(ڈاکٹر کامران کاظمی)
اردوزبان میں بھی دیگر زبانوں کی طرح نثری و شعری اصناف کی کئی اقسام مروج ہیں۔ کچھ اصناف ادب مرور ایام کے ساتھ معدوم ہوتی گئیں اور کچھ مقبولیت حاصل کرتی گئیں۔ مثلاً جب اردو زبان ابھی اپنے نین نقش سنوار رہی تھی تو مثنوی اور داستان کو قبولیت عامہ حاصل تھی۔ بعد ازاں رفتہ رفتہ مثنوی کی جگہ غزل نے لے لی۔ غزل اردو زبان کا مزاج بن گئی اور زبان کا تہذیبی شعور اس صنف میں اظہار پانے لگا جبکہ انگریزوں کی آمد کے ساتھ داستان کی صنف معدوم ہوتی گئی۔ کچھ اسے نابود کرنے میں سامراج نے بھی کردار ادا کیا اور کچھ نوا بین، امرا وغیرہ کی سر پرستی ختم ہونے سے داستان سرائی کے ادارے کو نقصان پہنچا۔ البتہ غزل اپنے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ اردو ادب کی شناخت بنی رہی۔ انگریزی غلبہ کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر اصناف ادب بھی مغرب سے در آنے لگیں جن میں مضمون نگاری کے علاوہ اہم صنف ناول بھی ہے جو مغرب سے ہندوستان آئی۔
مغرب میں ناول جدید صنعتی عہد کی پیداوار ہے اور اسے وہاں بہت جلد مقبولیت بھی حاصل ہو گئی۔ ناول کی یہ مقبولیت مغرب میں آج بھی برقرار ہے اور اچھے ناول کی آمد کی نوید بھی وہاں سے ملتی رہتی ہے۔ گذشتہ کئی سال سے بلکہ اب تک کے ادب کے نوبل انعام کے بیشتر حقدار ناول نگار ہی قرار پائے ہیں۔ نوبل انعام متنازعہ ہوتا ہو گا لیکن ادب کے نوبل انعام حاصل کرنے والے بیشتر تخلیقاروں کی تخلیقات زندگی کو ایک نئے انداز سے سوچنے پر اکساتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اردو میں اب تک ایسا کوئی ناول تخلیق کیوں نہیں ہوا جسے ’’جنگ اور امن‘‘، ’’کراما زوف برادران‘‘، ’’ایڈیٹ‘‘، ’’ماں‘‘، ’’جرم وسزا‘‘، ’’درینہ کا پل‘‘ اور دیگر کئی ایسے ناولوں کے پہلو میں رکھا جا سکے؟ کیا ہمارے مسائل ایسے نہیں کہ ناول کا موضوع بنیں؟ کیا ہمارا کوئی سماجی مسئلہ یا معاملہ ایسا ہے کہ ہم ناول کی آزاد فضا کو تخلیق نہیں کر سکتے؟ کیا مذہب کوئی رکاوٹ بنتا ہے کہ زندگی کی از سر نو تشکیل گناہ ٹھہرے یا اقتصادی مسئلہ اچھے ناول کی تخلیق میں مانع ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ناخواند گی اور متوسط طبقے کا کمزور ہونا اور تعداد میں کم ہونا ناول کی تخلیق میں مزاحم بنتا ہو، یا پھر ہمارا مزاج غزل کے شعر کی ماننددریا کو کوزے میں بند کرنے والا ہے۔ بادی النظر میں یہ تمام نشانات جن کا تذکرہ ہوا، درست ہیں جو اچھے اور پھر بہترین ناول کی تخلیق میں راستے مسدود کیے ہوئے ہیں۔ ایک نشان کا اضافہ اور بھی کر لیا جائے اور وہ ہے تخلیق کار کی سہل پسندی۔فیلڈنگ کامشہور جملہ ہے:You cannot show man complete, unless you show him in action.(آپ انسان کو مکمل طور پر پیش کر ہی نہیں سکتے جب تک اسے باعمل نہ دکھائیں)۔ایک اچھے ناول میں واقعہ کی صداقت،تخیل، زندگی کا شعور،ماحول کے اثرات، فن کار کی افتاد طبع اور تخلیقی قوت وغیرہ محرک عامل ہوتے ہیں۔لیکن کیا محض انہی عناصر سے اچھا ناول تخلیق پا سکتا ہے؟یقیناََ اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔ کوئی بھی صنف اپنی روایت میں پنپ کر مستحکم ہوتی ہے۔البتہ اس بیانیے کی صداقت غزل کی حد تک تو تسلیم کی جاسکتی ہے لیکن اردو ادبیات میں بالخصوص افسانہ اور جدید نظم کے حوالے سے اس بیانیے کی صداقت پہ سوالیہ نشان موجود ہیں۔ یہ درست ہے کہ افسانے کے لیے اردو نثر اور ازاں بعد فکشنی نثر کی روایت اپنی جڑیں پکڑ چکی تھی، اسی طرح اردو میں جدید نظم کے آغاز سے قبل موضوعاتی نظموں کا فروغ انجمن پنجاب کے طفیل ظہور میں آچکا تھالیکن ان اصناف کو ان کے آغاز کار میں ہی تخلیق کاروں کا ایسا جتھا میسر آگیاجو کہ روایت کی پختگی کے عمل میں معدوم ہوتا چلا گیا۔جیسے جدید نظم کے آغاز میں ہی راشد،میرا جی،مجید امجد،ترقی پسندوں میں بالخصوص فیض وغیرہ اسی طرح اردو افسانے میں روایت کے جڑ پکڑنے کے ساتھ ساتھ منٹو جیسا تخلیقی فن کا مقرر ادبی منظر نامے پر ابھرا۔البتہ یہ پہلو درست ہے کہ روایت میں تجربات ہوتے رہتے ہیں اورہرعصر اپنے تجربے کا الگ اور منفرد ذائقہ لے کروارد ہوتا ہے۔اردو ناول کو یا تو ماحول سازگار نہیں ملایابرصغیرکی مخصوص تہذیبی فضا میں غزل اور افسانے کا چلن ہی عام ہوسکتا تھا۔ممکن ہے سماج کا وہ علمی مزاج بھی تشکیل نہ پاسکا ہوجوناول کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے اس لیے ناول نگار بھی لوگوں کے عمومی علمی مزاج سے باہر تخلیق نہیں کرسکتا یعنی اسی علمی مزاج کا حصہ رہنا اس کا لاشعوری عمل ہوتا ہے۔