’’ادھے پوے‘‘ کا احتساب
(ملک تنویر احمد)
ایوبی آمریت کے خلاف جب حبیب جالب کی نظمیں ایک حد سے گزر کر آمر کی سماعتوں کے ساتھ ذہن و قلب کو بھی چبھنے لگیں تو اس ’’آوارہ گرد‘‘ شاعر کا بندوبست کرنے کی ٹھانی گئی۔ نواب کالا باغ امیر محمد خان ایوبی آمریت میں مغربی پاکستان کے انتظام و انصرام پر اجارہ داری رکھتے تھے۔ اپنے جاگیردارانہ پس منظر اور اختیار و اقتدار کے زعم میں مبتلا نواب کالاباغ کو ایک شاعر کی گوشمالی کے لئے فقط ایک حکم جاری کرنے کی دیر تھی کہ حبیب جالب شراب رکھنے کے کیس میں دھر لئے گئے۔شاعر عوام پر دو بوتل شراب کا کیس بنا دیا گیا۔ایوب خان کے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر کو نواب کالا باغ ’’گوہرا‘‘ کہتے تھے۔ایک ملاقات میں نواب کالا باغ نے الطاف گوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’ہاں بھی گوہرے ادھر آؤ۔کیا ہو رہا ہے آج کل‘‘۔الطاف گوہر نے کہا ،’’نواب صاحب بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ آپ نے خواہ مخواہ ایک شاعر کو پکڑ رکھا ہے کہ اس نے چاقو مارا ہے اور اس کے تھیلے سے دو بوتل شراب بر آمد ہوئی ہے۔لوگ آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ جالب کے پاس سے دو بوتل شراب کیسے نکل سکتی ہے ؟ وہ تو ’’ادھے پوے‘‘کا آدمی ہے‘‘۔
چیئرمین سینٹ رضا ربانی شکوہ کناں ہیں کہ احتساب کا نظام اس ملک میں اقتدار کے مراکز پر براجمان مختلف طبقات سے یکساں رویہ نہیں اپناتا۔ وہ جب سیاستدانوں، جرنیلوں اور ججوں کے یکساں احتساب کی دہائی دیتے ہوئے سیاستدانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے بارے میں لب کشائی کی تو ’’ادھے پوے‘‘ کا ملزم یا د آگیا۔سیاستدان پیکر خاکی ہیں کہ جو لغزشوں، خطاؤں اور غلطیوں کے پتلے ہیں کہ جن سے لغزش اور غلطی کا احتمال عین فطرت ہے کہ انسانوں سے خطائیں ہوتی ہیں اور وہی پھر ان خطاؤں کی تلافی بھی کرتے ہیں۔ اس ملک میں سیاستدانوں نے بجا طوپر پہاڑ جیسی غلطیوں کا ارتکاب کیا اور ان کا خمیازہ بھی بھگتا۔کوئی دار پر جھول گیا۔ کوئی جلاوطن ٹھہرا، کسی کو عدالتی فیصلے کے قلم کے سامنے اپنا سر جھکانا پڑا ، کسی کو برستی گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنی جان سے جانا پڑا۔ کوئی بدنام ٹھہرا تو کوئی معتوب و ملعون قرار دیا گیا۔
سیاستدان کو گولی کے ساتھ گالی کا بھی وار سہنا پڑاور کچھ عجب نہیں کہ صحیح ہی سہنا پڑا کہ جب عوامی توقعات اور امنگیں سیاسی و گروہی مفادات پر مقدم ٹھہر جائیں تو پھر طعن و تشنیع اور لعنت ملامت سیاستدان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔یہ کچھ غلط نہیں ہوگا کہ سیاستدان کا دامن مالی کرپشن کی آلائشوں سے بھی آلودہ ہے اور اس کی نظیر ان مقدمات سے بھی آشکار ہے کہ جو مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس مملکت خداداد میں کیا فقط یہی طبقہ اقتدار خامیوں و نقائص کی تجسیم ہے اوردوسرے طبقات اعلیٰ آدرشوں پر عمل پیرا ہو کر ایک پاکیزہ جنس کی صورت میں ڈھل چکے ہیں۔
قائد کے پاکستان میں اگر ملک کے اداروں کی پامالی کا معاملہ ہو، ملک میں بین الصوبائی منافرتوں کا مسئلہ ہے ، اختیارات و قوت کی تقسیم پر تنازعہ ہو یا اس ملک کو توڑ دینے کا قصہ ہو ۔ ہر صورت فوجی آمریتیں ہی ملوث رہی ہیں۔اس ملک میں مذہبی انتہا پسند ی سے لے کر دہشت گردی ، لسانی فسادات، فرقہ وارانہ تنظیمیں یا مسلح جتھے ہوں یہ سب ان فوجی آمریتیں کا دین ہے جو اس ملک پر اختیار و اقتدار کے سرچشمے پر قابض رہیں۔سیاستدان تو ان قباحتوں کو سمیٹتے سمیٹتے ہی وقت گزار دیتا ہے کہ ایک اور آمریت سر پر نازل ہو جاتی ہے۔’’محبان وطن‘‘ نے سیا ستدانوں کو تو رگیدا کہ انہوں نے مالی کرپشن سے اس ملک کو اندر سے کھوکھلا کر ڈالا لیکن کیا انہیں یہ بھی توفیق ہوئی کہ کبھی وہ ان سے بھی باز پرس کرتے جنہوں نے قائد کے پاکستان کو دولخت کر ڈالا۔
یہاں مذہبی جنونیت کے سانڈ کو کھلے عام پورے معاشرے کو اپنے سینگوں سے زخمی کرنے کرنے کے لئے آزاد چھوڑا۔ بلوچستان کو مجروح کیا، فاٹا کو زخموں کا تحفہ دیا،۔غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے ملکی غیرت و حمیت کو نیلام کیا۔فوجی اڈوں سے لے کر ملک کی بیٹوں اور بیٹیوں کو امریکی ڈالروں کے عوض بیچ دیا۔جب مسند انصاف ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو فروغ دے رہی تھی۔ ملک کی بنیادوں پر کھوکھلا کر رہی تھی۔آمریتوں کو سند جواز فراہم کر رہی تھی، آئین پاکستان کی پامالی کو اپنے نوک قلم سے جائز قرار دے رہی تھی تو کسی احتساب کے نظام نے انگڑائی نہ بھری۔ احتساب کے سارے ہرکارے مہر بلب اورسارے منصف میٹھی نیند سو گئے۔جو بوتلیں اپنے بیگ میں بھر بھر کر لے جا رہے تھے انہیں کوئی ہاتھ لگانے والا نہیں اور ’’ادھے پوے‘‘کے آدمی کو دھر لیتے ہو۔واہ! تیڈے انصاف وے ڈھولا!
اس ملک میں حکمرانوں کو سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کو علیحدہ خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ کسی ایسے سیاستدان یا سیاسی پارٹیوں کا نام بتائیے جس نے موقع ملنے پر فوج سے سازباز نہ کی ہو۔ مقدس گاوء کا احتساب وہی سیاسی حکمران کر سکتا ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