(محمد مبشر نذیر)
ہم لوگ اختلاف رائے کے آداب سے بالکل ہی نا واقف ہیں۔ بالخصوص کسی دینی اختلاف کے وقت ہمارا پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم مخالف کی نیت کے بارے میں فوری شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شخص کوئی گمراہی پھیلانے کے لئے یا کوئی فتنہ پیدا کرنے کے لئے یہ نقطہ نظر پیش کر رہا ہے۔ بعض لوگ تو اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر دوسرے کے نقطہ نظر پر مثبت انداز میں تنقید کرنے کی بجائے اس کی ذات کو نشانہ بنا لیتے ہیں اور اسے ہر طریقے سے ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ جس مسلک میں ہم پیدا ہو گئے ، بس وہی حق ہے اور جو اس کے خلاف نقطہ نظر پیش کر رہا ہے وہ باطل اور گمراہ ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ان لوگوں کا کیا قصور ہے جو ہم سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کے گھر پیدا ہوگئے اور اپنے ہی نقطہ نظر کو درست سمجھتے ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذہب و مسلک پر نظر ثانی کرتے ہوئے حق کی تلاش کیوں نہ کی تو ہمیں بھی اپنے آبائی مسلک و عقیدے پر بھی ایک حق کے سچے متلاشی کی حیثیت سے نظر ثانی کر لینا چاہئے۔
ہمارا رویہ بالعموم یہ ہوتا ہے کہ اگر مخالف مسلک کا کوئی شخص تحقیق پر آمادہ ہو اور اس کے لئے ہمارے مسلک کو سمجھنا چاہے تو ہم اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں لیکن اگر ہمارے مسلک سے تعلق رکھنے والا کوئی طالب علم دوسرے مسلک کی کتابوں کا مطالعہ بھی شروع کردے تو ہم ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ مخالف مسلک کی کوئی کتاب پڑھنا یا ان کے کسی عالم کی بات سننا ہی ہمارے نزدیک گمراہی ہے۔ ابتدا ہی سے ہمارے ذہنوں میں یہ داخل کیا جاتا ہے کہ فلاں مشرک ہے ، فلاں بدعتی ہے یا فلاں گستاخ رسول ہے۔ اس کی کوئی بات سننایا اس کی کتاب پڑھنا ناجائز ہے کیونکہ اس سے گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک تو دوسرے مسلک کے کسی شخص کو سلام کرنے یا اس سے مصافحہ کرنے سے ہی نکاح فاسد ہو جاتا ہے۔
ہمارا دین عدل و انصاف کا علم بردار ہے اور اسی کا حکم دیتا ہے۔ کیا دنیا کی کوئی عدالت بھی کسی ملزم کی بات سنے بغیر اسے مجرم قرار دے کر سزا سناتی ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے عام مسلمان عدل و انصاف کے علم بردار کہلانے کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلک کے لوگوں کی بات سنے بغیر ان کے متعلق کفر، شرک، بدعت اور گستاخی رسول کا فتویٰ جاری کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ مخالف مسلک کے کسی شخص کو قتل کر دینا کوئی گناہ ہی سمجھا نہیں جاتا۔ ایسا کرنے میں کسی مسلک کی تخصیص نہیں بلکہ سب ہی مسالک کے لوگوں میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ اس بات کو سب ہی بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ عدل و انصاف کا خون کرنے میں مصروف ہیں۔
اختلاف رائے تو بہت معمولی سی بات ہے۔ ذرا غور کیجئے تو قومی دشمنی کے معاملے میں بھی قرآن مجید نے ہماری کیا رہنمائی فرمائی ہے: وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدہ 5:8) ’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
کسی اختلاف رائے کی صورت میں اگر ہم دوسرے کے نقطہ نظر پر تنقید کریں تو اس میں کچھ آداب کا بجا لانا عدل و انصاف اور علم و عقل کے مسلمات کی رو سے انتہائی ضروری ہے۔ منظور الحسن صاحب نے ان آداب کو اس طرح پیش کیا ہے۔
• جس شخص پر تنقید کی جارہی ہو اس کا نقطہ نظر پوری دیانت داری سے سمجھا جائے۔
• اگر اسے کہیں بیان کرنا مقصود ہو تو بے کم و کاست (یعنی بغیر کسی کمی یا اضافے کے) بیان کیا جائے۔
• جس دائرے میں تنقید کی جارہی ہے، اپنی بات اسی دائرے تک محدود رکھی جائے۔
• اگر کوئی الزام یا مقدمہ قائم کیا جائے تو وہ ہر لحاظ سے ثابت اور موکد ہو۔
• مخاطب کی نیت پر حملہ نہ کیا جائے ، بلکہ استدلال تک محدود رہا جائے۔
• بات کو اتفاق سے اختلاف کی طرف لے جایا جائے نہ کہ اختلاف سے اتفاق کی طرف۔
• پیش نظر ابطال نہیں بلکہ اصلاح ہو۔
• اسلوب بیان شائستہ ہو۔
اگر غور کیا جائے تو شاذ ہی ہماری کوئی تنقید اس معیار پر پورا اترتی ہو۔