اس لیے عام علمی مزاج کے مطابق لکھے گئے ناولوں کو آج بھی قاری دستیاب ہیں مثلاََ ڈائجسٹ یا ہفت روزوں میں چھپنے والے ناول سطحی علمی مزاج اور سماج کے روزمرہ مسائل کی عامیانہ عکاسی کے حامل ہوتے ہیں اس لیے عام افراد انھیں بآسانی سمجھ لیتے ہیں۔عہد جدید ویسے بھی کمرشل عہد ہے اس عہد کا معاملہ فوری کتھارسس اور وقتی تفریح سے ہے اس لیے ایسے ناولوں کا فروغ جو گہری فلسفیانہ سطح سے تہی اور علمی سوالات سے عاری ہوں، کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے ہی ناولوں پر تشکیل دیے گئے ڈرامے بھی مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔اس سارے عمل کے پس منظر میں جدید عہد کے صارفیت کلچر کی عکاسی ہوتی ہے۔سنجیدہ ناول نگار بہرحال ادب عالیہ کے تخلیق کی کوششوں میں مگن ہوتا ہے اس لیے وہ عام علمی مزاج اور سطحی تفکرانہ آہنگ سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سماج کے علمی تصورات اور آزادی اظہار کے معیارات لاشعوری طور پر اس کے پاؤں کی زنجیر ہوتے ہیں سو اس کی تخلیقی کیفیت ناآسودگی کا شکار رہتی ہے۔سید محمد عقیل کا موضوع اچھے ناول کی خصوصیات تو نہیں ہے تاہم وہ ایک اچھے ناول کی اہم خوبیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
ناول میں حقیقتوں کے اظہار یا اظہار کی تمنا کے بغیر،زندگی اور اس کی پیچیدگیوں کے ادراک کا شعور پیدا نہیں ہوتااور یہ شعور پھر ناول نگار کی اس طاقت کا محتاج ہوتا ہے،جو زندگی، اس کے محرکات اور اس کی پیچیدگیوں کا ادراک کرسکے۔ ادراک جو حقیقتوں تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو۔ ناول نگار کے قدم اگر زمین پر نہیں جمے ہیں تو نہ تو اسے زندگی کا عرفان ہوتا ہے اور نہ وہ حقیقتوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اچھا حقیقت نگار،زینہ بہ زینہ ان حقیقتوں تک جاتا ہے اور تب ناول یا کہانی کا ٹھاٹھہ بندھتا ہے اور کہانی یا زندگی، بغیر حرکت و عمل کے اپنی صحیح شکل پیش نہیں کرسکتی۔
اس اقتباس میں دو باتیں اہم ہیں’’ناول میں حقیقت کا اظہار‘‘اور ’’ناول نگار کا اپنے ماحول اور سماج سے آگاہ ہونا‘‘۔ حقیقت نگاری سے یہ مراد قطعاََ نہیں ہے کہ ناول نگار معروض میں جو مشاہدہ کرے اسے مِن و عن پیش کردے۔ یہ فوٹو گرافی کی تکنیک ہے جب کہ تخلیقی فن کار مصوری کی تکنیک استعمال کرتا ہے۔ ناول کی حقیقت نگاری کے بارے میں سید محمد عقیل کی رائے پر ہی اکتفا کیا جائے گا:
سچا حقیقت نگار وہ (ہے) جو کسی ملک یا سماج کے ان استحصال کرنے والوں اور استحصال ہونے والوں کی ایسی تصویریں پیش کرے جن سے ناول نگار کی جذباتی وابستگیوں کا اظہار ہو سکے اور اس کی پیش کش میں وہ اسپرٹ بھی رواں دواں ہو جو زندگی اور اس کے ارتقا سے ہمدردی رکھتی ہو۔اور یہ تجربے اور تجزیے، زندگی میں آتی ہوئی تبدیلیوں اور ان کے اسباب کے درمیان سے لے کر ناول نگار پیش کرتا ہے۔ تمام سچے حقیقت نگاروں کا یہی طریقہ سچی حقیقت نگاری ہے۔ان میں حالت اور زندگی کی بدلتی ہوئی صورتوں کے ساتھ تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں اور طریق تجزیہ بھی بدلتا جاتا ہے اور اسے بدلنا بھی چاہیے۔اس طرح حقیقت نگاری کے نقطہ نظر میں ترمیم بھی ہوتی رہتی ہے۔
دوسرا پہلو فن کار کے ماحول اور سماج سے آگاہی کا ہے۔ظاہر ہے فن کار کی قوت مشاہدہ اس کے تخلیقی عمل اور تخلیقی طاقت کو بڑھاوا دے گی۔ ادب سماج کی پیداوار ہوتا ہے اور سماج کے لیے ہی تخلیق کیا جاتا ہے۔تخلیقی فن کار سماجی عمل سے باہر رہ کر تخلیقی واردات میں داخل نہیں ہوسکتاگویا اچھے ناول کے لیے تخلیقی فن کار کے تخلیقی منہاج کے علاوہ قوت مشاہدہ، سماجی عمل میں اس کی شمولیت، عمومی علمی مزاج، آزادی ء اظہار اور بنیادی عوامی ادبی ذوق کے علاوہ دیگر کئی عوامل شامل ہوتے ہیں۔
اچھے ناول کی کمیابی پر سب سے قبل اور غالباً آخری بار ڈاکٹر یوسف سر مست نے ہی قلم اُٹھایا تھا۔ ان کے مقالے ’’بیسویں صدی میں اردو ناول ‘‘ کے آخری باب میں ایک ذیلی عنوان ’’ اردو میں مغرب کی طرح عظیم ناول نہ لکھے جانے کے اسباب‘‘ میں قدرے اختصار کے ساتھ ان عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے جو کامیاب ناول نہ لکھے جانے کا سبب بنے۔ یہ مقالہ ستر کی دہائی میں مکمل ہوا تھا اور اردو ناول کی بیسویں صدی کے محض پچاس سال کے احاطے تک محدود تھا۔ اب مزید ساٹھ سال گذر چکے ہیں اور یہ سوال ہنوزاپنے تخلیق کار کی راہ دیکھ رہا ہے کہ اردو میں دیگر زبانوں کی طرح کامیاب اور منفرد ناول کیوں نہیں لکھا جا سکا۔’’اردو میں اچھے ناول کیوں نہیں؟‘‘ اس عنوان سے معروف ناول نگار عزیز احمد کا ایک مقالہ ’’بانگ درا‘‘ کراچی کے مارچ ۵۲ء کے شمارے میں بھی شائع ہوا تھا۔ افسوس باوجود کوشش کے مطلوبہ شمارہ دستیاب نہیں ہو سکا۔ڈاکٹر یوسف سرمست کے مقالے سے رہنمائی لیتے ہوئے اور اختصار برتتے ہوئے ان اسباب کی تلاش کی سعی کی جائے گی جن کے سبب اردو میں ہنوز کا میاب ناول نہیں لکھا جا سکا۔ ڈاکٹر یوسف سرمست لکھتے ہیں:
