از، ڈاکٹرصلاح الدین درویش
کائنات ایک بھید ہے کہ جسے کھولنے کے لیے سرِ دست انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے کہ جو شب و روز مصروفِ کار ہے۔ علوم و فنون کے تمام تانے بانے اسی بھید کے گرد بُنے جارہے ہیں۔ ایک تانا دوسرے بانے پر کیا چڑھتا ہے کہ بھید اپنے بھاؤ میں مزید وسعت اختیار کرلیتا ہے۔ محترمی سٹیفن ہاکنگ نے اسے کائنات کا پھیلنا بتایا ہے۔ یہاں کوئی منتر کام نہیں کرتا، لے دے کر پیمائش کے کچھ آلات ہیں کہ جن کی مدد سے کائنات کی وسعتوں میں موجود دسترس میں آنے والے مظاہر کی پیمائش کرلی جاتی ہے، اطراف میں قیام پذیر و دیگر ہمہ جہت، ہمہ گیر مظاہر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُن مظاہر کی اندرونی و بیرونی ساخت اور اُن کے میکنزم کا مشاہدہ و مطالعہ کرلیاجاتا ہے۔ انسانی تمدن یعنی Man Made Worldمیں مظاہر کے اس مطالعہ و مشاہدہ کے بعد قوانین مرتب کیے جاتے ہیں، یہ قوانین ازلی و ابدی صداقتوں کے حامل نظری بیانیوں کو کھُلا چیلنج کرتے ہیں۔ یہ قوانین جو کسی خاص مظہر یا مظاہر کی مقداری، وصفی اور وضعی پیمائش سے اخذ ہوتے ہیں، ان کا اطلاق کائنات کے دیگر غیرپیمائشی مظاہر پر نہیں کیاجاتا، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ قوانین ازلی و ابدی صداقتوں کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتے۔ یہ قوانین تحیّر کا اعلامیہ جاری کرنے کی بجائے کسی نئے مظہر کی دریافت اور پیمائش کے لیے چند بنیادی نوعیت کے سوالات ضرور قائم کرتے ہیں کہ جن کا تعلق ملتے جلتے مظاہر کی خاص علمی شاخ کے ارتقاء کے ساتھ ہوتا ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی نوعیت کے قوانین کو اخذ کرنے کے لیے گراف، مواد، معلومات، اعدادوشمار اور دیگر تفصیلات کو بھی پیمائشی مطالعہ کے قریب تررکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انسان کی بہترین صلاحیتوں اور لیاقتوں کا بہترین اظہار تمدن میں ہوتا ہے اور انسانی تمدن بطور مظہر قابلِ پیمائش ہے۔
جن باتوں کا گذشتہ سطور میں اظہارکیاگیا ہے اُن کے عین برعکس دوسری صورت گمان کی ہے کہ انسانی ذہن جو آنکھ سے کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے، وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ کسی طور قطرے میں دجلہ دکھائی دے اور جُز میں کُل۔ کُل جن متنوع اجزا سے مرتب ہے، اُن تک کافی قدر رسائی کے بغیر کوئی بھی دعویٰ اپنی صلاحیت اور سچائی کے حوالے سے درست نہیں ہوسکتا۔ گمان، خواب یا خواب نما سچائی سے انکار یا ارتداد میرے اس خاص مضمون کا مُدعا نہیں ہے۔ زندہ انسان ’’یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ‘‘کی خواہش ضرور رکھتا ہے لیکن عجلت، تساہل یا ایک ہی جست میں ایسے تمام مقامات طے نہیں ہوجاتے ۔ گماں انگیز بیانیے علمی و فکری اعتبار سے اپنے آپ میں اگر طاقت اور جرأتِ اظہار رکھتے ہیں تو اس کا سبب امکان سے قربت کی شدید ترین خواہش ہے۔ ادب اور آرٹ کی دنیا میں سارا تنوع اسی خواہش کی توسیع ہے۔ ادیب اور فنکار فطرت یا سماج کے مظاہر کو خود اپنے جہانِ امکان میں دریافت کرتا ہے، وہ نقل کی بجائے اپنے امکان کی جمالیاتی اصل کو اپنے فن پارے میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے اطراف میں دیکھی بھالی، چلتی دوڑتی بھاگتی دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، کسی فن پارے میں ہماری دلچسپی کے ارتکاز کی وجہ صرف اور صرف فنکار کا جہانِ امکانی ہوتا ہے کہ جن کی جملہ پیمائشیں بہت زیادہ بعد میں آنے والے زمانوں کی دسترس میں ہوں!!
