(عبدالحنان مغل)
زمانہ طالبعلمی میں میرے اُردو کے استاد ہوا کرتے تھے پروفیسر ثناء اللہ رندھاوا صاحب وہ اکثر ہمیں داغ دہلوی کایہ شعر سنایا کرتے تھے۔
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
میں جب بھی یہ شعر سنتا تھا تب تواس کا مطلب میری سمجھ میں بالکل نہیں آتا تھا۔ لیکن جب عملی زند گی میں قدم رکھا تو سمجھ میں آیا کہ واقعی اردو زبان کو سمجھنے کیلئے زندگی بیت جاتی ہے، لیکن اس زبان پر عبور حاصل نہیں کیا جا سکتا۔آج کل اردو زبان کے نفاذ کا بہت چرچا ہے۔پہلے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نفاذ کا فیصلہ سنایا گیا، پھر صوبائی حکومت کی طرف سے مراسلہ جاری ہوا اور اب ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بھی سرکاری دفاتر میں اردو کے نفاذ کیلئے فوری اقدامات کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے ۔ تمام سرکاری خط وکتابت کو اردو میں کرنے کے ساتھ ہر چیز کا ترجمہ کرنے کا بھی حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر بیشتر لوگ تو بہت خوش ہیں لیکن ہر لفظ کا ترجمہ کرنے کے حوالے سے زیادہ ترپریشان بھی ہیں۔یہ بات ٹھیک ہے کہ کسی ملک کی ترقی کا راز اس کی اپنی زبان میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ غیروں کی زبان میں ہم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے لیکن اصل مسئلہ جو ہمیں درپیش ہے ،وہ یہ ہے کہ زیادہ ترمواد تو انگریزی زبان میں ہے۔ اور انگریزی ہماری زندگی میں رچ بس گئی ہے اس کو ہم مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے ۔ہماری نوجوان نسل خالص اردو کو استعمال کرنے میں دشواری محسوس کرتی ہے۔میری بھی شروع سے یہ خواہش رہی ہے کہ ہمارے ہاں اردو زبان کو رائج ہونا چاہیئے اور انگریزی کو کم سے کم استعمال ہونا چاہیئے ،لیکن یہ وہی زبان ہو جو عام آدمی کی سمجھ میں بھی آسکے۔جناتی اردو تو انگریزی سے بھی مشکل ہے۔نہیں یقین تو اپنے گھر کی رجسٹری یا کرایہ نامہ پڑھ لیں۔ اردو جو کہ مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے ،ایک وسیع زبان ہے،اس زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دوسری زبانوں کی بہ نسبت بے شمار الفاظ کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو زبان سمندرکی مانند وسیع زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔حالیہ اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ سرکاری زبانیں کل سات ہیں۔جن میں اردو تیسرے نمبر پرہے۔کوئی بھی زبان خود سے ترقی نہیں کرتی بلکہ کسی قوم کی ترقی کے نتیجہ میں وہ زبان خود بخود ترقی و وسعت پکڑتی ہے۔اب یہ ہماری بد قسمتی رہی کہ نہ ہم اس رفتار سے ترقی کر سکے اور نہ ہماری زبان ہی ترقی کر سکی۔اب تو مقابلے کا امتحان یعنی سی ایس ایس میں بھی اردو زبان کو رائج کرنے کا فیصلہ آچکا ہے۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو زبان سی ایس ایس میں رائج کرنے کا فیصلہ جس عدالت نے سنا یا ہے وہ انگریزی زبان میں جاری ہوا ہے اگر آپ دفتری زبان کا مطالعہ کریں تو اردو میں کوئی خط یا نوٹس جاری کیا بھی جائے تو انگریزی کا کوئی نہ کوئی لفظ استعمال مجبوری ہوتا ہے۔اس سے پہلے سپریم کورٹ نے جب اردو کو دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے احکامات جاری کیے تو چیف جسٹس صاحب کو ذاتی محفل میں کچھ لوگو ں نے کہا کہ ہم نے’’ گول کیپر‘‘ کے لفظ کو اردو میں ترجمہ کرنے جو کوشش کی ہے ،اس کے بدلے میں ہم ایک لفظ تو نہیں ڈھونڈ سکے ہاں البتہ گول کیپر کے معنی کے قریب تین الفاظ کی مدد سے پہنچ سکے ہیں۔اور وہ کچھ یوں ہیں ’’محافظ مقام دخول‘‘ اس کے بعد پوری محفل قدرے شرمندگی والی ہنسی میں مبتلا ہوگئی۔ہمیں ہر لفظ کا ترجمہ کرنے کی بجائے وہ الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہیے جو ہماری روز مرہ زندگی میں عام استعمال ہوتے ہیں وہ لفظ چاہے انگریز ی کا ہو یا کسی اور زبان کا ۔اگر ہم ہر لفظ کا ترجمہ کرنے لگے تو پھر اردو زبان کا نفاذ مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے گا۔ آج ان پڑھ لوگ بھی ’’گلاس ‘‘کو گلاس ہی کہتے ہیں ’’کٹورہ‘‘ نہیں۔’’تھر مامیٹر‘‘ کو تھرما میٹر ہی بولتے ہیں ’’حرارت پیما ‘‘ نہیں۔’’ لوڈ شیڈنگ ‘‘ کو لوڈشیڈنگ ہی کہتے ہیں نہ کہ ’’ برقی تعطل‘‘
آپ فیس بک کی مثال لے لیجئے اس کو اردو میں کر کے دیکھیں تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔یا پھر اپنے موبائل کی زبان اردو میں کر کے دیکھیں تو آپ کو استعمال کرنے میں یقیناًدشواری محسوس ہوگی۔اردو کے نفاذ کا فیصلہ قابل تحسین ہے لیکن عام فہم اردو جو ہم لوگ روز مرہ استعمال کرتے ہیں، دنیا کی بیشتر زبانیں وقت کے ساتھ ساتھ بدل رہی ہیں۔یہی وقت کا تقاضہ ہے ورنہ زبان کو جس قدر مشکل بناتے جائیں وہ استعمال سے عاری ہوتی جاتی ہے۔ اگرہم اردوئے’’ معلی ‘‘کی بجائے اردوئے’’ محلہ ‘‘کی اجازت دے دیں تو یقینااردو کا نفاذ جلد ممکن بنایا جا سکتا ہے۔آپ زرا خود سوچیئے کیا آپ میں ویڈیو گیم کو ’’ بصری کھیل ‘‘ کہنے کا حوصلہ ہے؟؟؟