اب ایک سوال رہ جاتا ہے کہ اردو ناول میں وہ عظمت کیوں نہیں آئی جو مغربی زبانوں کے ناولوں میں ملتی ہے یا یہ کہ اردو میں ایسے ناول کیوں نہیں لکھے گئے جو دنیا کے عظیم ناولوں کے پہلو بہ پہلو ہو سکیں۔ دراصل یہ سوال بے حد پیچیدہ ہے، کیونکہ یہ بات ہندوستانی (اور پاکستانی) زندگی کے دوسرے بے شمار مسائل سے وابستہ ہے۔ اس کا تعلق تہذیبی، تمدنی، سماجی، سیاسی، لسانی، تعلیمی، علمی غرض زندگی کے بے شمار دوسرے مسائل اور مختلف شعبوں سے وابستہ ہے۔
درج بالا اقتباس اور اس سے قبل وضع کیے گئے نشانات یا سوالات کا جائزہ لینے کی قدم بہ قدم کوشش کرتے ہیں۔ اردو ناول کی پہلی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا جنم داستان کی کوکھ سے نہیں ہوا۔ داستان تخیل کی بلند پروازی کا بہترین نمونہ تھی۔ گوکہ اس کا تعلق حقیقت سے کم تھا لیکن فن کار تخیل، حسن اور ممکنہ صداقت کے تمام پہلو کھوج لیتا تھا جبکہ ناول کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد کی کھری عقلیت، مثالیت اور خالص اصلاح پسندانہ نقطہ نظر سے ہوا کہ جس میں تخیل کی گنجائش ہی نہ تھی۔ سو ناول نگار کا محرک جذبہ محض سماج سدھار رہ گیا۔ دوسری قباحت بھی نذیر احمد ہی کی اختراع ہے۔ یعنی ناول میں ایسے کردار پیش کرنا جو مثالی ہوں اور برائی اور اچھائی کے نمائندہ ہوں۔ اردو ناول آج تک کسی نہ کسی صورت ’’اصغری‘‘، ’’ابن الوقت‘‘ اور ’’کلیم‘‘ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا۔ مثلاً اردو کا بہترین ناول گردانا جانے والا ’’آگ کا دریا‘‘ کے تمام کردار ایک جیسے پڑھے لکھے ہیں، ایک جیسے شوق رکھتے ہیں، لکھنو کے تمام تعلقہ دار ایک جیسا ماحول رکھتے ہیں۔ اتنی مماثلت کیسے ممکن ہے؟ ناولوں کے کردار دو دھڑے بنا لیتے ہیں ایک ’’خیر‘‘ کا ایک ’’شر‘‘ کا اور پھر ناول نگار ان کے آپسی تصادم سے خوب محظوظ ہوتا ہے اور قاری اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کردار پر زیادہ توجہ دینے کے سبب ابتدا ہی سے ناول واقعے سے نا بلد رہا۔ اردو ناول میں مضبوط واقعیت کے ساتھ ’’امراؤجان ادا ‘ آیا لیکن ایک تو اس ناول کی فضا پہ چھائی مسلسل رقت اور دوسرے واقعے یا وقوعے کی بے مقصدیت ناول کو بلندیوں کی طرف لے جانے میں رکاوٹ پیدا کر دیتی ہے۔ اصلاح کا جذبہ اردو ناول میں اس قدر حاوی رہا ہے کہ آج بھی ناول نگار وقوعے کو لپیٹ کر طاق پہ رکھ دیتا ہے اور لٹھ اٹھا لیتا ہے۔ناول کا تبلیغی انداز اور سستی رومانیت اسے ناول کے فنی درجے سے گرا دیتی ہے۔ ناول کو تو دراصل زندگی کے مطالبات اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے اور ناول نگار کو اس ماحول کو موضوع بنانا چاہیے جس سے وہ پوری طرح آگاہ ہو۔بعد ازاں جدید فلسفیانہ مباحث آنے سے اردو ناول نگاروں کو ایک اور مسالہ مل گیا۔ اب کردار اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے فلسفہ میں باتیں کرتے ہیں۔ یہ بھی مثالیت پسندی کی ہی صورت تھی۔ ناول نگار کے لیے لازمی نہیں کہ وہ مفکر ہو لیکن وہ زندگی سے متعلق ایک اپنی فکر تخلیق کرتا ہے اور اس فکر کا اظہار بیانیے میں کرتا ہے۔ناول نگار اپنی فکر تک کہانی کے ذریعے پہنچتا ہے۔ فکر کی وضاحت کے لیے کہانی تشکیل نہیں دیتا۔ناول کے پس منظر میں کسی نظریئے یا کسی واضح شعور کا اظہار ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ناول نگار کا مقصد زندگی کے کسی نہ کسی پہلو یا مکمل زندگی کی ترجمانی ہے۔ ناول زندگی کا نقشہ پیش کرتا ہے اور اس میں عقائد یا فکریات کو یوں آمیخت ہو کر آنا چاہیے جیسے جسم میں روح آمیخت ہوتی ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے قاری کو یہ مسلسل احساس ہو کہ گویا وہ نئے عالم میں آ گیا ہے اور زندگی کی حقیقتیں اس پر نمایاں ہو گئی ہیں۔
