ادبی میلے: ادیب اور دانش ور معاشرے میں شریک ہو رہے ہیں
(قاسم یعقوب)
گذشتہ مہینے میں اسلام آباد جیسے سرکاری شہر میں ادبی میلوں کی رونقِ پُر بہار آئی ہوئی تھی۔یکے بعد دیگرے تین ادبی میلوں نے اس شہر کو ادب و ثقافت کا مرکز بنا دیا۔ بہت سے ادیب، دانش ور، فلم ساز، ایکٹرز اور سماج پر مثبت کام کرنے والے لکھاریوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا۔ ان ادبی میلوں میں صرف ادیبوں ہی نے شرکت نہیں کی بلکہ صحافی، سوشل ورکرز، سیاست دان، اینکرز حضرات بھی پیش پیش رہے۔ اس سے زیادہ ان ادبی میلوں کی اور کیا کامیابی ہو کہ معاشرے کا تقریباً ہر طبقہ اب ان میلوں میں شوق سے شرکت کررہا ہے۔
سب سے پہلا بڑا پروگرام۱۱، ۱۲ اپریل کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے مین کمپس میں ہُوا ۔ اس ادبی میلے کو ’لٹریچر کارنیوال‘ کا نام دیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ادبی میلہ تھا جو کسی یونیورسٹی میں منعقد ہُوا۔ عموماً کتاب میلے یا ورکشاپ وغیرہ کا تو رواج دیکھنے کو ملتا ہے مگر دو دن ’کارنیوال‘ کا تصور پہلی دفعہ پیش کیا گیا۔ لٹریچر کے شعبے، جامعات میں ایک دو شعبہ جات تک محدود ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں جس یونیورسٹی میں ادب کا شعبہ نہ ہو وہ یونیورسٹی کہلانے کا حق نہیں رکھتی۔ کسی بھی ادارے کا اصل کلچر ادب کے شعبہ جات ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ اُردو اور انگریزی نے اس کارنیوال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ زیادہ پروگرام شعبہ اُردو کی طرف سے منعقد کیے گئے جن کی تعداد تقریباً۱۱کے قریب تھے۔انگریزی سیشنز صرف تین تھے۔
افتتاحی تقریب کا موضوع ’’ادب اور معاشرہ ‘‘تھا جس میں ناصر عباس نیر اور حامد میر نے اظہار خیال کیا۔ حامد میر کی تقریر سے معلوم ہو رہا تھا کہ ادب اور معاشرے کے باہمی تعلق جیسے ’مشکل‘ موضوع پر بولنا واقعی مشکل کام ہے۔ جامعہ کے سربراہ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اس سیشن کو بہت خوبصورتی سے خلاصہ کیا اور سمجھایا کہ کس طرح ادب ایکDiscursive Powerبن گیا ہے۔جو اب سیدھا سادا فنِ لطیف سا عمل نہیں رہا۔
ناصر عباس نیر اور شاہ زیب کے ساتھ راقم نے ایک سیشن کیا جو ’نو آبادیات‘ کے اُردو پر اثرات کے حوالے سے تھا۔ بہت تفصیلی گفتگو رہی۔ شاہ زیب اور ناصر نیر نے کولونیل ادوار کی سیاست اور سماجیات پر کھل کر بات کی اور متبادل بیانیہ اُردو میں پیش کرنے پر زور دیا۔ ایک سیشن معروف نظم نگار آفتاب اقبال شمیم کے ساتھ منعقد کیا گیا جس کی نظامت علی یاسر کر رہے تھے۔ جس میں سعید احمد نے آفتاب اقبال شمیم کے فن پر بات کی۔ آخر پر شاہد صدیقی صاحب نے آفتاب اقبال شمیم کی نظم کے مختلف گوشوں پر بات کی۔
