہو جاتے ، اپنے زمانے کا چلن بھی دیکھتے رہے ہیں اور اسے کلاسیک سے جوڑ کر ایک تسلسل میں دیکھتے رہے ہیں ۔ آتش ہی کا ذکر کرتے ہوئے جن اُنہوں نے اغل بغل دیکھا تھا تو یہ بھی صاف صاف لکھ دیا تھا:
’’ہمارے عہد کے فن کار نے محرومی کو تلخی اور تلخ کلامی میں سمو دیا ہے ۔ مگر اس عہد میں بھی یگانہ، مصطفے زیدی، اور سلیم احمد کی آواز میں آتش کے لہجے کی گونج بہت واضح ہے ۔ نئے شاعروں نے آتش سے اکتساب نہ کرکے اپنا نقصان کیا کہ آتش’’اس کا کتا ہرن سے بہتر ہے‘‘ کہنے کے باوجود اردو غزل کو نیا لہجہ دے گئے ،نیا آہنگ دے گئے ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے مطابق شاعری کی کلاسیکی روایت کے سات آسمانوں میں سے ایک آسمان شیخ امام بخش ناسخ بھی تھے، ان کا ذکر آیا تو اسلم فرخی نے بتایا کہ اردو کی قدیم شاعری کے حوالے سے بعض اصطلاحیں بڑی بے تکلفی سے استعمال ہوتی ہیں ،مضمون آفرینی، خیال بندی، نازک خیالی ، نیا مضمون پیدا کرنا ، خیال کا طلسم باندھنا ، خیال کی نزاکت، یہ ساری اصطلاحیں ناسخ کے یہاں معراج فن کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہیں وہ بہ اصرار کہتے ہیں :
’’ کوئی مانے نہ مانے ناسخ نے شاعروں کو ایک نیا راستہ دکھایا اور بعد میں آنے والے شاعروں کے لیے اپنے شاداب تخیل ، لفظی رعایتوں، خیالی تشبیہوں ، حسن بے حجاب کی کھلی ڈلی تصویروں ،صنعت گری اور اخلاقی مضامین کی وجہ سے ایک مثال اور نمونہ فراہم کر گئے ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے لگ بھگ 92 برس عمر پائی ، ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے زمانے میں فرخ آباد سے اِدھر کراچی اُٹھ آئے اور لگتا ہے اپنا فرخ آباد بھی ساتھ اٹھا لائے تھے۔ اپنے گھر میں ادبی روایت کو قائم رکھا اور اپنی اولاد میں ادبی ذوق کو منتقل کیا ۔ کراچی یونیورسٹی سے منسلک رہے وہاں رجسٹرار کے طور پر بھی کام کیا۔انجمن ترقی اُردو پاکستان میں مشیر علمی ا ادبی کے فرائض سر انجام دیئے ۔ ریڈیو پر بھی پروگرام کرتے رہے۔ شاعری کی، خاکے لکھے اور بچوں کے لیے بہت لائق توجہ کام کیا ۔ تصوف سے رغبت رہی اور اس باب میں بھی ان کا بہت اہم کام ہے ۔لطف یہ کہ اس سارے عرصے میں ان کی توجہ اپنے کام پر رہی ، وہ جو کہتے ہیں شخصیت کا مِٹا ہوا ہونا ، تو وہ ایسے ہی تھے ۔ ان کے اس شعر میں ان کی شخصیت کو تلاش کیا جا سکتا ہے:
کیوں گوشہ خلوت سے نکلتے نہیں اسلم
بیٹھے ہیں جدھر لوگ اُدھر کیوں نہیں جاتے
تو یوں ہے کہ وہ بھیڑ بھڑکے کے آدمی نہ تھے، کتاب اور لفظ سے محبت کرتے اور اسی سے رشتہ نبھاتے رہے ۔شاعری کا ذکر آیا تو ڈاکٹر صاحب کی غزل سے دو شعر اوریاد آگئے ہیں ، وہ بھی عرض کیے دیتا ہوں :
زد پہ آجائے گا جو کوئی تو مر جائے گا