اچھے اور کامیاب ناول کی تخلیق میں ایک اور مزاحمت برصغیر کے مزاج کے راستے سے بھی آئی۔ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مثنوی کے بعد غزل کو فروغ ہوا۔ غزل کا ایک شعر مکمل اکائی ہوتا ہے جو اپنے اندر معانی کے جہان رکھتا ہے۔ گو کہ غالب کو ’’تنگنائے‘‘ کا شکوہ تھا لیکن پھر بھی ایک سے ایک عمدہ مضمون اور فلسفیانہ پہلو شعر میں ادا کئے گئے۔ گویا اردو کا مزاج ابتدا سے ہی تغزل کا مزاج تھا اس لیے اس میں ایمائیت، اشاریت اور اختصارو ایجاز کو اہمیت حاصل تھی۔اسی لیے غزل کی مقبولیت آج بھی کم نہیں ہوئی۔اسی اختصار اور ایجاز کی صفت کے باعث افسانہ ناول سے زیادہ مقبولیت حاصل کر گیا حالانکہ افسانہ کا آغاز ناول کے آغاز سے کم و بیش۳۳ سال بعد ہوا۔ڈاکٹر یوسف سرمست غزل کی اہمیت کے باوجود برصغیر کے مزاج میں اختصار و یجاز کو قبول نہیں کرتے:
جب غزل کا فن اپنے شباب پر تھا اس وقت طویل ترین داستانیں لکھی گئیں۔ اگر اردو کا تہذیبی مزاج صرف اختصار ہی کا جویا تھا تو اتنی ضخیم داستانوں کو اتنی مقبولیت اور فروغ حاصل نہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ داستانیں اس زمانہ میں بے حد مقبول تھیں۔
داستانوں کی مقبولیت کی ایک وجہ تو بادشاہوں، نوابین اور امرا کی داستان گو کی سرپرستی ہے لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ داستان کے سامعین بکثرت موجود تھے اس لیے داستان کہی جاتی تھی۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ تب لوگوں کے پاس فارغ وقت تھا کیونکہ زرعی سماج میں فصل کاشت اور برداشت کرنے کے علاوہ بالعموم کا شتکار اور زراعت سے منسلک دیگر افراد فارغ ہوتے ہیں،سو داستان وقت گذاری کا مشغلہ تھی جبکہ آج زندگی مصروف ہو گئی ہے اس لیے افسانے کو تو قاری مل جاتا ہے جبکہ ناول ایک مختصر نشست کا متحمل نہیں ہو سکتا، سو قاری کی عدم دستیابی کے باعث اچھا ناول لکھنا مشکل ہو گیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر یوسف سرمست کا مندرجہ ذیل اقتباس آج بھی شافی ہے:
مغربی ممالک میں جہاں کی زندگی کی تیز رفتاری کا مقابلہ ہماری زندگی کی رفتار سے کیا ہی نہیں جا سکتا وہاں ناول ہی شروع سے بہت بڑی اور اہم صنف ادب رہی ہے۔ اس لیے صرف سماجی زندگی کی تیز رفتاری سے اس مسئلے کو وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔
گویا محض زندگی کا تیز رفتار ہو جانا تخلیق ناول میں مزاحم نہیں ہے جبکہ ناول کی تو پیدائش ہی یور پ میں اس سمے ہوئی تھی جب وہاں زندگی تیزی کی حامل ہو چکی تھی۔ ممکن ہے معاشی مسئلہ رکاوٹ ہو؟ کیونکہ سماجی مسئلہ تو ہر گز ناول کی تخلیق میں مزاحم نہیں ہے۔ معاشی صورتحال آج بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں اس لیے مناسب ہے کہ اس پہلو کو بھی ڈاکٹر یوسف سرمست کے حوالے سے دیکھ لیا جائے ۔ وہ لکھتے ہیں:
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ بڑی حد تک اور فیصلہ کن حد تک معاشی حالات ہی سے وابستہ رہا ہے۔۔۔ گذشتہ زمانہ میں چونکہ ادب درباروں سے وابستہ رہا کرتا تھا اور ادیبوں کو ایک طرح سے معاشی فراغت حاصل رہتی تھی اس لیے وہ اسی کو ذریعہ معاش بنا کر پوری توجہ اور انہماک سے اپنا سارا وقت داستان سرائی میں صرف کرسکتے تھے۔۔۔ لیکن چونکہ اب ادیبوں کو یہ معاشی فراغت حاصل نہیں رہی ہے اس لیے وہ طویل ادبی کام میں مشغول نہیں ہو سکتے۔
ممکن ہے آج بھی کچھ ناول نگار ایسے ہوں جن کا کل وقتی پیشہ ادب ہو مثلاً مستنصر حسین تارڑ۔ تو کیا وجہ ہے کہ وہ بھی اچھا ناول لکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ حال ہی میں آنے والے مستنصر کے دو ناول ’’خس و خاشاک زمانے ‘‘ اور ’’ اے غزال شب‘‘ بڑی آسانی سے مقبول عام ادب میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ البتہ یہ معاشی مسئلہ دو طرفہ ہے۔ اگر ادیب کو معاشی فراغت ہو دیگر عوامل کے علاوہ جن کا تذکرہ آ چکا اور ابھی آئے گا بھی، تو وہ یکسو ہو کر تخلیق ادب میں منہمک ہو تو ممکن ہے کہ ادبی روایت میں تسلسل آنے سے اور افکار و خیالات کے کھلے عام مباحث کی بدولت اچھے ناول کی تخلیق سہل ہو جائے۔ معاشی مسئلے کا دوسرا پہلو قاری کی قوت خرید سے منسلک ہے۔ قاری کے ذوق ادب کے علاوہ یہ امر بھی اہم ہے کہ کیا وہ با قاعدگی سے ناول یا دیگر ادبی کتب اپنے ذوق کے مطابق خرید سکتا ہے یا نہیں؟