ایک اہم سیشن اُردو افسانہ پر بھی منعقد ہُوا جس میں اُردو افسانے کے ممتاز نام رشید امجد، مسعود مفتی اور حمید شاہد نے شرکت کی۔ اس سیشن میں اُردو افسانے کی موجودہ صورتِ حال کو موضوع بنایا گیا سوالات میں ناصر عباس نیر اور صفدر رشید نے شرکت کی۔ البتہ اس سیشن کی نظامت نادیہ ملک نے کی جو کسی طرح بھی اس سیشن کے مطابق نہیں تھی۔ دوسرے لفظوں میں نظامت کار کو سیشن کے بارے میں الف بے کا بھی نہیں پتا تھا۔ محض لکھا ہُوا پڑھ کے پیش کر دینا نظامت نہیں ہوتا۔
ادب اور صحافت‘ جیسے اہم موضوع پر بھی ایک سیشن منعقد کیا گیا جس میں رؤف کلاسرا، یاسر پیرزادہ،سہیل وڑائچ، فتح محمد ملک بطور مقرر موجود تھے۔ اس پروگرام کی نظامت معروف کالم نگار خورشید ندیم کر رہے تھے۔ بہت سے سوالات اٹھائے گئے۔ اس سیشن میں افسانہ نگار حمید شاہد صاحب کے سوال ’ ادیب کو مرکز میں لایا جائے ‘ کے جواب میں رؤف کلاسرا اور سہیل وڑائچ نے کچھ بتانے کی کوشش کی کہ ادیب اگر سماجی حرکیات میں مرکز کی حیثیت نہیں رکھتا تویہ ان کا خود قصور ہے، وہ اب ضمیر سے نہیں لکھتا۔ جس پر سخت سوالات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ اصل میں اس ساری گفتگو کا محرک فتخ محمد ملک کا وہ بیان تھا جو انھوں نے اپنی تقریر میں دیا کہ آج کل ندیم، فیض اور منٹو جیسے ادیب نہیں اس لیے صحافی مرکزی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ حمید شاہد نے ادیبوں کو صحافیوں سے الگ کر کے پیش کیا اور کہا کہ آج کا ادیب بھی اسی طرح لکھ رہا ہے مگر اب میڈیا کی طاقت نے صحافیوں کو نام نہادمرکز ی اہمیت دی رکھی ہے۔
کتاب کلچر‘ کے عنوان سے ایک اہم مذاکرہ منعقد کیا گیا جس کی میزبانی صفدر رشید کر رہے تھے۔ اس پروگرام میں پرائیویٹ پبلشرز کی طرف سے سنگِ میل کے افضال احمد، سرکاری پبلشرز کی طرف سے نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے انعام الحق جاوید اور انگریزی پبلشنگ کی طرف سے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی’ امینہ سید‘ نے شرکت کی۔ اس سیشن کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ اس میں ای کتاب اور ہارڈ بُک کو تفصیلی ڈسکس کیا گیا۔ تینوں نامور پبلشرز نے مشترکہ طور پر کہا کہ کتاب بینی ختم نہیں بلکہ مزید بڑھ رہی ہے جو نہایت خوش آئند امر ہے۔عطا الحق قاسمی اپنے سیشن میں آئے ہی نہیں۔ بہت سارے لوگ انھیں سننے کے لیے بیٹھے تھے، جو مایوس ہوکے چلے گئے۔
’لٹریچر کارنیوال‘ میں کتاب خوانی، شعر خوانی اور ایک مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا۔مشاعرے میں ملک کے نام ور شعرا اکٹھے کئے گئے۔ انجم سلیمی، منصور آفاق، افتخار عارف، افتخار شفیع ،سعید احمد، ارشد معراج،عمران عامی، محبوب ظفر وغیرہ نے خوب رنگ جمایا۔
دوسرا بڑا ادبی میلہ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی طرف سے ۱۴، ۱۵، ۱۶ اپریل کو منعقد کیا گیا۔ اس میلے میں انگریزی ادیبوں کا پلڑا بھاری ہوتا ہے ۔ مگر اس دفعہ اُردو ادب سے وابستہ ادیبوں کو بھی خصوصی نمائندگی دی گئی۔ آصف فرخی چوں کہ انگریزی اور اردو ادب پر یکساں عبور رکھتے ہیں اس لیے وہ ہر ایک شعبے کے اہم لوگوں کو اکٹھا کرنے کا سامان کر لیتے ہیں۔
