(شہر یار خان)
ادبی تھیوری کیا ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ تھیوری ادب کی تشریح کرنے کے وضع کردہ طریقۂ کار کا نام ہے۔ لیکن تھیوری صرف ایک تشریحی طریقہ کار نہیں بلکہ بیسویں صدی میں تھیوری نے ادب کی مروج تعریف کو بھی چیلنج کیا ہے۔ ادب کی روایتی تعریف یہ ہے کہ یہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور انسانی فطرت کا مطالعہ ہے۔ یہ ہمیں اس زمانے کے حقائق کے بارے میں بتاتا ہے جس میں اسے تخلیق کیا گیا۔ ادبی تخلیق کا اپنے خالق سے ایک گہرا رشتہ ہے اور ایک ادبی تحریر میں اس کے مصنف کے ذاتی تجربے اور نفسیاتی ‘Insights’ کی جھلک نظر آتی ہے۔ مصنف اور شاعر عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں جو اپنی مشاہداتی قوت کو استعمال کرتے ہوئے ’حقیقت‘ کو ایک نئے انداز میں دیکھتے ہیں اور اپنے ان مشاہدات کو اپنی تحریروں میں محفوظ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی تعلیمی اداروں میں ادب کو اسی انداز میں پڑھایا جاتا ہے اور مصنف کے حالات زندگی اور زمانے کا ذکر ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ بیسویں صدی میں تھیوری نے ادب کی اس روایتی تعریف کو چیلنج کرنے کے لیے دوسوال اُٹھائے۔
(i) کیا ’حقیقت‘ معروضی طور پر دنیا میں موجود ہے؟ اور کیا ’زبان‘ کا اس ’حقیقت‘ کے اظہار کے علاوہ کوئی کردار نہیں؟
(ii) کیا ’ مصنف ‘ اپنی تحریروں میں ’حقیقت‘ کو جوں کا توں بیان کرتا ہے اور کیا وہ اپنے خیالات، محسوسات اور مشاہدات کے اظہار میں بالکل آزاد ہوتا ہے؟
ادب کسی نہ کسی ’زبان‘ میں لکھا جاتا ہے اور تھیوری نے ان دو سوالوں کے جواب کے لیے ’زبان‘ اور زبان کے حقیقت کے ساتھ تعلق کا تجزیہ کرنے پر زور دیا۔ افلاطون سے لے کر بیسویں صدی تک اس بات پر یقین کیا جاتا رہا کہ چیزیں اور ان سے متعلق تصورات پہلے سے دنیا میں موجود تھے اور زبان ان چیزوں کو صرف نام دیتی ہے۔ یعنی زبان ایک ذریعۂ اظہار کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ارسطو نے تو یہاں تک کہاکہ چیزوں کے نام ان چیزوں کی تعریف بیان کرتے ہیں اور کسی بھی چیز کا نام اس کے اندر موجود خصوصیات کے بارے میں بتاتا ہے۔سوئس ماہر لسانیات Ferdinand de saussure نے زبان کے اس نظریے کو رد کر دیا اور کہا کہ چیزوں کے نام کا چیزوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس نے لفظ کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک ‘Signifier’ جو ایک لفظ کی آواز یا لکھی ہوئی علامت ہے جیسا کہ لفظ ’درخت‘ کی ایک آواز ہے اور جب اسے لکھا جاتا ہے تو اس کی ایک تحریری شکل ہے۔ دوسری طرف اس کی آواز اور تحریری شکل کے ساتھ ہم نے ایک تصور وابستہ کیا ہوا ہے جو کہ ایک اصلی درخت کا ہے جس کا ایک تنا اور پتے وغیرہ ہوتے ہیں اس تصور کو’Signified’ Saussure کا نام دیتا ہے۔ Saussure کہتا ہے کہ ایک Signifier اور Signified کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ اگر لفظ ’درخت‘ کا اصلی درخت کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا تو دنیا کی تمام زبانوں میں درخت کا ایک ہی نام ہوتا لیکن اسی درخت کو اردو میں درخت عربی میں شجر اور انگلش میں Tree کہا جاتا ہے۔ Saussure کے اس لسانی نظریے نے زبان اور حقیقت کے باہمی تعلق کو ایک نئی جہت دی۔اس نظریے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت پہلے سے موجود نہیں۔ ہم جس کو حقیقت کہتے ہیں وہ زبان کے اندر تعمیر کی گئی ہے اور زبان سے باہر اس کا کوئی وجود نہیں۔ زبان چیزوں اور خیالات کو اپنے انداز میں بیان کرتی ہے اور چیزوں کے ساتھ اپنے طور پر مختلف قسم کے تصورات وابستہ کر دیتی ہے۔ ایک اصلی درخت بذات خود کیا ہے یہ حقیقت نہیں اور نہ ہی ہم اسکی حقیقت جان سکتے ہیں۔ ہم اس کو حقیقت مانتے ہیں جو زبان نے اس درخت کو دی ہوئی ہے۔ اگر زبان اس درخت کو کوئی اور تصور دیتی اور آج ہم اس کو حقیقت کہ رہے ہوتے۔ معانی چیزوں کے اندر مضمر نہیں بلکہ یہ زبان ہے جو چیزوں کو معانی دیتی ہے۔
Saussure کے اس نظریہ کے بہت دوررس نتائج مرتب ہوئے۔ ادب جو کسی نہ کسی زبان میں لکھا ہوتا ہے وہ کسی معروضی حقیقت کا عکاس نہیں ہوتا بلکہ وہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے جس کو اس زبان نے تخلیق کیا ہے۔ زبان ہے باہر چیزیں تو وجود رکھتی ہیں لیکن ان چیزوں سے وابستہ تصورات جن کو ہم حقیقت کہتے ہیں وہ وجود نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر ایک ایسا انسان جس کو کوئی زبان نہیں آتی اس کو اگر ایک کمرے میں کھڑا کر دیا جائے جس میں مختلف چیزیں پڑی ہیں تو وہ اپنے دیکھنے کی حس کو استعمال کر کے یہ تو دیکھ سکتا ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن کیونکہ اس کے ذہن میں ان چیزوں سے وابستہ کوئی تصور موجود نہیں تو اس کے لیے وہ چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ایک انسانی بچہ جب تک زبان نہیں سیکھتا اس کے لیے بھی دنیا اور چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ حقیقت معروضی طور پر کوئی وجود نہیں رکھتی بلکہ ہم ان تصورات کو حقیقت کا نام دیتے ہیں جو زبان نے مختلف چیزوں کیساتھ وابستہ کیے ہوئے ہیں ہم اصل میں اپنے ارد گرد ہونے والے حالات و واقعات کو کبھی نہیں جان سکتے بلکہ ان کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں جو زبان نے ہمارے ذہنوں میں ثبت کیا ہوتا ہے۔
Saussure کا دوسرا اہم تصور جو زبان، حقیقت اور فرد کے تعلق کی مزید وضاحت کرتا ہے وہ Langue اور Parole کا ہے۔ Saussure کے مطابق کسی بھی زبان کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں اور جب ایک فرد اس زبان کو استعمال کرتا ہے تو اپنی گفتگو کو با معنی بنانے کے لیے اسے ان قواعد و ضوابط کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ ان قواعد و ضوابط کو ہم گرامر کہہ سکتے ہیں اور اگر بولتے یا لکھتے ہوئے گرامر کا خیال نہ کیا جائے تو کوئی بھی جملہ بے معنی ہو جائے گا۔ ان قواعد و ضوابط کو Saussure نے Langue کا نام دیا۔ اور جب ایک فرد زبان کو استعمال کرتا ہے تو اس کے انفرادی استعمال کو Parole کہا جائے گا۔ ایک فرد ہزاروں نئے جملے بنا سکتا ہے لیکن وہ کبھی بھی Langue سے باہر نہیں نکال سکتا۔ یعنی اپنی بات کو با معنی بنانے کے لیے اسے ہمیشہ Langue کا پابند رہنا پڑے گا۔ اگر اس اصول کو معاشرتی تناظر میں دیکھا جائے تو فرانسیسی فلسفی لوئی الٹوزے کے مطابق ہر معاشرے کی اپنی ایک طرزِ فکر ہوتی ہے جو اُس معاشرے کے لوگوں کی سوچ ،رویوں، رہن سہن، مذہبی اور سیاسی سوچ کی عکاس ہوتی ہے یہ طرزِ فکر یا Ideology، Langue کی طرح ہوتی ہے اور کسی فرد واحد کا اس پہ کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ اس طرزِ فکر اس معاشرے کی زبان کے اندر تخلیق ہوتی ہے اور جب ایک بچہ وہ زبان سیکھتا ہے تو لاشعوری طور پر اس طرزِ فکر کو بھی اپنی اندر سمو لیتا ہے۔ اب اس بچے کے لیے ساری زندگی یہ طرزِ فکر ہی حقیقت بن جاتی ہے اور وہ دنیا کو اسی طرزِ فکر کے عہد سے ہی دیکھتا ہے۔ یہ فرد اب جو کچھ بھی سوچے گا وہ اس کی معاشرتی Parole ہے۔ وہ سمجھے گا کہ میں اپنی مرضی سے یہ سوچتا ہوں یا کرتا ہوں لیکن وہ اپنے معاشرے کی Langue کا پابند ہوتا ہے اور کبھی بھی اس Langue سے باہر نہیں سوچ سکتا۔
اگر ایک فرد زبان اور اس کے طرزِ فکر سے باہر نہیں نکل سکتا تو ہم کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک مصنف کی تحریر اس کے اپنے شعور کی عکاس ہے۔ اور یہ کہ وہ جو کچھ لکھتا ہے وہ ایک نئی تخلیق ہے اور اس کے ذاتی مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ ایک مصنف دوسرے تمام افراد کی طرح ایک مخصوص طرزِ فکر کی پیداوار ہوتا ہے اور جب وہ لکھتا ہے تو اسی طرزِ فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کی ذات (Self) ایک مکمل آزاد شے کا نام نہیں۔ زبان اس کو فاعل یعنی Subject کے درجے پر فائز کرتی ہے اور وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ کسی بھی جملے کا فائل ہے جیسا کہ ’’میں اس طرح سے سوچتا ہوں‘‘ یا میرا ’’نقطہ نظر یہ ہے‘‘ لیکن یہ بات بھی مدنظر رکھنے چاہیے کہ وہ مفعول بھی ہے یعنی وہ پہلے سے موجود زبان اور طرزِ فکر کی پیداوار ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی فرد کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس طرزِ فکر سے باہر نکل کر سوچ سکے؟ اس سوال کا جواب Derrida نے دیا جو کہ Deconstruction تھیوری کا بانی ہے۔ Derrida کے خیال میں زبان ایک مخصوص طرزِ فکر کے ذریعے حقیقت کی تخلیق کرتی ہے اور اس حقیقت کو ہر لحاظ سے مکمل اور تضادات کے بغیر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس کوشش میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوتی۔ کہیں نہ کہیں ایسے خلا رہ جاتے ہیں جہاں یہ اپنے ہی بنائے ہوئے تصورات کو contradict کرتی ہے۔ Derrida کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی فلسفیانہ نظام جب وجود میں آتا ہے تو پہلے ایک ’مرکز‘ (Centre) فرض کرتا ہے اور اپنی تمام نظریاتی اساس اس مرکز کے گرد کھڑی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر مذہب کی ساری نظریاتی اساس خدا کے تصور پر قائم ہے اور خدا اس کا ’مرکز‘ ہے۔ اسی طرح سائنس انسانی عقل کو مرکز مان کر آگے چلتی ہے۔ بالکل اسی طرح ادبی تنقید مصنف کی ذات کو مرکز مان کر کسی بھی تحریر کی تشریح کرتی ہے۔ مرکز کا یہ تصور نظام کے اندر موجود تمام عناصر کو ان کی جگہ پر رکھتا ہے اور ان کو ’مرکز‘ سے ہٹنے نہیں دیتا۔ جب ادبی تنقید مصنف کی ذات کو ’مرکز‘ فرض کر لیتی ہے تو وہ ادبی فن پارے کے اندر موجود تمام عناصر کو اس کی ذات کے حوالے سے پرکھنا شروع کر دیتی ہے۔ Derrida کے خیال میں ’مرکز‘ کا تصور کسی بھی تحریر کو محدود اور جامد بنا دیتا ہے۔ تحریر کے بہت سے رُخ اور بہت سے پہلو ہو سکتے ہیں جو اسی وقت سامنے آتے ہیں جب ہم تحریر کو ’ہد مرکز‘ (Decentre) کردیں۔ مصنف کی ذات کے تناظر میں دیکھنے سے ہم ان تمام پہلوؤں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔Derrida کا Deconstruction کا نظریہ کوئی نیا فلسفہ نہیں بلکہ کسی بھی تحریر کو پڑھنے کا طریقہ کار ہے۔ یہ طریقہ کار کسی بھی تحریر کی تشریح کرنے سے پہلے اس ’مرکز‘ کو تلاش کرتا ہے جس کے گرد اس تحریر کی پوری عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ ’مرکز‘ کو تلاش کرنے کے بعد اگلہ مرحلہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس مرکز کی نفی کرنے سے اس تحریر کا کیا رنگ سامنے ااتا ہے۔ مثال کے طور پر سولہویں اور سترھویں صدی میں یورپ میں لکھی جانے والی بہت سی تحریریں نو آبادیاتی نظام کی حمایت کرتی ہیں۔ ان تحریروں کا ’مرکز‘ یہ ہے کہ یورپ ترقی کی اعلیٰ منازل طے کر چکا ہے جو کہ تیسری دنیا نے نہیں کی اور اس کے علاوہ سفید فام اقوام سیاہ فام اقوام سے بہتر ہیں۔ اگر اس ’مرکز‘ کو رد کر دیا جائے تو ان تمام تحریروں کے دلائل اپنی افادیت کھو دیتے ہیں اور نو آبادیاتی نظام کی حمایت ایک بوگس عمل نظر آتا ہے۔ Deconstruction ایک نیا نظام اور نیا مرکز نہیں لانا چاہتی بلکہ اس کا مقصد صرف اس ’مرکز‘ کی نشاندہی ہے جس پہ یہ نظام قائم ہے اور اگر ہم اس مرکز کو ہٹادیں تو یہ نظام کیسے اپنے ہی بنائے ہوئے تصورات کی نفی کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اب ہم اپنے پہلے سوال پر واپس آتے ہیں کہ تھیوری کیا ہے؟ تھیوری اس تشریحی طریقہ کار کا نام ہے جو زبان اور حقیقت کے باہمی تعلق پر قائم ہے۔ حقیقت بذات خود کسی چیز کا نام نہیں اور زبان سے باہر اس کا کوئی وجود نہیں زبان اپنے علامتی ڈھانچوں کے ذریعے حقیقت کو تخلیق کرتی ہے اور حقیقت کی یہ تخلیق کسی بھی معاشرے کے ایک مخصوس طرزِ فکر کی عکاس ہوتی ہے۔ جب ایک فرد وہ زبان سیکھتا ہے تو وہ اس مخصوس طرزِ فکر یا (Ideology) کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور ساری زندگی اس کے قول و عمل اسی طرزِ فکر کو منعکس کرتے ہیں۔ ایک مصنف جب لکھتا ہے تو اس کی تحریر اس کے اپنے تجربات، مشاہدات اور سوچ کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ اس طرزِ فکر کی نمائندگی کرتی ہے جس میں وہ پروان چرھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھیوری مصنف کی ذات کو معانی کا منع نہیں تسلیم کرتی۔ ایک تنقید نگار کا یہ کام ہے کہ وہ ایک ادبی تحریر کاباریکی سے مطالعہ کرے اور اس طرزِ فکر کی نشاندھی کرے جس کی یہ تحریر نمائندہ ہے اور ساتھ ہی ان مقامات کو سامنے لائے جہاں یہ طرزِ فکر اپنے آپ کو ہی Contradict کرتی ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ تھیوری کسی واحد تشریحی طریقہ کار کا نام نہیں بلکہ بہت سارے مکتبہ ہائے فکر کا مجموعہ ہے جو اپنے اپنے نقطہ نظر کی بنیاد پر کسی بھی ادبی تحریر کی تشریح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان مکاتب فکر میںMarxist، Feminist، Racism، Historicism، Post-colonialism مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
A profound analysis