یہاں ایک پہلو افکار و خیالات کے کھلے عام اظہار اور ان کے مباحث کا بھی ہے کیونکہ فلسفہ اور دیگر علمی افکار جب تک سماج میں اثر و نفوذ نہیں کرتے، سماج کے علمی شعور اور بصیرت میں اضافہ نہیں ہوتا، تب تک ادب کے پنپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب سماج کچھ سوالات کو محرمات قرار دے دیتا ہے یا کچھ امور پر اظہار خیال کی عملاً آزادی سلب کر لیتا ہے اور ایک خوف کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے، اسی طرح جب ریاست آزادی اظہار کے راستے مسدود کر دیتی ہے تو ادب کی دیگر اصناف علامت کا چولا پہن کر اپنی بقا کا سامان کر لیتی ہیں لیکن ناول کے لیے ایسا تا دیر ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے سماج میں ناول کے آغاز سے اب تک سیاسی آزادیوں کے مواقع بہت کم آئے ہیں۔ نو آبادیاتی حکمرانوں کی منشا کے خلاف کوئی حرف لکھا ہی نہیں جا سکتا تھا اور جو لکھا گیا وہ انھیں کے مقاصد کو بڑھاوا دے رہا تھا بعد ازاں پاکستانی سماج میں بھی نوآبادیاتی تسلسل باقی رہا۔ کیونکہ جاگیردارانہ تمدن میں تنقید کی گنجائش نہیں ہوتی اور ہمارا سماج مجموعی فضا میں جاگیردارانہ مزاج کا حامل ہے جبکہ ادب تنقید حیات ہوتا ہے اس لیے یہاں مخالفانہ نقطہ نظر کو پذیرائی نہیں مل سکتی بلکہ ایسی ہر آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جو ریاستی جبر میں شگاف کی آرزو مند ہو۔ اسی لیے پاکستانی سماج میں ’’آگ کا دریا‘‘ جیسا ناول بھی برداشت نہیں کیا جا سکا۔ البتہ سیاسی آزادی یا محکومی کو بھی اچھا ناول کے تخلیق نہ ہونے کی وجہ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ روس میں زار روس کے استحصالی اور جابرانہ نظام میں رہتے ہوئے روس کے ہی نہیں عالمی ادب کے بہترین ناول تخلیق کیے گئے۔ زار کا زمانہ بھی ایسا ہی تھا کہ جہاں ادیب نہ معاشی طور پر محفوظ تھے اور نہ سماجی و ذہنی اعتبار سے۔ ٹالسٹائی، دوستویفسکی، ترگنیف، گورکی اسی زمانے اور اسی سیاسی جبر میں لکھ رہے تھے۔ ممکن ہے انھیں لسانی سہولت حاصل تھی کہ صدیوں کی رائج زبان خود ایک ورثہ لائی تھی اور تخلیق کار اور قاری کے مابین اپنے خیالات کے تبادلے کے لیے بھی ایسی زبان موجود تھی جو ان کا مشترک ورثہ تھی جبکہ برصغیر اور بعد ازاں پاکستان میں زبانوں کا مسئلہ بھی ناول کی تخلیق میں مزاحم رہا ہے۔ کیونکہ سوچنے اور لکھنے کی زبان ایک ہونے سے بھی ادیب خود کو کافی محفوظ خیال کرتا ہے:
اسے یہ سکون حاصل رہتا ہے کہ اس کے اپنے ملک کا سب سے بڑا طبقہ اس کے خیالات کو سمجھ سکتا ہے اور اس طرح انسان کی بقا کی خواہش اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا حوصلہ یوں غیر محسوس طور پر پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن جس ملک میں بہت سی زبانیں ہوں اور ہر زبان خاص حلقے تک محدود ہو تو ادیب وہ سکون حاصل نہیں کر سکتا جو کسی ایک زبان ہونے کی وجہ سے اسے حاصل ہوتا ہے۔
تقسیم سے قبل برصغیر اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں زبانوں کا مسئلہ کافی الجھا ہوا ہے۔ اردو کو لنگوافرانکاکی حیثیت حاصل ہے لیکن دیگر زبانوں کے مقابلے میں اس کی تاریخ طویل نہیں ہے سو اس کا ثقافتی ورثہ بھی کم ہے۔ اسی طرح لوگوں کے شعور میں اس کے رچنے بسنے کی سہولت بھی کم ہے۔ جو زبان اپنی خواندگی کرنے والوں کا جتنا بڑا طبقہ پیدا کرے گی اس کے ادب کو بھی اس سے فائدہ حاصل ہو گا۔ پاکستان کی مخصوص صورتحال میں چونکہ اردو یہاں کے کسی خطے کی زبان نہیں تھی اس لیے آج بھی جب ذرا سا احساس پیدا ہو جائے کہ اردو بالا دستی حاصل کر رہی ہے تو دیگر زبانوں کے بولنے والے محتاط ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اردو کے ساتھ آج بھی پاکستان میں محبت اور نفرت (Love & Hate)کا رویہ موجود ہے۔ ایک دوسرا پہلو انگریزی زبان کی بالا دستی کا بھی ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک ملک کے نیم خواندہ افراد انگریزی کی برتری سے گلو خلاصی حاصل نہیں کر پائے ۔ انگریزی نہ صرف قومی شعور کی سطح کی بلندی میں رکاوٹ ہے بلکہ قومی ترقی میں بھی مزاحم ہے۔ دراصل سامراج کی باقیات کا ایک خاص طبقہ اس زبان کو عوام کی گردنوں پر مسلط رکھنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے اشرافیہ جو زبان استعمال کرتے ہیں ملک کے عام طبقات اشرافیہ کی نقالی کرتے ہیں سو وہ بھی اسی زبان کو ترجیح دیں گے اور یہ امر طے شدہ ہے کہ جو زبان برتی جائے گی تہذیبی مزاج بھی اسی زبان کا اہمیت اختیار کر جائے گا۔ اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دیگر قومی زبانوں کی زبوں حالی کی وجہ بھی یہی ہے کہ سرکاری ، ریاستی سرپرستی فقط بدیشی یعنی انگریزی زبان کو حاصل ہے۔ جب تک زبان کا معاملہ حل نہیں ہوگا ادب زوال کا شکار رہے گا اور ناول بجائے خود زوال سے نہیں نکل سکے گا۔ انگریزی زبان کو ترجیح دینے میں اب عالمی مفادات بھی شامل ہو چکے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے چند انگریزی ناول نگارروں کی خوب پذیرائی کی جا رہی ہے حالانکہ اگر ان کے ناولوں کے تراجم کرائے جائیں تو وہ اردو میں لکھے گئے بہت ہی عام ناولوں کے آس پاس ہی جگہ حاصل کر سکیں گے۔
