وقار نسیم وامق)
میرے ہر نقش میں پنہاں ہے کہانی تیری
فن کی معراج ہے تصویر بنانی تیری
اردو شاعری کے مایہ ناز شاعر احمد فراز کو رخصت ہوئے ایک مدت ہوئی لیکن آج بھی وہ اردو شاعری کے تخت پرتخت نشیں ہیں احمد فرازؔ کا شمار اردو کے ان ممتاز الکلام شعراء میں ہوتا ہے جو اپنی دانشورانہ اور مدبرانہ سوچ کے تحت شاعری کو جلا بخشتے ہیں، یہ میری نظمیں یہ میری غزلیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
وہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
احمد فرازؔ کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ آغا محمد شاہ برق کوہاٹی کے ہاں14 جنوری 1931 ء میں پیدا ہوئے ان کے والد اردو اور فارسی کے روایت پسند شاعر تھے لہذا شاعر ی انہیں ورثے میں ملی، پانچ چھ برس کی عمر میں پہلا شعر اس وقت کہا جب ان کے والد عید کے موقع پر احمد شاہ اور ان کے بڑے بھائی مسعود شاہ کے لئے کپڑے خرید کر لائے ، احمد شاہ کو بھائی کے مقابلے میں اپنے کپڑے پسند نہیں آئے تو اس کا شعری اظہار یوں کیا۔
لائے ہیں سب کے لئے کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لئے کپڑے جیل سے
احمد فرازؔ نے پشاور کے ایڈورڈ کالج سے ایم اے فارسی اور ایم اے اردو کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی، وہ صاحبِ کتابیات، مخزنِ فکر و فن اور منبعِ علم و کمال تھے ان کی شاعری دورِ حاضر کی منفرد آواز تھی اور عہدِ نو کے لطیف ذہنی ردِ عمل کا سچا نمونہ تھی انہوں نے اپنا کیریر ریڈیو پاکستان پشاور میں سکرپٹ رائٹر کے طور پر شروع کیا بعد میں وہ پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے ، 1976 ء میں وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر کئے گئے بعد ازاں انہیں نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ایم ڈی بنا دیا گیا۔
میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
احمد فرازؔ کی شاعری میں صدیوں کے تلاطم کا شعور بھی ہے اور عہدِ ناپرساں کی تلخیوں کا ادراک بھی، فرازؔ کی فکرِ رسا لمحہء موجود سے سراغ پاتی ہے اور ان دیکھے مناظر کی روح کشید کرتی ہے ان کی غزلیں تغزل سے بھرپورنادر مضامین اور خیالات کا مرقع ہیں ان کی نظمیں تاریخ کے روزنوں سے جھانکتی ہوئی اپنے عہد سے کلام کرتیں ہیں اور اثر انگیز پیرائیہ اظہار میں فسوں گری کا کرشمی دکھاتی ہیں۔
اس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلہ ء کن فیکوں ہے یوں ہے
شاعری روح کا نغمہ ہے آوازِ خوش کائنات کی خوبصورتی ہے آج بھی مہدی حسن اور نور جہاں کی آواز میں احمد فرازؔ کا تخلیق کردہ کلام ہماری سماعتوں میں رس گھولتا ہے جن میں اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ، سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ، اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں اور شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دونمایاں ہیں۔