وسعت اللہ خان کا ٹی وی پروگرام ’ ذرا ہٹ کے‘ ایک ادبی میلے میں پیش کرنا کچھ عجیب سا لگا مگر چوں کہ وسعت اللہ خان نمایاں کالم کار ہیں اس لیے انھیں سن کے اچھا بھی لگا۔راقم نے ایک سیشن کی نظامت کی جس میں روش ندیم، عرفان عرفی اور حمید شاہد نے شرکت کی۔ سیشن کا موضوع’ ادب، دہشت گردی اور محبت ‘تھا۔ سیشن کے آخر پر سوالات بھی کئے گئے۔ ناصر عباس نیر کی کتاب جو’میراجی‘ کے آرٹ پر ہے کی افتتاحی تقریب کو آصف فرخی نے موڈریٹ کیا۔جس میں ناصر عباس نیر نے میراجی کے فن و شعر پر بات کی۔
وجاہت مسعود نے ایک سیشن کیا جس کو ’ہم سب‘ کا سیشن کہا گیا حالاں کہ اس میں معید پیرزادہ اور دیگر احباب بھی شریک تھے جن کا ویب سائیٹ ’ہم سب‘ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پہلے دن کے اختتام پر ایک مشاعرہ منعقد ہُوا جس کی نظامت شکیل شاذب نے کی۔ مشاعروں میں عموماً ’چلتی ہوئی‘ چیزیں چلتی ہیں کیوں کہ فوری تاثر ہی مشاعرے کی جان ہوتا ہے۔ اس لیے وہ شاعر زیادہ چلتے ہیں جو ’چلتی ہوئی چیزیں چلائیں۔ اس میں کشور ناہید کی نظم پر بد امنی کا مظاہرہ ہوا بلکہ جسے بد تہذیبی کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ ہم نجانے کیوں انتہا پسند واقعہ ہو رہے ہیں۔ کسی نقطہ نظر اور نظریے کے خلاف کچھ سننا ہی نہیں چاہتے۔ اگر کچھ ہماری مرضی کے خلاف واقعہ ہو جائے تو ہم مرنے مارنے پر کیوں اتر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں ختم کرنا ہوگا ورنہ فساد اور ہنگامہ بڑھتا رہے گا۔ کشور ناہید کی نظم جو بالواسطہ ایک فوجی کی عربی فوج کی کمانڈ سنبھالنے کے موضوع پر تھی۔ جس پر کشور آپا نے کچھ تمہید بھی پیش کر دی۔ جس پر سیخ پا ہوکے ایک ’محب وطن‘ پاکستانی سیخ پا ہو گئے۔ وہ تو اللہ کا شکر کے وہاں پر موجود ہجوم مشتعل نہیں ہو گیا ورنہ اس شخص کی خوب پٹائی ہوتی اور کوئی بڑا ہنگامہ بھی ہو سکتا تھا۔ اگر ایک طرف انتہا پسندی موجود ہے تو اسے دوسری طرف منتقل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔کشور ناہید خود بہت غصیلی اور براہِ راست بولنے والی خاتون ہیں ۔ اللہ کا شکر وہ خود بھی نظم سنانے میں مصروف رہیں۔ راقم خود سٹیج پر موجود تھا، راقم نے کشور آپا کو نظم پڑھنے پر زور دیا ،بجائے ڈر کے اس کو ختم کر دیا جائے۔
مارگلہ ہوٹل اسلام آباد میں منعقد اس ادبی میلے میں بہت سے اہم ادیب اکٹھے تھے اور ساتھ ساتھ کتاب میلہ بھی جاری تھا جہاں سے لاکھوں روپوں کی کتب کی خریداری کی گئی۔