زبان کے ساتھ جڑا ہوا معاملہ علمی سطح اور خواندہ افراد کی موجودگی کا بھی ہے۔ جب سماج باشعور ہوتا ہے اور اس کی علمی صلاحیت بہتر ہوتی ہے تو وہ فضا پیدا ہوتی ہے جو اچھے ناول کی تخلیق کا باعث بنتی ہے۔ پاکستانی سماج کی شرح خواندگی تو ویسے ہی کم ہے اور پھر نصاب میں ایسا کوئی امکان ہی نہیں رکھا گیا جو عوام کے ادبی ذوق کو پروان چڑھا سکے۔ آج بھی ہمارا نصاب لارڈ میکالے کے فلسفے کے گرد گھوم رہا ہے جو اچھے تابع فرمان اشخاص کی پیداوار کا ذریعہ ہے۔ جبکہ ادب تخلیق کرنا اور پڑھنا ذہنی طور پر آزاد فرد کا مشغلہ ہوتا ہے۔ کسی سماج میں جدید علوم جتنا سرایت کریں گے اور ان کی قبولیت جتنی بڑھے گی اسی قدر ناول کو علمی فضا میسر آئے گی اور کامیاب ناول کی تخلیق کے امکانات دوچند ہوں گے:
دراصل علمی فضا اور فلسفیانہ نظریات و خیالات ناول کی تخلیق میں لازمی طور پر شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ہر دور کا ناول نگار اپنے زمانہ کے علمی اور فلسفیانہ خیالات و نظریات سے متاثر رہتا ہے اور وہ خیالات و نظریات لازمی طور پر اس کے ناولوں میں جگہ پا لیتے ہیں۔
سماج میں اگر فلسفہ اور نئے علمی افکار کو مردود قرار دے دیا جائے گاتوسماجی شعور کا فقدان پیدا ہو جائے گا اور سماج اپنے عصر سے پیچھے رہ جائے گا اور آئندہ نسلوں کے لیے وہ علوم اجنبی ہو جائیں گے۔ اس طرح سماجی عصری تربیت کا عمل ادھورا رہ جائے گا۔ ان تمام عوامل کا محاکمہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سر مست لکھتے ہیں:
بہر حال ناول میں گہرائی اور عظمت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ علمی ماحول ناول نگار کو میسر ہو۔ لیکن یہ تعلیمی اور علمی پسماندگی خود معاشی اور سیاسی حالات سے وابستہ رہتی ہے۔ اس طرح سے یہ ایک چکر سا بن جاتا ہے۔ اسی لئے اردو میں عظیم ناولوں کی تخلیق نہ ہونے کا سوال بے حد پیچیدہ صورت رکھتا ہے۔
پاکستانی سماج کی حد تک ایک مسئلہ ناول میں برتی جانے والی تہذیب کا بھی ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ ناول کے بعض موضوعات ایک خاص عہد اور سماج کے لیے ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح تہذیب کا تعلق بھی بعض اوقات ایک خاص عصر سے ہوتا ہے۔ دوسرے عصر کے لیے وہ تہذیب متروک ہو چکی ہوتی ہے یا کم ازکم اجنبی بن جاتی ہے اس لیے کامیاب ناول کا موضوع اور اس میں برتی جانے والی معاشرت آفاقی ہوتی ہے۔ ناول کا جغرافیائی منطقہ بدلنے سے تہذیب پر بھی فرق پڑے گا۔ مثلاً اس جغرافیائی خطے سے منسلک افراد کے لیے لکھنو کی تہذیب جو کہ اردو بولنے والے تخلیق کاروں کا خاص موضوع ہے، نہایت اجنبی ہے۔ شاید اس لیے بعض قابل ذکر ناول متوجہ نہیں کر پائے۔ مثلاً ’’آگ کا دریا‘‘ ایک مخصوص مزاج اور تہذیبی پس منظر رکھنے والے قارئین کو جیسے متوجہ کر پایا تھا ملک کے دیگر وسیع حلقوں کو ویسے متوجہ نہیں کر پایا اور شاید اس کی قرأت میں آنے والے مسائل کا تعلق بھی خاص تہذیبی زبان کے استعمال کی وجہ سے ہے۔اردو میں اچھے ناول تخلیق نہ ہونے کا ایک سبب ناول کے فن سے بھی آگاہی نہ ہونا ہے۔ مثلاً ناول نگار کے فرائض کا تعین کرتے ہوئے صاحبزادہ حمید اللہ ناول نگار کے فن ناول نگاری کو جاننے کی اہمیت یوں واضح کرتے ہیں:
ہر فن کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک تو خود فن جس کا اکتساب اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک سیکھنے والے میں کچھ فطری لگاؤ نہ ہو اور دوسرا پہلو اس فن کے متوازی اصول ہیں جو نہایت آسانی سے سکھائے جاسکتے ہیں۔ کامیاب ناول نگار میں ان دونوں چیزوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔
اردو میں فن ناول نگاری سے متعلق شاذ ہی کوئی کتاب دستیاب ہے۔ شاید اس لیے بھی بہت سے ناول نگاروں نے محض واقعات کی جمع آوری کو ناول سمجھ لیا اور اچھا ناول نہاں خانہ تخلیق سے بر آمد نہ ہوسکا۔ اردو میں جو ناول لکھے بھی گئے ہیں وہ مجموعی طور پر زندگی کو متاثر نہیں کرتے یا پھر کسی خاص حد تک ہی متاثر کرتے ہیں۔ مثلاً اردو ناول میں کوئی ایسا کردارنہیں ہے جسے حقیقی معنوں میں باغی کہا جا سکے ۔ اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ مسلمان زعما اور دیگر سماجی رہنماؤں نے سامراج سے مفاہمت پر زور دیا یہ مفاہمت یا Adjustmentذاتی مفادات کے حصول کا جذبہ تو بیدار کر دیتی ہے لیکن عملی اظہار اور اپنے حقوق کے تحفظ کا شعور پیدا نہیں کرتی۔ اردو ناول میں اس طرح کے دلیرانہ کردار نہ ہونے کا ایک اور سبب ہندوستان کی سر زمین اور تہذیب میں تقدیر پرستی کا عنصر بھی ہے۔ایسے بہت سے کردار ہیں جو راضی بہ رضا ہیں اس طرح وہ عمل کی قوت سے محروم ہیں۔ مثلاً ’’آگ کا دریا‘‘ کے کردار دانشور ہیں، فلسفہ خوب بگھارتے ہیں لیکن عمل کی قوت سے محروم ہیں۔ یا مثلاً ’’اداس نسلیں‘‘ کا نعیم یا ’’باگھ‘‘ کا اسد تقدیر کے ہاتھ میں کھلونا ہے خود ان کی اپنی جدوجہد کہیں نظر نہیں آتی۔ باغی کردار کے حوالے سے مزید گذارش یہ ہے کہ سماج اور سماجی اقدار سے کسی حدتک بغاوت کرنے والے کردار تو مل جائیں گے لیکن ایسا کوئی کردار دستیاب نہیں ہے جس نے سامراج سے بغاوت کی ہو۔ سامراج مخالف خیالات کا حامل کردار بھی ڈھونڈے سے مل سکتا ہے لیکن عمل کی حرارت سے وہ بھی اتنا ہی محروم ہے۔اسی طرح ’’امراؤ جان ادا‘‘ تقدیر کے کھیل دیکھتی ہے اور آگے بڑھ کر اپنی تقدیر خود بنانے کی لگن سے عاری ہے۔ سارا دوش تقدیر پہ ڈال کہ مظلومیت کا پرچار تو خوب کرلیتی ہے لیکن تقدیر کے بدلنے کی خواہش کا بھی اظہار بھی نہیں کرتی۔ جبکہ اسی زمانہ میں ٹامس ہارڈی کے ناول میں (Tess)ٹیس یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ مقدر کے مقابل عظیم تر ہے۔ حالانکہ دونوں ناولوں میں دونوں خواتین ایک جیسے حالات کا شکار تھیں۔
اردوناول کے پر اثر نہ ہونے کی ایک اور وجہ روسی ناول نگاروں کی ادھوری تقلید ہے۔ یہ عمل بالکل ایسے ہی ہوا جیسے دلی میں ایہام گوئی کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ جدید ناول نگاروں نے عظیم روسی ناولوں کا مطالعہ خوب کیا اور پھر ان کی تقلید میں اپنے ناولوں میں محض جزئیات نگاری پر زور صرف کر دیا۔ جزئیات نگاری کے لیے باریک بین مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ یہاں کے مخصوص مزاج اور جدید علوم کی بے محابا آمد سے ناپید تھا۔ اس لیے جزئیات کا مطلب واقعات نگاری سمجھ لیا گیا۔راقم کے ساتھ ایک نجی گفتگو میں فاروق خالد (ناول نگار) نے یہ اعتراف کیا کہ ہم دراصل وقائع نگار ہیں۔ مثلاً ’’برادرز کرا موزوف‘‘ محض ایک قتل اور اس کے محرکات کے گرد گھومتا ہے یا ’’درینہ کاپل‘‘ مختلف حکومتوں کے بدلنے سے پل کے پاس گذرنے والی زندگی پر کیا بیت رہی، کا منظر دکھلاتا ہے۔ ہمارے ناول کے پُراثر نہ ہونے میں ایک اوروجہ ناول نگاروں کا ماجرے کے لیے طویل وقت کا انتخاب بھی ہے۔ جیسے ’’آگ کا دریا‘‘ اڑھائی ہزار سال پر پھیلا ہوا ناول ہے یا ’’سنگم‘‘ نو سو سال پر یا ’’اداس نسلیں‘‘ قریباً سو سال پر ’’راکھ‘‘ نوے سال پر پھیلا ہوا ہے ۔ ناول نگار کے لیے طویل وقت کا انتخاب محض اچھا ناول نہ ہونے کی وجہ نہیں لیکن جب وہ اس وقت کو چھلانگ لگا کر عبور کرتے ہیں تب کہانی کا ردھم ٹوٹتا ہے اور ناول کی کامیابی کوسوں دور ہو جاتی ہے۔ ناول نگار شاید اس لیے بھی وقت کے طویل وقفے کا انتخاب کرتا ہے کہ اسے کہانی بنانے میں آسانی ہو کیونکہ اس طرح اسے زیادہ واقعات منتخب کرنے میں سہولت ہو جاتی ہے۔ سوائے ’’آگ کا دریا‘‘ کے ، باقی ناولوں کے زمانی فاصلے ناول کو بھی فاصلے پر لے گئے ہیں۔
کرداروں کی مثالیت پسندی، جزئیات نگاری کی جگہ واقعات نگاری کے علاوہ ناول نگار وقوعہ (Situation)کے بجائے کہانی یا ماجرے کے ارتقا میں کرداروں سے مدد لیتے ہیں۔ اس طرح سیاحت تو خوب ہو جاتی ہے (اداس نسلیں، راکھ، دھنی نجش کے بیٹے وغیرہ) لیکن ناول سفر نامہ یا رپورتاژ کے قریب چلا جاتا ہے۔تہذیب کی اجنبیت اور خواندگی کے مسائل بھی ناول میں موجود ہیں بعض اوقات قاری اس تہذیب سے آگاہ نہیں ہوتا جو ناول نگار کا ذہنی منطقہ ہے اس طرح وہ زبان اس کے لیے اجنبی ہو جاتی ہے اور بعض اوقات ناول نگار لوکیل پر اتنا انحصار کرتا ہے کہ زبان از خود اپنی شکل بدل لیتی ہے۔ مثلا ’’بہاؤ‘‘ کی زبان ۔ ناول نگار یہ جانتا ہے کہ جو زبان بدل کر وہ لکھ رہا ہے وہ اس عہد کی زبان نہیں ہے تو پھر سادہ زبان اختیار کرنے میں کیا مشکل حائل ہے؟
جدید ناول میں محض فرد کا ذہنی انتشار، تشکیک پسندی، بیزاریت، اکتاہٹ، پثرمردگی، مغائرت، معدومیت، ڈر، خوف، دہشت وغیرہ دکھا دئیے جاتے ہیں یہ تمام عناصر انسانی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں اور جدید عہد کے مسائل سے انسان نبرد آزما کیسے ہو رہا ہے اور اس صورتحال کو اپنے حق میں کیسے استعمال کر سکتا ہے، اس سے ناول نگار بے تعلق نظر آتا ہے، یہاں بھی معاملہ مشاہدے کے باریک بین نہ ہونے کا ہے۔