قلم کار جاوید اختر جاویدؔ کے مطابق احمد فرازؔ کی شاعری میں حقیقت نگاری ، بے ساختگی اور شگفتگی ہے یہی سادگی اور پرکاری ان کی فکرکو جلا بخشتی ہے اور فن کو دوام دیتی ہے احمد فرازؔ اپنے فکروفن کو برؤے کار لاتے ہوئے شاعری کی ایک رومان پرور بستی کی خبر دیتے ہیں ان کی شاعری کا پسِ منظر امکانی وسعتوں سے بہت آگے نئے اور روشن زمانوں کی خبر دیتا ہے اور ان کی شاعری ذہنوں ذہنوں سفر کرتی ہے، احمد فرازؔ نے ایسی شاعری کو ترجیح دی جو شباب کی پہلی کرن دیکھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں میں قبولیت حاصل کرسکے، انتظار حسین نے ان کے بارے میں لکھا تھا ’’ احمد فراز ؔ کی ترقی پسند شاعری نے مزدوروں اور کسانوں تک رسائی حاصل کی ہو یا نہ کی ہو لڑکیوں کے حلقے میں تو بہت مقبولیت پائی وہ اپنی سادگی میں یہی سمجھتا رہا کہ احمد فرازؔ کی غزل کچی عمر کی لڑکیوں کو بہت اپیل کرتی ہے مگر انہیں اصرار ہے کہ بوڑھی عورتیں بھی ان کی شاعری کی اس طرح مداح ہیں جس طرح کچی عمر کی لڑکیاں ان پر ریجھتی ہیں۔
میں ترے لطفِ فراواں کا معترف ہوں مگر
حسین و خندہ جبیں میزباں تھی وہ بھی
مطابقت تو نہیں پر مماثلت ہے بہت
تو آسمان سہی سائبان تھی وہ بھی
تو ایک حرف و حکایت کے سلسلے کی طرح
طلسم ِ ہوشربا داستان تھی وہ بھی
تو لے اڑی ہے مجھے جس طرح نشے کی طرح
جو سچ کہوں تو مزے کی اڑان تھی وہ بھی
کشورناہید نے احمد فراز ؔ کو ایک کھلا خط اخبار ڈان میں اس وقت لکھا جب وہ ہسپتال میں بیہوش پڑے تھے، کشور نے لکھا تھا ’’ تمھیں اپنی عمر کا کتنا شعور تھا تم نے یہ بات کبھی پسند نہ کی کہ کوئی لڑکی تمہیں ’’انکل‘‘ کہہ کر مخاطب کرے تم کس کے محبوب نہیں اور ہر شام گلاس ہاتھ میں تھام کر تمہیں کون یاد نہیں کرے گا۔
تپتی دوپہروں میں آسودہ ہوئے بازو مرے
تیری زلفیں اس طرح بکھری گھٹائیں ہوگئیں
تیر ا برفیلا بدن بے ساختہ لو دے اٹھا
میری سانسیں شام کی بھیگی ہوائیں ہو گئیں
احمد فرازؔ ایک ایسا شاعر ہے جس کا شعر نئی پود کے لئے اس کے مزاج کے مطابق تیار ہوا اپنے لہجے اور فکر کے باعث اپنے اندر ایک حرارت رکھتا ہے اس کے کلام میں زندگی کے خاص دور کی امنگ اور ترنگ ہے انہوں نے فوجی راج کے خلاف نظم ’’محاصرہ‘‘
لکھی جو آمریت کی منظوم تاریخ ہے،
مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
فصیل ِ شہر کے ہر برج ہرمنارے پر
کماں بدست ستا دہ ہیں عسکری اس کے
احمد فراز کے مجموعہ کلا م کی تعداد 14ہے جن میں جاناں جاناں، خوابِ گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، دردآشوب، تنہا تنہا، نایافت، نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، ایک بدنما صبح کے بارے میں کچھ نظمیں، پس انداز موسم، شب خون، بودلک، یہ سب آوازیں میری ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، شامل ہیں جبکہ ان کا مکمل کلام’’شہرِ سخن آراستہ ہے‘‘کے نام سے منظرِ عام پر آچکا ہے۔
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ما ہ ِ تمام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا
اور فراز ؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
وہ 25اگست2008 ء کو اس جہان ِ فانی سے رختِ حیات سمیٹ گئے ، وہ یہ شعر اپنی زندگی میں کہہ گئے تھے ،
جو عمر گزاری ہے بڑی دھج سے گزاری
اب کوئی خوشی ہے نہ کوئی غم کہ چلا میں
آخری دنوں میں بے ہوشی، بے چارگی اور بے حسی کا احساس ان کے اس شعر سے عیاں ہے۔
حرف تڑپے گا مگر اذن ِ سخن چھن جائے گا
روشنی ہوگی مگر آنکھیں بجھا دی جائیں گی
ٓٓاس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک عزیز ِ جہاں رہے اور اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ برق کوہاٹی کے اس فرزند نے شاعری کی دنیا پر حکمرانی کی اور شہرت ِ عام سمیٹی۔
فراز آج کی دنیا مرے وجود میں ہے
مرے سخن کو فقط میر ا تذکرہ نہ سمجھ