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا
۔۔۔۔۔
آگ سی لگ رہی ہے سینے میں
اب مزا کچھ نہیں ہے جینے میں
یاد آتا ہے میر کے حوالے سے ہی ڈاکٹر صاحب نے’’سات آسمان‘‘ میں لکھا تھا:
’’میر نے محبت کی بے زبانی کو زبان عطا کی ہے ۔ محبت کا نغمہ ہر شاعر نے چھیڑا ہے لیکن میر کی محبت رسمی اور محدود نہیں ۔یہ ان کے وجود کا بنیادی عنصر ہے ۔ ان کے رگ و پے میں رواں دواں ہے ۔ محبت ان کی فکر ان کا ذہن ان کا دل ، ان کی روح ہے’’محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور۔ نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور ‘‘اس محبت میں بے راہ روی نہیں ، باغیانہ جوش نہیں ، نرمی اور دھیما پن ہے ۔ جذبہ تعمیر اور بہتر انسانیت کی تشکیل کا حوصلہ ہے ۔ ‘‘
محبت کے اسی وفور نے اگر میر صاحب کو خدائے سخن بنایاتھا تو یہی محبت کا وفور ان کی شخصیت کو باوقار بنا گیا ہے۔ میں اس وفور کو اگر ایک طرف میں ’’نظام رنگ ‘‘،’’ فریدوفرد فرید‘‘،’’فرمایا سلطان جی نے‘‘،’’بچوں کے سلطان جی‘‘،’’فرمایا خواجہ غریب نواز نے‘‘ وغیرہ جیسی کتابوں سے اُمنڈتا برستا دیکھ سکتا ہوں تو دوسری طرف ’’محمد حسین آزاد،شخصیت و فن‘‘ میں یا پھر ان کی لکھی ہوئی خاکوں کی کتابوں میں ، جیاس باب میں’’گلدستہ احباب‘‘،’’آنگن میں ستارے‘‘،’’لال سبز کبوتروں کی چھتری‘‘اور’’رونق بزم جہاں‘‘ جیسی کتابوں کی معروف غیر معروف شخصیات کو یاد کیجئے ، وہ ساری زندگی ،جو ان شخصیات نے جھیلی آپ کی حسیات کا حصہ ہو جائے گی ۔ کہنے کو یہ خاکوں کی کتابیں ہیں مگر کہیں بھی شخصیت کی خاک نہیں بکھیری گئی ، زندگی کو گفتنی نا گفتنی سارے پہلوؤں سے لکھا گیا ہے مگر لفظ لفظ محبت سے لکھا گیا ہے یوں کہ آس پاس کا منظر بھی اس محبت کی خوشبو سے مہکنے لگتا ہے ۔
میں نے ان کتب کو بھی دیکھا ہے جو ڈاکٹر صاحب نے بچوں کے لیے لکھیں جن میں سے ایک کا ذکر اوپر ہو چکا اور آپ نے اس سے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ کہ جن سے ڈاکٹر صاحب خود محبت کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے ، ان کی محبت کی مہک نئے زمانے کے بچوں کو بھی منتقل کرنا چاہتے تھے۔’’بچوں کے مرزا غالب‘‘،’’بچوں کے مولانا شبلی نعمانی‘‘،’’بچوں کے مولانا حسرت موہانی‘‘اور’’بچوں کے ڈپٹی نذیر احمد‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ڈپٹی نذیر احمد کے باب میں ڈاکٹر صاحب نے بچوں کو بتایا تھا:
’’نذیر احمد کی زندگی ذاتی محنت ،مسلسل محنت، کوشش اور جدوجہد کا بڑا اچھا نمونہ ہے ، وہ طالب علم جو اپنے نام کے ساتھ شوقیہ ڈپٹی کلکٹر لکھا کرتا تھا ، نہ صرف ڈپٹی کلکٹر ہوا بلکہ ڈپٹی کالفظ اس کے نام کے ساتھ ایسا چپکا کہ آج بھی انہیں صرف نذیر احمد نہیں ، ڈپٹی نذیر احمد کہا اور لکھا جاتا ہے ۔‘‘
