ادارے یا شخصیات، ہمارا قومی معمہ؟

نعیم بیگ

کسی بھی گفتگو یامکالمے کا پہلا پڑاؤ  اس کے وہ فکری و فلسفیانہ اثرات ہوتے ہیں جو گفتگو میں اولاً شامل سامعین اور ثانیاً پورے معاشرے پر اپنے دیرپا نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہےکہ کیا ہم نے اب تک ملکی سطح پر ایسا مکالمہ ابھی تک کیا ہے یا نہیں۔ جو فکری سطح پر نئے در وا کرتا ہو یا کسی مسئلے کا ممکنہ درست حل ہو۔

یہی وہ بڑا سوال ہے جو کسی سوسائٹی کو اگلے مرحلے کی نوید سناتا ہے لیکن اس ضمن میں یہ دیکھنا بھی از حد ضروری ہے کہ کیا سماج کی وہ حقیقی تصویر جو کوئی بھی دانشور اپنی باطنی آنکھ سے دیکھتا ہے یا کسی فلسفہِ حیات نو سے اپنے طالب علموں کو روشناس کراتا ہے ، بن رہی ہے یا نہیں۔ یا وہ تحریر صرف سماجی ژولیدی کا باعث ہے یا اس سے آگے کی کوئی شے ہے؟

کارل مارکس نے کہا تھا کہ ’’ ہر اس رائے کا جو سائنسی تنقید پر منبی ہو گی میں خیر مقدم کرونگا۔‘‘

مجھے افسوس ہے کہ ہمارا کارل مارکس جیسے مفکروں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم اپنے افکار کی نمو مہابیانیوں سے اٹھاتے ہیں، انہیں ہی بوتے ہیں اور نتیجہً وہ فصل کاٹتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہی ہمارا سماجی المیہ ہے۔

خیرمجھے یہ تمہید یوں باندھنا پڑی کہ پندرہویں آرمی چیف آف سٹاف کی ریٹائرمنٹ نومبر ۲۰۱۶ میں ایک ایسے موڑ پر آ رہی ہے، جہاں ملک ایک خاص نقطہِ نظر سے دوراہے پر کھڑا ہے۔ انتطامی معاملات کی رو سے اس بڑے ادارے میں یہ روایت پڑ چکی ہے کہ تقریباً ایک ماہ پہلے ہی نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان ہو جاتا ہے تاکہ جنرل ہیڈ کوارٹر اور دیگر ملحقہ ادارے جو فوج کے زیر اثر ہیں وہ اپنے معاملات کو نئی تبدیلی کے زیر اثر درست سمت میں اپنی راہ متعین کر لیں۔

لیکن ایسا ہوتا کیوں ہے ؟ کیا اس کی خاص وجوہات ہیں؟ ملک میں اور بھی کئی ایک بڑے ادارے ہیں جو پارلیمان اور ریاست کے ستون ہیں۔ کیا پارلیمان اور عدلیہ کے اداروں میں بھی ایسا ہوا۔ کیوں ہم قانون کی بالادستی کو ان سب اداروں میں ایک ساتھ اور ایک جیسی پنپنے نہیں دیتے۔ آئیے لمحہ بھر کو اس تاریخ پر نظر ڈال لیتے ہیں جو ہمارا مقدر بنی۔  

بدقسمتی سے پاکستان کے قیام اور اس کی ابتدائی سیاسی قیادت کے آپسی ناسازگار تعلقات اور قائد کی موت اور بعد ازاں انکے نائب کی موت نے  ملک میں ایک ایسا سیاسی خلا پیدا کیا جسے آج تک نہیں بھرا جا سکا۔ یوں پارلیمانی نظام کے ادارے مضبوط نہ ہو پائے اور نتیجہً فوج خود بخود ایک بڑے ادارے میں ( یہاں ’’بڑے‘‘ سے میری مراد حجم کے لحاظ سے نہیں بلکہ فکری لحاظ سے  ہے )  تبدیل ہو گئی۔

پارلیمانی نظام کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ اس میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں  اور انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ جیسے ادارے  ان سرچشموں کے ہاتھ، کان اور آنکھیں ہوتے ہیں، لیکن یہاں پے در پے طویل مارشل لاؤں کی وجہ سے یہ سیاسی اور پارلیمانی ادارے نہ صرف  اپنے مادی حجم کا لحاظ کر سکے اور نہ ہی فکر و دانش کی سطح پر انکے ہاں ایسی انقلابی تبدیلیاں آئیں جس سے عمرانی اصولوں کی بنیاد پر انکا رابطہ عوامی سطح پر مسلسل اور جاری رہتا۔ یہی حال کچھ عدلیہ کا بھی رہا کہ نچلی سطح کا انصاف عنقا ہوگیا۔