اردو میں اچھا ناول نہ ہونے کی ایک وجہ شاید تخلیق کاروں کی سہل پسندی بھی ہے۔ مثلاً عبداللہ حسین اکثر اپنی گفتگو میں یہ اظہار کرتے ہیں کہ شاعر تو چلتے پھرتے، سفر کرتے ، سوتے جاگتے غزل کہہ لیتا ہے جبکہ ناول نگار کے لیے ایسا کچھ ممکن نہیں ہے۔ اسے اہتمام کر کے بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک مثال فاروق خالد ہیں جو ناول ’’سیاہ آئینے‘‘ لکھنے کے لیے خود کو چھ ماہ کے لیے ایک کمرے میں مقفل کر کے بیٹھ گئے تھے یہ الگ بات کہ اعلیٰ ناول پھر بھی نہیں لکھ پائے۔ مغرب میں ناول نگار کی محنت کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلا عہد حاضر کے معروف ناول نگار گیبر یل گارشیا مارکیز نے اپنے شہرہ آفاق ناول ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کا مسودہ قریباًانیس بار دیکھا، اسی طرح بالزاک ستائیس پروف کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ سب سے اہم بات کہ ’’جنگ اور امن‘‘ جیسا ضخیم ناول ٹالسٹائی نے سات بار لکھا۔ ایک دن کے زمانی وقفے پر مشتمل ناول ’’یولیسیس‘‘ لکھنے میں جیمز جوائس نے دس سال صرف کیے تھے۔ جبکہ اردو میں مثلاً کرشن چندر نے اپنا نمائندہ ناول ’’شکست‘‘ محض انیس دن میں لکھا جبکہ بعض ناول تو انھوں نے فقط چار روز میں بھی لکھ دئیے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ لکھنے میں بھی مصنفہ کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں لگا۔ البتہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ناول نگاروں نے طویل عرصہ ناول لکھنے میں گزارا۔ مثلاً ہمارے ایک دوست نے اپنا ناول قریباََ دس سال کے عرصہ میں مکمل کیا اور چھ بار اسے لکھا تا ہم وہ بڑا ناول لکھنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے مقابل اردو ادب میں افسانے بہت اچھے لکھے گئے اور بعض ایک نشست میں لکھے گئے اور اس کے باوجود یہ افسانے شہرت حاص کر گئے، منٹو اس ضمن میں خاص مثال ہے۔
اردو ناول کے ارتقا پر نظر ڈالی جائے تو ناقدین بالعموم اس امر پر متفق ہیں کہ ’’آگ کا دریا‘‘ناول سے آگے نکلتا ہوا یا الگ شناخت بناتا ہوا ناول ابھی تک تخلیق نہیں ہوسکا۔ڈاکٹر یوسف سرمست کا ناول کے حوالے سے مقالہ ستر کی دہائی میں مکمل ہوا تھا اور اس وقت اگر ’’آگ کا دریا ‘‘ہی نمائندہ ناول تھا تو آج ۲۰۱۳ء میں بھی اردو ناول نئے امکانات کی تلاش کے باوجود رفعت کی سمت گامزن کیوں نہ ہوسکا؟کیونکہ آج بھی ناقدین ’’آگ کا دریا‘‘ کو ہی بڑا ناول قرار دیتے ہیں۔یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ناقدین کی سہل پسندی،تعصب یا جانبداری، مرعوبیت وغیرہ کے رعایتی نمبر نکال کر دیکھا جائے تو کیا مذکورہ ناول ناول کی عالمی روایت میں موجود بڑے ناولوں کے پہلو میں رکھا جاسکتا ہے؟ اس سوال پر طعن و تشنیع کے علاوہ اور بھی کئی طرح کی آوازیں سننے کو ملیں گی لیکن اس سوال کا حتمی جواب نہیں ملے گا۔البتہ یہ سوال اردو ناول کی تخلیقی زندگی پر موجود ہے کہ ’’آگ کادریا‘‘ نہ سہی قرۃ العین حیدرکے مجموعی فن سے ناول آگے کیوں نہیں بڑھ سکا؟کیونکہ قرۃالعین حیدر کا ناول ’’آگ کادریا‘‘ہو یا’’گردش رنگ چمن‘‘ یا ’’آخرشب کے ہمسفر‘‘ بہرحال یہ ناول منزل نہیں ہیں نشان راہ یا سنگ میل ضرور ہوسکتے ہیں۔
بطور مجموعی اردو ناول نگاروں نے اتنی مشقت کم ہی اٹھائی ہے دراصل اردو ناول نگاروں کو نہ تو معاشی فارغ البالی حاصل ہے اور نہ ہی سیاسی، علمی، سماجی اور تہذیبی ماحول ایسا بن سکا ہے کہ وہ تخلیق فن پر مکمل توجہ مرتکز رکھ سکیں۔ شدید محنت نہ کرنے کا رویہ دراصل ہمارے جغرافیائی طبعی ماحول کی دین بھی ہے۔ اسی لیے غزل اور افسانے میں جو کمالات دکھائے گئے ہیں وہ ناول میں ناپید ہیں۔ کیونکہ ہمارا موسم طویل نشست کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ فکری انتشار ناول نگار کو یکسو نہیں ہونے دیتا۔ اسے لکھنے کی ذہنی آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔ تاہم اردو ناول کے اس سفر میں جو ۱۸۶۹ء سے آغاز ہوا اور آج ۲۰۱۶ ء تک آن پہنچا ہے اردو زبان کی حد تک چند قابل ذکر ناول ضرور موجود ہیں۔ اکسیو یں صدی کے پہلے عشرے میں ’’غلام باغ‘‘ کی اشاعت بھی اس امر کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے کہ ابھی تخلیق کی کھیتی ویران نہیں ہوئی محض مٹی کو ذرا سا نم درکار ہے۔
عمدہ