(شیخ محمد ہاشم)
حیرت کا مقام ہے کہ طبقہ اشرافیہ کے کالے کرتوتوں پر دبیز غلاف چڑھانے کے لئے بعض ادارے اخفائے راز کی پالیسی اختیار کرنے پر قانون کے پابند ہیں۔اس طبقے کے با اثر شخصیات اربوں کھربوں کا قرضہ حاصل کر لینے کے بعد خود کو کنگال ظاہر کرتے ہیں، اور باآسانی قرضہ معافی کی سہولت سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ عوام پرحیرت کے پہاڑ اُس وقت ٹوٹے جب وفاقی وزیر سینیٹر اسحق ڈار صاحب نے ایوان کو بتایا کہ صرف 2015ء میں قرض معاف کرانے کا حجم270ارب روپے ہیں۔ ایوان نے جب ان قرضوں کی تفصیلات بنک آف دولت پاکستان سے طلب کی تو بنک کے حکام نے بنک کے اکاونٹ ہولڈرز کی اخفائے راز کی پالیسی کو آڑے لاتے ہوئے معذرت کا اظہار کرلیا۔
ملک اِس وقت بھاری قرضوں کے بوجھ تلے اکھڑی سانسیں لے رہا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں پاکستانی شہریوں کے لاغر کاندھوں پر8000ارب کے نئے قرضوں کے بوجھ کا اضافہ کردیا گیا ہے ،تین سال قبل ہر پاکستانی چھیانوے ہزار روپے کا مقروض تھا، آج یہ رقم بڑھ کر ایک لاکھ چوبیس ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ دل دہلا دینے والے اعداد و شمار کے باوجود بنک حکام پردہ پوشی کو اپنا ایمان سمجھ رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ روزوشب آزاد میڈیا کہلانے والے الیکٹرونک میڈیا نے ،حسب روایت بریکنگ نیوز میں باربار ٹیکر چلانے کی اس اہم موضوع پر ضرورت محسوس نہیں کی ؟
عجب طرفہ تماشا لگا ہوا ہے کہ حقیقی حق دار ضرورت مند غریب یا متوسط طبقہ اس سہولت سے فیض یاب ہو نے سے قاصر ہے۔ حقیقی کنگال طبقے سے تعلق رکھنے والے حشرات الارض قرض نادہندگان کو فوری قانون کے شکنجے میں جکڑ لیا جاتا ہے۔ اُن کو مزید قرضہ دینے سے روک دیا جاتا ہے، اُ ن کا بیرون ملک سفرکرنا بھی قرضے کی عدم ادائیگی تک محال ہوجاتا ہے۔ اُنھیں بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے، ان کیڑے مکوڑوں کے لئے کوئی اخفائے راز کی پالیسی نہیں ہوتی ،ان کو اس قدر مجبور اور بے بس کردیا جا تا ہے کہ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بر عکس دلچسپ بات یہ ہے کہ حب الوطن طبقہ اشرافیہ ایک مرتبہ قرض کی معافی کی سہولت سے فیض یاب ہونے کے بعد دوبارہ مستحکم حیثیت کے ساتھ ،قرض کی درخواست اور سفارش کی تسبیح لئے نئے پروجیکٹ کے لئے تازہ دم ہو کر قطار میں نظر آتے ہیں ۔پھر وہی ادارہ اُنھیں قرضہ معاف کرانے کے لئے باآسانی قرض فراہم بھی کردیتاہے ۔یہ تو بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی فلم شو یا سرکس کے جوکر کی کامیڈی کو ہر تین گھنٹے کے بعد بار بار دُہرایا جاتا ہے ۔پاکستانی سماج میں اس ڈرامے کو کئی عشروں سے دہرایاجا رہا ہے ۔اس کامیڈی اور المیے سے بھر پورشو کے ولن کے کردار وہی سیاست دان ،بیوروکریٹس ،اُن کے باپ، بیٹا،بھائی، رشتے دار ،دوست واحباب ہی ہیں ،جن کے لئے ادارہ رشوت کے عوض سہولت کار کا کردار بخوبی نبھا رہا ہے مجموعی طورپر یہ فلم کبھی نہ ختم ہونے والی کہانی پر مبنی ہے۔
کیا ہم دُنیا کی طرح تجربات اور مشاہدات سے کچھ سیکھنا نہیں چاہتے ،کیا یہ دستور خود غرضی،خود مُرادی ،حق تلفی پر مبنی نہیں ہے ؟ یہاں جو بُرے ہیں وہ ہشیار ہیں جو بُرے نہیں ہیں وہ بے وقوف ہیں، برسوں بیت گئے ہیں، آنکھیں تھک گئیں ہیں، اس قسم کے فلم شوز اور ڈرامے دیکھتے ہوئے ۔اب تو اسکرپٹ میں تبدیلی ہونی چاہیئے ۔ایک طبقہ اپنی خوشی کی خاطر غریب ومتوسط طبقے کوہی نہیں بلکہ ملک کی معیشت کو برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو مبتلائے فریب میں رکھا ہوا ہے۔ آگے بڑھنے کی دوڑ میں دوسرے کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کچلنے میں ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔کیا یہ پاکستان کی معیشت کے لئے سلامت روی کا پیغام ہے، کھربوں کے قرضے معاف کرا کے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور غریب ومتوسط طبقے کو پسماندگی کے گہرے گڑھے میں دھکیلنے والوں کی پردہ پوشی کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا اس کے مطلب ومعنی یہ نہیں نکلتے کہ وسائل کی رسائی ایک مخصوس طبقے تک محدود کردی گئی ہے؟ بالکل سو فیصد دانستاً یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ متوسط اور غریب طبقہ حشرات الارض ہیں اُنھیں اُن کے بنیادی حقوق مانگنے کا بھی کوئی حق نہیں ۔ دُنیا میں قائم فلاحی و رفاحی ریاستوں کا مشاہدہ کر کے دُنیا کے حالات ،واقعات ، تجربات و مشاہدات سے سیکھنا ہو گا ،مناسب قانون سازی سے قانونی سقم کا خاتمہ کرنا ہو گا۔
آیئے جون ایلیا کے موتیوں کی مالا کو اپنے گلے کا زیور بناتے ہیں “انسان ایک دوسرے سے مایوس تو ہو سکتے ہیں لیکن اُنھیں انسانیت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے،کیوں کہ انسان زمانے میں سانس لیتا ہے اور انسانیت زمانوں تک زندہ رہتی ہے۔ جب منعفت اور خسارے کا حساب ہمارے ہاتھوں میں ہے تو ہم انسانیت کے بارے میں سوچیں جو زمانے میں زندہ تھی اور زندہ رہے گی