دوسری طرف ہمارے تعلیمی و تمدنی مزاج میں جو تنزلی در آئی، اس کے اثرات پورے سماجی ڈھانچے پر آنے شروع ہوگئے۔ یہاں تک بھی معاملات کسی حد تک توازن کے بہاؤ پر قابو میں لائے جا سکتے تھے لیکن مذہبی تفرقہ بندیوں  اور افغان وار میں جہادی فلسفہ کی خود ساختہ مہمیز نے سارے ملکی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بعد ازاں اسی  جنگجویانہ سوچ کو ہمارے عسکری ادارے نے اپنی ساکھ کی قیمت پر نہ صرف اپنایا بلکہ کسی حد تک سرحدی معاملات میں انہیں سٹریٹیجک ڈپتھ کا نام دیکر زندہ بھی رکھا۔

تکلیف دہ امر تب کھُلا جب اسی سٹرٹیجک ڈیپتھ کا ایک باغی حصہ ’’مرسنریز‘‘ بن گیا اور معاشی بدحالی میں کینسر کے زہر کی طرح پورے جسم میں پھیلنے لگا اور جسم و جان کے بڑے حصوں کو نگلنے کی تمنا لئے (اے پی ایس سانحہ) سامنے آگیا۔ تب ہم نے اس گھپ اندھیری سرنگ میں دیکھنے کی  پہلی کوشش کی جہاں ہم چند دھائیوں سے خود بمعہ اپنی قوم داخل ہو چکے تھے۔    

اُس وقت کہنے والوں نے اس حد تک کہا کہ یہ ہمارے بھائی ہیں انہیں کچھ نہ کہا جائے اور اپنی اقتدار کی خواہش پر  انہیں مزید سہولیات سے مزیں کیا۔ قومی اور گراس روٹ لیول پر ایک ایسی سوچ کو جنم دیا جو خاموشی کو جلو میں لئے ہوئے ساکت و جامد ہو کر مسلسل قربان ہوتی رہی۔ ساتھ ہی نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لئے سماجی سطح پر معاشی مفادات کی خاطر جنگجو تنظمیں وجود میں آگئیں جنہیں غیر مرئی قوتوں کی سرپرستی بھی حاصل ہو گئی، گو ان تنظیموں کو بعد ازاں سرکاری طور پر کالعدم قرار دے دیا گیا لیکن انکے وجود کا لمس ابھی سماجی سطح پر باقی ہے۔ یہ تنظیمیں بعد میں سہولت کار کے طور پر دیکھی جاتی رہیں ۔

لیکن میرا سوال ان دانشوروں سے ہے جو جمہوری روایات کے پارلیمان میں رکھوالے بنے بیٹھے تھے۔ کیا انہوں کوئی احتجاج کیا؟  

نہیں ؟ قطعی نہیں؟  ہم اس سلسلے میں مجرمانہ خاموشی کے مرتکب رہے اور اس کی وجہ صرف یہ کہ ہم ملی مسائل کو ایک مخصوص معاشرتی و سماجی و معاشی پسِ منظر میں رکھتے ہوئے اسے اسلامائز کر چکے ہیں، جس کی بنا پرماحول کی سیاسی و سوشو اکانومیکل بد اعمالیاں سمِ قاتل کی طرح پورے سماج میں پھیل گئیں اور اس کے اثرات سبھی اداروں پر اپنی پوری قوت سے نظر آنے لگے۔

ایسے ماحول میں پورا معاشرہ کسی مکمل فلاسفیکل نظریہ سے ہم آہنگ ہوئے بغیر کیسے نئے سماجی وفکری زاویے کا اہتمام کر سکتا ہے۔ تاہم یہ سہرا بھی عسکری ادارے کے متفقہ فیصلوں سے ہوا جب انہوں نے نیشل ایکشن پلان کو نہ صرف اس نازک موڑ پر شروع کر دیا بلکہ اس کی کامیابی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔  بعد ازاں سول اداروں نے طوعاًکرہاً انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوایا۔ یہی وجہ ہے کہ نیشل ایکشن پلان باوجودیکہ تماتر معاشی اور عملی قربانیوں کے کوئی نتیجہ خیز منظر سامنے نہ لا سکا ہے۔ نتائجیئت کے متلاشی کوارٹرز کو ایسا کرنے کے لئے مذہبی کلچرل محرکات  سے نکلنا ہوگا۔ ایسا بیانیہ تخلیق کرنا ہوگا جو ذہنوں کے ساتھ ساتھ روح کی بالیدگی کا سامان بھی مہیا کرے۔ اور یہ کام کھُلے دل اور ذہن کے ساتھ کرنا ہوگا۔

