(شیخ محمد ہاشم)
یوں تو سال کے تین سو پینسٹھ دن ہماری زندگی میں المیوں،خوشیوں کی داستانوں کو رقم کررہے ہوتے ہیں، لیکن پچھلے برس ماہ فروری 2016نے تو ادب کے متوالوں کو گھاؤ پر گھاؤ لگانے کی ٹھان رکھی تھی۔ فروری 2016 نے اپنے پہلے ہی عشرے میں انتظارحسین، محی الدین نواب، ندافاضلی، فاطمہ ثریا بجیا کی دنیا سے رُخصتی کرکے ادبی دُنیا کو سوگواری اوریتیمی کا تحفہ دیا اوراد ب سے لگاؤ رکھنے والوں کے دلوں کے زخموں پر نمک چھڑکتا رہا۔ اور اب رواں سال 4 ماہ فروری 2017 نے ایک اور زخم بانو آپا کا لگایا، تو ہم دونوں ہاتھوں سے اپنے دل کو تھام کر رہ گئے ،فروری کی آمد سے ہی ہمیں ڈر تھا “اللہ خیر کرے، فروری کی آمد آمد ہے”دل بیٹھا جا رہاتھا یہ سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آرہا ہے کہ جہالت، بے حسی، خود غرضی کی اتنی بڑی کائنات میں شعور،آگاہی، حساسیت کا پہلے ہی فقدان ہے، اوپر سے فروری نے بھی گھنگھور تاریکی میں ڈاکہ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ ادبی،آداب، شعوری وآگہی کے کتھا گروں کو ماہ فروری نے مٹی کی چادر اُڑھا کر سلا دیاِ، وہ تو سو گئے اور ہمیں تاریکی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا۔
ء1977 سے2010ء تک سپنس ڈائجسٹ میں چھپنے والیمقبول ترین داستان “دیوتا”کا شمار دُنیا کی طویل ترین کہانیوں میں ہوتا ہے۔ اور یہ منفرد ا عزاز4، ستمبر1930کوبنگال کے شہر کھڑک پور میں پیدا ہونے محی الدین نواب کو حاصل ہے۔ نوعمری کی محسور کن یادوں میں نقش ہے کہ ہم سپنس ڈائجسٹ کرائے پر لاتے تھے اور والد صاحب سے چھپ چھپا کر کہانیاں پڑھا کرتے تھے۔ جن میں دیوتا کی قسط وار کہانی ہماری پسندیدہ کہانیوں میں شامل تھی ۔کہانیاں پڑھنے کی مخالفت والد صاحب اس لئے کیا کرتے تھے، کہ ڈائجسٹ و ناول کہیں ہمارے نصابی مطالعے میں حائل نہ ہوں۔ لیکن ڈائجسٹ و ناول ہمارے اعصاب اوردل و دماغ پر حاوی ہو چکیں تھیں ،ہم سسپنس، سب رنگ ،جاسوسی ڈائجسٹوں اور دیگر ناولوں کے اسیر ہو گئے تھے، خصوصاً آنجہانی محی الدین نواب کی خوبصورت تحریر دیوتا نے توہمیں مکمل طور پراپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا۔
نوجوانی سے لے کر بڑھاپے تک نواب صاحب نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا کر رکھا۔ ،گھر،آفس یا سفر میں بھی وہ ہمارے ہمراہ ہوتے تھے ۔اُن کی کردار نگاری کا یہ حیرت انگیز فن تھا کہ فرہاد علی تیمور، پارس، پورس، انوشے،آمنہ فرہاد،سونیا فرہادو دیگر کردار ہمارے ذہن میں اس طرح نقش ہوگئے تھے کہ جیسے ہم بھی اُن کرداروں کے درمیان کا ایک کردار ہیں ۔ اگر ناگزیر وجوہات کی بنا پر سلسلہ کہیں سے منقطع ہو جاتا اور دوبارہ پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوتا تو یہ محسوس نہیں ہوپاتا کہ ہم درمیان میں کبھی ان سے لا تعلق رہے ہوں۔ کسی نے کیا خوبصورت بات کی ہے”ادیب مرا نہیں کرتے بس وہ لکھنا چھوڑ دیتے ہیں “۔
