ادبی سٹیج کی سیڑھیاں اور فرزانہ
(نسیم سید)
فرزانہ ناز تازہ واردانِ ادب میں سے تھیں اور ادب کی سیڑھیاں بڑے سجل اور سلیقے سے ایک کے بعد ایک کرکے چڑھتے جانے کا خواب آنکھوں میں بسائے ان ہی سیڑھیوں پر سے گرکے خواب ہوئیں ۔ ہم سب نے انااللہ وانا الیہ راجعون کہہ کے ایک نظر ان کی طرف ڈالی ۔ اپنے حصے کی محبت اور اپنے حصہ کا فرض ادا کیا اور مصروف ہوگئے زندگی کے دیگر احکامات نبھا نے میں کہ اس کے علا وہ کریں بھی کیا ۔
سانحہ ایسا دردناک ہے کہ میرا ذہن ان سیڑھیوں پربھٹکتا رہا دیر تک اور پھر نہ جانے ان سیڑھیوں کی طرف کیسے جا نکلا جن کی للکار سے مجھے بھی واسطہ رہا ہے۔ ان سیڑھیوں پر ادبی وڈیروں، جاگیرداروں اورٹھیکہ داروں کا قبصہ ہے۔ ’’ ہم جسے چاہیں چڑھا دیں ، جسے چاہیں گرادیں ’’ کبھی سرگوشی میں کبھی اعلا نیہ، کبھی عشقیہ کنائے اور کبھی غندہ گردی ان وڈیروں کی سمجھا تی ہے ’’ ہمارا گرائیں ہوکے رہنا ہے تو یہ سیڑھیاں تمہاری ورنہ ٹھکانے لگا دینگے تمہیں ’’ سو کچھ تا زہ واردان ادب جا نتی ہیں پہلے ہی سے کہ ادب کے سٹیج پر قدم دھرنے کے لئے پہلے ان سیڑھی مالکان کو نذرانے گزارنے ہونگے۔
سو وہ ماتھا ٹیکتی ، نذر گزارتی ،، چڑھ جاتی ہیں ایک سانس میں سا ری سیڑھیاں ۔ مگر جواس رسم نذر گزاری سے انکاری ہوں انکے لئے طرح طرح کی سزائیں ہیں ۔یہ سزائیں ایسی ہیں جو نظر نہیں آ تیں او ر نہ ہی پتہ چلتا کہ کب آپ کے وجود کو کوڑھ جیسا قرار دے دیا گیا ۔ چلئے اپنی ہی گٹھڑی میں باندھے۔
ادبی سانحات میں سے ایک سا نحہ کو صورت دیکھئے۔ ہمارے شہر میں ایک نئی ادیبہ اورشا عرہ نے سکونت اختیار کی ۔ ادب کے سٹیج کی چو کی داری کرنے والے ایک مہاگرو کو مجھ سے اس لئے کد ہے کہ انکی جس شاعر ادیب سے قدیمی دشمنی ہے وہ میرے حلقۂ احباب میں کیوں ہے۔ یہ بھی ایک بڑا دلچسپ اور ان کہا احکام ہے ہمارے اس قسم والے ادیبوں شاعروں کا جن کا ذکر کررہی ہوں کہ وہ چاہتے ہیں جس سے وہ ملیں اس سے ملو، جس کے وہ دوست نہیں اس سے دوستی ختم کردو۔
جو وہ لکھیں اس پر جھوم جھوم کے داد دو وغیرہ وغیرہ ۔ سو انہوں اس شاعرہ و ادیبہ کو میرے حوالے سے اتنی خوفناک داستانیں سنائیں کہ بیچا ری مجھ سے سو گز کے فاصلے پر رہتی۔ کچھ عرصہ گزرا ، وہ مجھے بقول اس کے عینک لگا لگا کے تاڑتی رہی، میرے ہر عمل پر نظر رکھتی، میری نظموں اور تحریر میں اس خوفناک خاتون کو تلا شتی رہی جس کا احوال اسے سنا یا گیا تھا۔ اس تحقیق میں اس نے سال گزاردیا پھر ایک دن ایک ادبی فورم پر میری ایک نظم سن کے پروگرام کے اختتام پر ہمت کرکے میرے پاس آئیں اور نظم کے حوالے سے اچھے کلمات سے نوازتے ہوئے بات سے بات چلی تو ہم ’’ آ پ ’’ اور ’’ جی فرمائے ’’ والے لہجے کا فا صلہ پھانگ گئے کچھ ہی عرصہ میں۔
ایک سال اور گزر جانے کے عرصہ میں ہم بہت اچھے دوست بن چکے تھے تب اس نے ایک دن کہا ’’ یار تمہارے حوالے سے تو مجھے ایسا ڈرا دیا گیا تھا کہ میں تم سے بہت فاصلہ رکھتی تھی ’’ دیکھا آ پ نے ؟ یہ وہ چھوٹی چھوٹی قرولیاں ہیں جوادب کی سیڑھیوں پر چوکنا بیٹھے ادبی وڈیرے ، چو دھری ، ٹھیکہ دار اپنی آ ستین میں رکھتے ہیں۔ ان قرولیوں کا وار بہت کاری ہوتا ہے۔ اور میرے ہی جیسے ڈھیٹ ہونگے جو ان زخموں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے بلکہ ان قرولیوں کو ٹھوکر میں رکھتے ہیں۔ فرزانہ ایک درد ناک سا نحہ میں ہم سے جدا ہو گئی۔
ایک ادبی سٹیج کی سیڑھیوں سے گر گئی ۔ یہ تو ایک درد ناک واقعہ ہے مگر اصل واقعہ ادب کی و ہ سیڑھیاں ہیں جن سے دھکا دے گرانے اور لہولہان کرنے والوں کا چہرہ ہم اپنی خاموش گٹھریوں میں چھپائے پھرتے ہیں ۔کیوں؟ اس لئے کہ ہم میں اپنے بوتے پر جینے اور آستیوں مین چھپی سازش نما قریلیوں کا دکھا نے کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔ ایک اہم مضمون کو پرے سرکا کے کیا لکھنے بیٹھ گئی؟ سوچ رہی ہوں۔ مگر کیا یہ اہم موضوع نہیں ہے ؟ میر ی بہت سی دوست جانتی ہیں کہ ہے؟،، بہت اہم موضوع ہے۔