قانون کی بالادستی کے پیشِ نظر بہت سی روایات کو ختم کرنا ہوگا۔ اداروں کی تطہیر کرنا ہوگی اور سٹیٹس کو کو بدلنا ہوگا۔ اداروں کو تقویت دینا ہوگی اور وہ تمام سرگرمیاں انہی لکھے قوانین کے تحت کرنا ہونگی۔ بھلے وہ آرمی چیف کی تقرری ہو یا دیگر سول اداروں میں تقرریاں۔ میرٹ کے معیار کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو راقم کی اس بات کو ذہن میں رکھ لیا جائے کہ عالمی حالات کی طنابیں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔ ملکی سلامتی کو خطرہ ہے۔ دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اس وقت یکسوئی سے اپنے اندر کے مسائل کو ذاتی مفادات اور حکمرانی کے خوابوں سے نکل کر دیکھنا ہوگا۔

کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج ہمیں ملکی سطح پرزندگی اور سماج کا وہ قریبی اور آشنا آہنگ ایک دوسرے کے گلے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ قطعی نہیں۔۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم اسےمن و عن قبول کر لیں۔ کوئی بھی خیال کسی جوہر کا اسیر نہیں ہوتا۔ وہ قوم ، رنگ و نسل اور براعظموں میں مقید نہیں ہوتا۔ خیال و فکر کی گہرائی و گیرائی ان سے متاثر ضرور ہوتی ہے لیکن ملت کی اپنے فکری مرکزیت سے جڑت لازم ہے۔

مجھے بلاتردد یہ کہنےدیجیئے کہ کوئی بھی قیادت ایک مخصوص صورتِ حال سے صرف ایک تاثر اخذ کرتی ہے اور اسی کی مٹیریل حثیت کو سامنے لاتی ہے۔ سیاست دان ہو یا ملکی افواج کا کمانڈر انچیف،  ان مجرد تاثر اور خیال کے لئے اپنے افکار کو موزوں سانچے میں ڈھالتا ہے۔ ملی مفادات کو پیشِ نظر ضرور رکھتا ہے لیکن اس میں اپنے ادارے کے مفادات شامل ہوتے ہیں۔

سیاسی  اور پارلیمانی قیادت کو اپنے مرکزی قومی فلسفہ کو مختلف اداروں کی مدد سے اس طرح تجسیم کرنا ہے کہ وہ زندہ، شاداب اور ہمہ جہت قابلِ یقین ہو جائیں۔  جس طرح لوگ جارج ایلیٹ کی ’’رمولا ‘‘ کو تلاش کرنے کے لئے روم کی گلیوں میں نکل آئے تھے۔ ہمارے عوام بھی اس انسانی جبلت کو باہم رکھنا جانتے ہیں شرط یہ ہے کہ کوئی تو مخلص نکلے؟

موجودہ حکمرانوں کو خوف کے اس چھتارے سے باہر کھُلی فضا میں نکلنا ہوگا۔ راحیل شریف جب پوری قوم کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ ’’وہ توسیع پر یقین نہیں رکھتے۔ ‘‘ تو حکمرانوں کو میرٹ کی پالیسی اپنانی پڑے گی۔ اداروں کو کام کر نے دیا جائے۔ وزیر اعظم کو خود بھی اپنی ذات سے یہی سلوک کرنا چاہیئے ۔۔۔۔ آئندہ کے شفاف الیکشن اس امر کو واضح کر دیں گے

لہذا ہمیں جلد از جلد اس گفتگو سے نکلنا ہوگا جس پر پورے ایک ماہ مزید ملکی اور غیر ملکی سیاست کے کاروبار چمکیں گے۔  اور ان دیکھی طاقتیں اپنے مفادات کی حفاظت کا سامان کر چکی ہونگی جب تک ہم کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔

ان دیکھی طاقتوں کا استعارہ یہاں ان منفی و خفیہ قوتوں سے موسوم و منسوب کرنا مقصود ہے جو عالمی  طاقتوں کے ان سرچشموں کے بظاہر قانونی لیکن غیر اخلاقی قابضین  ہیں جہاں سے ’’انسانی فلاح‘‘ کے ان دیکھے سوتے پھوٹتے ہیں۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