تیسرا اہم ادبی میلہ نیشنل بُک فاؤنڈئیش کی طرف سے منعقد کیا گیا جو ۲۲ ، ۲۳ اور ۲۴ اپریل کو منعقد ہُوا۔اس قومی کتاب میلہ میں پاکستان بھر سے لکھاری تشریف لائے۔ اس میلے میں ایک سانحے نے سب کو افسردہ اور نم ناک کر دیا۔ دوسرے دن کے اختتام پر ایک مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں ایک جواں سال شاعرہ’فرزانہ ناز‘ سٹیج سے نیچے گر کے شدید زخمی ہو گئیں جنھیں ہسپتال لایا گیا جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئیں۔ اس سانحے نے سب کو اشک بار کر دیا۔ ایسا واقعہ جس کا کوئی امکان نہ ہو اور اچانک ہو جائے شدید دھچکے کا باعث بنتا ہے۔ اسلام آباد کی فضا اداس ہو گئی۔ہر ایک کی آنکھ رو رہی تھی۔ سب کے سامنے ایک قیمتی جان چلی گئی۔
قابلِ افسوس مقام یہ تھا کہ اس واقعے پر طرح طرح کیcontroversy پیدا کی گئیں۔ ایک سانحہ کو کسی conspiracyسے جوڑنا نہایت غلط اقدام تھا۔ شاید ہم کسی واقعے کو جانب داری کے بغیر سوچ سمجھ ہی نہیں۔ اس سانحے کو بھی انتظامیہ اور سازشی عناصر کے ساتھ جوڑ کے پورے سانحے کا رُخ موڑنے کی کوشش کی گئی جو کسی طرح بھی درست عمل نہیں تھا۔
اس میلے میں ایک سیشن راقم نے کیا جس کا موضوع تھا ’’نئے سماج کی تشکیل میں برقی کتاب اور آن لائن میگزین کا کردار‘‘۔ جس کی صدارت شاہد صدیقی صاحب کر رہے تھے جس میں فرنود عالم، یاسر چٹھہ، سفیر اللہ، عامر رضا، فیاض ندیم،ڈاکٹر عرفان شہزاد،محمد حمید شاہد،منزہ احتشام گوندل اور زبیر فیصل عباسی نے شرکت کی۔برقی کتاب اور آن لائن میگزین کس طرح سماج کو بدل رہے ہیں، شرکا نے بہت سے مخفی پہلوؤں پر کھل کر گفتگو کی۔ نئے سماج کی تشکیل میں ای کلچر کے کردار کو بہت سے پہلوؤں سے جاننے کی کوشش کی گئی۔ شاہد صدیقی صاحب نے آن لائن میگزین کلچر کو معاشرے کا سب سے حساس اور مثبت عمل قرار دیا۔ اس سیشن میں سینیٹر شبلی فراز بھی تشریف فرما تھے جو آن لائن میگزین کے کردار پر تفصیلی گفتگو کرتے رہے۔ سوالات کے سیشن میں شرکا نے بہت سے سوالات کئے۔
اس میلے میں ایک اہم سیشن کی نظامت سعیداحمد نے کی۔جس میں اکیسویں صدی کی نظم کو زیرِ بحث لایا گیا۔ جس میں رفیق سندیلوی،علی محمد فرشی، روش ندیم، منیر فیاض، اصغر ندیم سید، ناصر علی سید، انوار فطرت، نصیر احمد ناصر،سرمد سروش،فاخرہ نورین، ارشد معراج اور یاسین آفاقی نے بطور نظم نگار اور مقرر شرکت کی۔ صدارت میں کشور ناہید اور آفتاب اقبال شمیم شامل تھے۔ اکیسویں صدی کی نظم کس طرح اپنی شناخت الگ سے بنا رہی ہے اور موضوعاتی؍ اسلوبیاتی سطح پہ یہ نظم کس طرح پہلی نظم سے مختلف ہے، شرکا نے کھل کر گفتگو کی۔ بعد میں ایک سوال و جواب کا سیشن بھی منعقد ہُوا۔
ادبی میلوں نے ادیبوں کو مرکز میں لانے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ ادیب بھی معاشرے میں مثبت اکائی تصورکیا جانے لگا ہے۔یہ ضروری بھی ہے ورنہ سارا معاشرہ صحافیوں ، سیاست دانوں کے حوالے کرنے سے خطرناک نتائج نکل رہے ہیں۔ دانش و روں اور ادیبوں کو اپنا بیانیہ پیش کرنا چاہیے اورنئے انداز سے ریاستی امور کی تشریح کرنی چاہیے۔