محی الدین نواب کے والد انٹیریر ڈیکوریٹر تھے اُن کے دادا مصور تھے ۔گویاوہ فنی میراث کے حامل شخصیت تھے ۔نواب صاحب فرماتے ہیں ۔”ایک توہمارے آباواجداد میں فن ایک میراث تھا ،دوسری بات ادب میری زندگی تھی۔میں نے اردو گھر سے سیکھی ،فارسی اور عربی مسجد سے،ہندی اور انگریزی سے اسکول نے آشنا کرایا۔تقسیم ہند کے بعد بنگال آ گئے تو بنگالی سیکھنے کو ملی ۔یوں بھانت بھانت کا ادب پڑھنے کو بھی ملتا رہا۔جب ہم نے لکھنا شروع کیا تو بس لکھتے چلے گئے ۔پہلی ہی تحریر کا معاوضہ ہم نے بہت تگڑا وصول کیا تھا یعنی آج کے اعتبار سے بیس ہزار روپے۔اب میں ناول کی قسط کا معاوضہ بیس ہزار اور داستان کاپچاس ہزار روپے لیتا ہوں۔”ایک دیوار ایک شگاف” میری پہلی تحریر ،کراچی سے چھپنے والا مشہور رسالہ”رومان “میں شائع ہوئی تھی”۔
محی الدین نواب صاحب نے کچھ عرصہ فلموں کے لئے بھی کام کیا گو کہ وہ فلمی دُنیا سے مطمئن نظر نہیں آتے تھے ۔اُنھوں نے دو فلموں “جنم جنم کی پیاسی “اور”باون پتے”کی کہانی بھی لکھی۔ جب مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہو رہے تھے اور وہاں اردو بولنا جرم ہو گیا تھا تو اُس وقت اُن کی زندگی بڑے کٹھن دورسے گزری۔اُس وقت کی معروف ادکارہ دیبا خانم نے اُن کی مدد کی اور وہ 1970میں روزگار کے لئے لاہور آ گئے، جبکہ اُن کے والدین بنگال میں رہ گئے تھے۔سقوط بنگال کے وقت وہ اپنے والدین کے باعث انتہائی پریشان رہے۔
ادیب ،مصنف یا افسانہ نگار کہنا اتنے بڑے مصنف کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ میرے نزدیک نواب ادیبوں،مصنفوں، افسانہ نگاروں کے دیوتا تھے۔ وہ نام کے نواب نہیں تھے وہ کہانیوں کے بھی نواب تھے۔ ان کی تصانیف ایک رات کی ملکہ،کچرا گھر،رنگ لاتی ہے حنا،ایمان کا سفر ،لہو کے پھول،انمول شاہکار ہیں ،اس کے علاوہ ان کا ایک ناول “لبادہ”لازوال اور شہرآفاق رہا جسے نقاد اوردانشور ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔بھٹکتی راہوں کے مسافروں کے لئے اُن کی تصنیف “اجل نامہ”صراط مستقیم ہے ۔مدتوں اپنے سحر میں جکڑ کے رکھنے والے ایسے ادیب مدتوں نہیں ملتے اور نواب جیسا دیوتا تو مدتوں یاد رکھے جانے والے کمال کے فنی تخلیق کار اوربے مثال ادبی امام تھے۔ 6فروری 2016کو ادب کی سلطنت کاستون محی الدین نواب 86سال کی نادر و نایاب زندگی گزار کر، اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے اور ناول اور افسا نہ نگاری کی دُنیا کو ویران کر گئے۔
موت سے ڈر نہیں لگتا ۔ سماج میں پھیلتی جہالت ،بے حسی ،مفاد پرستی سے ڈر لگتا ہے۔ ادبی چمن میں مہکتے پھولوں کی مہکار کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔ادیب اور دانشور ہیں، تو کتب بینی ہے ۔ زندگی کی بد صورتیوں سے پناہ لینے کا دوسرا نام کتب بینی ہے۔ ادیب، دانشوراور کتب بینی ذہنی صلاحیتوں کو سنوارنے ،شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔ہم دعا گو ہیں محی الدین نواب ،آپا قدسیہ بانو اور دیگر رحلت پا جانے والی روشنیوں کے میناروں کے لئے ، ” اللہ پاک ! ان عظیم انسانوں کو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام کا باسی بنانا اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل سے نوازنا”۔
میری کیفیت کا اندازہ آپ پروین شاکر کے ان اشعار سے لگا سکتے ہیں۔
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے،پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کی اک زخم ہے بھر جائے گا
کیاخبر تھی کی رگ و جان میں اُتر جائے گا