اداروں پر تنقید کیسے کریں
سوشل میڈیا پر قومی اداروں پر تنقید اور اُن کی تضحیک کے خلاف ملک کے طول و عرض میں جاری آپریشن کا خیر مقدم۔ کاروائی کرنے والوں کے پیشہ ورانہ عزم کو سلام۔ نہ کوئی غائب ہوا، نہ کسی ان دیکھے ہاتھ نے کسی کی ٹانگیں توڑیں۔ باقاعدہ نوٹس، باقاعدہ پیشی۔ وقت پر تفتیش اور پھر اپنے اپنے گھر واپسی۔ کوئی ملک دشمن ہی ہوگا جو اِن اقدامات کی تعریف نہ کرے۔ کوئی ناعاقبت اندیش ہی ہوگا جو نہ مانے کہ یہ ماضی کے طریقوں سے بہتر ہے۔ مہذب معاشرے میں تاریک عقوبت خانوں سے اُٹھتی چیخوں کا بند ہونا ضروری ہے۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ فائلوں کا پیٹ بھرا جائے، مشکوک افراد کو اپنی صفائی کا موقع دیا جائے۔
لیکن قوم واضح ہدایات کی منتظر ہے۔ گائیڈ لائن مانگتی ہے۔
اِس غبی قوم کو ابھی تک ٹھیک سے یہی پتہ نہیں کہ ہمارے اداروں، حساس اداروں اور نیم حساس اداروں کی توہین کہاں سے شروع ہوتی ہے، ہنسنا کِس بات پر منع ہے۔ احترام بجا لانے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ وُہ تو ابھی تک یہی تکا لگاتے پھر رہے ہیں کہ اداروں اور حساس اداروں میں فرق کیا ہے۔ تو واضح کیے دیتے ہیں کہ ادارہ فوج ہے اور اُس کا حساس حصہ وُہ ہے جو اندرون اور بیرون ملک جاسوسی یا اِس سے ملتے جلتے فرائض انجام دیتا ہے۔ نیم حساس اداروں میں جج، علما اور لٹھ بردار مذہبی لوگ شامل ہیں جو حساس اداروں کی حساسیت دیکھ کر اپنے اوپر نیم حساس ہونے کی کیفیت طاری کر لیتے ہیں۔ یہ پورا معاملہ اِنتہائی حساس ہے اِس لیے اِن تمام اداروں کی ناموس کے نئے نئے محافظ وزیر داخلہ سے درخواست کی جاتی ہے کہ وُہ واضح ہدایات جاری کریں اور کم از کم مندرجہ ذیل گُنجلک مسائل کے بارے میں اپنی رائے دیں تاکہ محب وطن لوگ اُن کے شروع کیے کار خیر میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال سکیں۔
1: سب سے بڑا کنفیوژن حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کے بارے میں ہے مثلاً کوئی نہیں جانتا کہ ٹی وی پر مستقل براجمان ریٹائرڈ جنرل، ائیروائس مارشل قِسم کے لوگوں کے فرمودات پر عوام روئیں یا نہیں؟
2: جنرل اشفاق پرویز کیانی جیسے مدبر سپہ سالار کا نام لیتے ہوئے تو سب کو ڈرنا چاہیے لیکن کیا اُن کے مفرور بھائی پر تنقید جائز ہے؟
3: بعض ناعاقبت اندیش یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ فوجی ہمارے بھائی ہیں، اِس مٹی کی جم پل ہیں، جو خوبیاں خرابیاں ہم میں ہیں اُن میں بھی ہیں۔ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان دیتے ہیں لیکن جب نظریاتی سرحدوں کی بات کرتے ہیں تو لکیر دھندلا جاتی ہے کیا ایسے لوگوں کی بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے یا ایف آئی اے کا نمبر ملانا چاہیے؟
4: اگر کِسی کا بچہ فوجی کارن فلیکس کھانے سے انکار کرے تو کیا اُسے عاق کر دیا جائے یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام چلایا جائے؟
5: کیا ایف آئی اے پر تنقید جائز ہے؟ پہلے تو جائز تھی کیونکہ یہ ایک سویلین ادارہ تھا لیکن اب چونکہ فوج کی ناموس کی حفاظت پر مقرر ہے تو اِس کے بارے میں کوئی واضح ہدایت جاری کی جائے۔ کیا ایف آئی اے کے سابق سربراہ رحمٰان ملک کے بارے میں بنائے گئے سارے لطیفے واپس لینے پڑیں گے؟
6: کچھ ناہنجار قسم کے لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کیا ہمارے اداروں اور حساس اداروں پہ یہ وقت آ گیا ہے کہ ایف آئی اے کے ٹُھلے اُن کی ناموس کی حفاظت کریں گے۔ ایسے لوگوں کی سرکوبی کے لیے خاص اِنتظام کیا جائے؟
7: ملک کے کچھ کھاتے پیتے طبقے جو ڈی ایچ اے میں پلاٹ لے کر کروڑوں کماتے ہیں لیکن پھر ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈی ایچ اے کی اِنتظامیہ پر تنقید کرتے ہیں جو کہ اِتفاق سے حاضر سروس فوجی افسر ہوتے ہیں۔ اِن ناشکروں سے نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے۔
8: ہماری کئی نسلیں مرحوم کرنل محمد خان کی تحریریں پڑھ کے مزہ لیتی رہی ہے۔ کتاب انتہائی شستہ مزاح کا شاہکار ہے لیکن آخر میں اس میں ہیں تو فوج اور فوجیوں کے بارے میں لطیفے ہی۔ اُن کی کتابوں کے قابل اعتراض حصے یا تو حذف کیے جائیں یا پوری کتابیں ہی حذف کر دی جائیں۔
9: حالیہ دنوں میں ہمارے نیم حساس اداروں کے جج، ادارے کے سابق سربراہ کے لیے وارنٹ جاری کرتے ہیں۔ جج بلاتے ہیں، جنرل صاحب فرماتے ہیں میں نہیں آتا ابھی موڈ نہیں ہے۔ یہ واضح کیا جائے کہ اِس معاملے میں تضحیک جج کی ہوئی جنرل کی، یا عوام کی؟
10: چلتے چلتے یہ بھی واضح کر دیا جائے کہ اِس مادر پدر آزاد عوام پر تنقید اور اُن کی مسلسل تضحیک کا سدباب کیسے ہو گا؟ کیا اِس دنیا میں کوئی اُمید رکھیں یا حضرت مولانا طارق جمیل سے آخرت میں ملنے والی برکتوں کا بیان سُن کر دِل بہلاتے رہیں؟