یہ تھا طریقہ ڈاکٹر صاحب کا کہ شخصیات کا بتاتے بتاتے اُن میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور کچھ کر لینے کی للک بھی پیدا کر دیتے تھے ۔ اسی سلسلے کی ایک اور کتاب ہے ’’بچوں کے رنگا رنگ خسرو‘‘ اس کتاب کے ذریعے ایک مقام پر ڈاکٹر صاحب نے بچوں کے اندر صبر کی قوت پر ایمان مستحکم کرنے کے لیے وہ واقعہ بہت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے جس کے مطابق تاتاریوں کے حملے میں خسرو کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔تاتاری اُنہیں گھوڑے کے ساتھ باندھ کر گھسیٹتے ہیں ۔ گھوڑا دوڑ رہا ہے ۔ گرمی کا موسم ہے ، اُوپر سے آگ برس رہی ہے، نیچے زمین تپ رہی ہے اور خسرو کا سارا بدن چھل گیا ہے۔ بیابان میں گھوڑا دوڑتاہوا ایک چشمے تک پہنچا ہے۔ تب تک تاتاری گھڑ سوار اور اُس کا گھوڑ ا پیاس سے نڈھال ہو چکے ہیں ۔ لہذا وہ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ خسرو کو بھی پیاس نے ستا رکھا تھا مگر انہوں نے نے صبر کیا۔وہ جانتے تھے کہ فوراً ہی پانی پر ٹوٹ نہیں پڑتے ، نقصان ہوتا ہے ، گرمی سے ہونکتا سوار اور گھوڑاپانی پیتے پیتے اوندھے جا گرے، دونوں کا کام تمام ہوا خسرو غلام ہونے سے بچ گئے ۔ تو یوں ہے کہ جو بھی بچہ اس واقعے کو پڑھتا ہے اس کا تعارف صبر کی بے پناہ قوت سے ہوتا ہے۔
یہاں تک پہنچا ہوں توڈاکٹر اسلم فرخی کی ایک اور کتاب’’صاحب جی،سلطان جی‘‘ یاد آگئی ہے ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیا اور سلاطین دہلی کے تعلقات کا جائزہ لیا ہے ۔ ایک مقام پر انہوں نے شیخ سعدی کا قول مقتبس کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’ دس درویش ایک کملی میں گزارا کر سکتے ہیں لیکن دو بادشاہ ایک ملک میں نہیں رہ سکتے ۔‘ وہ مزید لکھتے ہیں :’’ اقتدار کسی اُبھرتے ،ترقی کرتے ، دلیر اور حوصلہ مند کو اپنے مقابل گوارا نہیں کرتا ۔ اقتدار میں ایسا نشہ ایسا سرورایسی کیفیت ہے کہ باپ بیٹے کو ، بیٹا باپ کو ، بھائی بھائی کو ، بھتیجا چچا کو ، چچا بھتیجے کو راستے سے ہٹانے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا سکتا ہے ، گردانیں مار سکتا ہے ۔تو ایسے میں جو دلوں کو فتح کرلے ان کے ساتھ سلاطین کے تعلقات کیسے ہوں گے ۔‘‘ در بار اور خانقاہ کی یہی کشمکش اس کتاب کا موضوع بنی اور ہمیں بہت کچھ سجھا گئی ہے۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب کی غزل سے ایک اور شعر:
ہنگامہ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے
رستے میں کھڑے ہوگئے ، گھر کیوں نہیں جاتے
ڈاکٹر صاحب ساری عمر علم اور ادب سے جڑے رہے ، مگر ایک وقت آتا ہے کہ ہنگامہ ہستی سے گزرجانا پڑتا ہے اور اُنہیں بھی گزرنا پڑا۔