اختررضاسلیمی کا ناول ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘دراصل فطرت اور نفسِ انسانی میں موجود حیرتوں کو معنوی اعتبار سے مربوط بنانے کی ایک کوشش ہے۔ حیرت، ذہنِ انسانی کا ایک ایسا مختصر یا طویل وقفہ ہوتا ہے کہ جس کی موزوں تجسیم خواہ وہ شعوری ہو یا تخیلاتی، نہیں ہوپاتی۔ وقوعات یا مظاہر کے درمیان بے شمار کڑیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی ساخت، ماہیت، اسلوب اور رنگوں سے ذہنِ انسانی آشنا نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے مناسب و موزوں الفاظ ہوتے ہیں کہ جن کے ذریعے کسی حیرت کو کسی خاص بیانیے کی صورت دی جاسکے۔ چنانچہ انسان کی علمی، فکری یا شعوری ذات حیرت کو جب گرفت میں لے لینے میں ناکام ہوجاتی ہے تو ادیب، شاعر یا کوئی بھی فنکار چند ابہام سے معمور انکشافات کرتا ہے جوکسی بھی نوع کی مقداری، وصفی یا وضعی پیمائش سے آزاد ہوتے ہیں۔۔۔۔یہ دراصل واقعات اور مظاہر میں موجود ناآشنا کڑیوں میں ربط پیداکرنے کے امکانی قیافے یا خیالیے ہوتے ہیں۔ ناول کے ہیرو ’’زمان‘‘ کے ذریعے اختررضاسلیمی نے ایسے ہی امکانی خیالیے کو حیرت کی نشاندہی کے لیے تخلیق کیا ہے۔یاد رہے کہ یہ حیرت خود زمان کی نہیں ہے بلکہ حقیقی جہان اور حیرت کے جہان میں ربط پیدا کرنے کی کوشش اختررضاسلیمی کا اپنا مسئلہ ہے۔
ناول کے مرکزی وقوعے کا تعلق سیداحمدشہید کے سکھوں کے خلاف ایک باغی جتھے کے دو نوجوان مجاہدین (جو آپس میں بھائی بھی ہیں)کی جرأت اور بہادری کے ساتھ ہے کہ جو اپنے مذہبی پیشوا کی شہادت کا انتقام بڑی دلیری کے ساتھ ایک سکھ سورما سے لیتے ہیں۔ اپنی ہمت اور کردار کی عظمت کے باعث ایک نئی بستی نُور آباد کی بنیاد رکھتے ہیں، سکھوں کی پنجاب میں کمرتوڑنے میں ان مجاہدین نے چوں کہ بڑی شجاعت دکھائی تھی، اسی لیے بعدمیں انگریزوں کی آشیربادی کے باعث جلد ہی اپنے علاقے کے سردار بن گئے۔انہی کی ساتویں نسل میں زمان جنم لیتا ہے۔ یونیورسٹی میں فزکس پڑھتا ہے اور ایک لڑکی ماہ نُور کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اُس کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر جو لکیریں ہیں وہی ایک چٹانی چبوترے پر بھی کندہ ہیں۔ حیرت کا یہ وہ عجوبہ ہے کہ جو اُس کی پوری شخصیت کو بجائے خود ایک عجوبہ بنادیتا ہے۔ چٹان اور چٹان کے ساتھ موجود ایک غار سے اپنے تعلق کو وہ کبھی نہیں سمجھ پاتا۔ اُسے ماہ نُور نہیں مل پاتی لیکن ایک پہاڑی لڑکی سے بیاہ رچا لیتا ہے کہ جو شکل و صورت میں ماہ نور جیسی تھی۔ ایک شدید زلزلے کے بعد جب اُسے غار سے نکال کر اسلام آباد کے ہسپتال میں پہنچایا جاتا ہے تو علاج کے بعد اپنے اردگرد کی دنیا کو پہچاننے سے انکار کردیتا ہے، تمام رستے اور ہر چیز اُسے اجنبی دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔وہ خود اپنی شعوری ذات میں جہاں اپنا حقیقی وجود رکھتا ہے اُس کا تعلق یا تو اپنے جدِامجد مجاہدنور خان کی دنیا سے ہے یا پھر سینکڑوں برس پہلے مہاراجہ اشوک کے عہد سے ہے کہ جس کا زمان ایک افسر ہے، جسے مذکورہ چٹان پر اشوک کا فرمانِ مقدس کندہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اب زمان زندہ حالتِ موجود میں ہے لیکن اُس کی سکونت اور قیام لاشعوری سطح پر ماضی قریب میں بھی ہے اور ماضی بعید میں بھی۔ اس گتھی کو سلجھانے کے لیے زمان کے باپ کے دوست جوایک نفسیات دان ہیں، کے پاس نفسیات کی کوئی اصطلاح ہے لیکن اختررضاسلیمی کی ناولائی دانست میں اجتماعی لاشعور کے حوالے سے یہ امکان موجود ہے کہ انسان بے حد و شمار ازل اور ابد کی تنہائی میں جو زندگی بسر کرتا رہا ہے بطور ایک نوع یا حیاتیاتی جاندار کے اُس کا سارا تجربہ اپنی شعوری اور لاشعوری دنیاؤں میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ امکان غالب ہے کہ ایک ہی انسان اپنے حیاتیاتی ارتقاء کے باعث اپنے موجود کے علاوہ گذشتہ کئی زمانوں کی زندگی بھی بسر کررہا ہو!!! ناول کو کہانی کے ان نتائج تک پہنچانا اس قدر آسان کام نہ تھا لیکن اختررضاسلیمی نے غار کے پہلے منظر سے لے کر زمان کی موت تک اسے بڑی خوبی اور مہارت کے ساتھ توسیع دی ہے۔
ناول میں موجود حیرت سے متعلق گمان کے منطقی بیانیے کے دوسرے بڑے وقوعے کا تعلق زمان کی اُس ذہنی کیفیت کے ساتھ ہے کہ جس انسلاک، حال، ماضی اور ماضی بعید کے علاوہ مستقبل کے ساتھ بھی ہے۔اختررضاسلیمی کی نظر میں اگر کوئی جیتا جاگتا انسان حال میں رہتے ہوئے تاریخ میں مدفون زمانوں کا ایک زندہ کردار ہوسکتا ہے تو کیا عجب وہ آئندہ زمانے میں بھی ایک زندہ انسان کے طورپرزندگی بسر کررہاہو، کم از کم مستقبل قریب میں ہونے والے واقعات کی وہ درست درست نشاندہی ضرور کرسکتا ہے کیونکہ وہ بطور انسان اپنے کردار کے باعث مستقبل میں بھی ’’زندہ ہے‘‘۔ آنے والے طوفان یا زلزلے کا پتہ ہماری حکایات کے سبب اگر جانوروں کو پہلے ہی سے لگ جاتا ہے اور زمان کا دوست کتا ڈبو بھی مستقبل قریب میں آنے والے سانحات سے لرزیدہ ہوجاتا ہے تو پھر زمان جو ایک انسان بھی ہے، وہ مستقبل میں ہونے والے واقعات کو کیوں نہیں بھانپ سکتا؟ ڈبو کی طرح زمان بھی مستقبل قریب میں ہونے والے واقعات کی نشاندہی پر قادر ہوجاتا ہے۔ ناول ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘دراصل ایک نیم یقین پیدا کرنے کی جاندار کوشش ہے کہ آئند و رفت کے تمام زمانے پرکار کی جس نوک پر رکھے گئے ہیں اُس کا مرکز انسان ہے، انسان کے نہ ہونے سے خود زمان و مکان کی نفی ہوجاتی ہے۔
ناول کی کہانی کے اعتبار سے حال سے ماضی اور پھر ماضی سے حال کی طرف کرداروں کے سفر کو دکھانا اردو ناول میں بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اختررضاسلیمی نے اسلوب کے اس وسیلے سے ایک اور کام لیا ہے کہ ایک ہی کردار بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل میں باقاعدہ زندہ اور متحرک دکھایاگیا ہے۔۔۔۔سلیمی کے نزدیک شخصی موت کسی انسان کے لیے حیرت کا دروازہ بند کرسکتی ہے لیکن وقت اور زمانہ دائمی ہے۔ حال میں موجود کسی انسان کی یہ خواہش کہ اُسے آئندورفت سے جدا نہ سمجھاجائے، اپنے اندر ایک تخلیقی جوہر اور بصیرت رکھتی ہے، جو کسی کُل کا احاطہ کرنے میں ناکام ہی سہی لیکن انفس و آفاق کی تفہیم کے حوالے سے چند نظری مباحث کی گنجائش ضرور نکال لیتی ہے۔ اگر کوئی قاری کسی گنجلک بیانیے کو سادہ بیانیہ اسلوب میں پڑھنے کی آرزو رکھتا ہو تو میرا مشورہ ہے کہ وہ علی عباس جلال پوری کو پڑھے یا اختررضاسلیمی کے اس ناول کو۔