اسلامی جمعیت طلبہ کا ’’صالحانہ‘‘مشن
(ملک تنویر احمد)
پنجاب یونیورسٹی کی’’ریاست‘‘ کے حکمران اسلامی جمعیت طلبہ آج پھر خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں جب انہوں نے اپنے ’’مومنانہ‘‘ کردار کے کچھ خونیں نقوش اس جامعہ کے احاطے میں ثبت کئے ہیں۔حکومتی دستاویزات پر تو جامعہ پنجاب حکومت کی زیر نگرانی چلنے والا ایک تعلیمی ادارہ ہے لیکن وہاں حکومتی عملداری کچھ ایسے ہی شکست خوردگی کا شکار ہو جاتی ہے جیسے ملک کے دور افتادہ علاقوں میں دہشت گردوں کے سامنے کے سامنے اوندھے منہ لیٹ جاتی ہے۔
جامعہ پنجاب جو ایک ڈیڑھ صدی کے قریب تاباں و درخشاں تعلیمی کامیابیوں کی امین ہے تو دوسری طرف تقریباً چار عشروں سے عملی طور پر اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر تسلط چلنے والا ایک ایسا ادارہ ہے کہ جہاں ان کے مخالفین بھول کر بھی اختلاف کریں تو ان کی چمڑی ادھیڑنے کی ذمہ داری اس تنظیم کے کارکنان کمال خوبی سے انجام دیتے ہیں۔جماعت اسلامی کے فلسفہ کی اسیر جمعیت کے ساتھ یہ نابغہ روزگار اعزاز جڑا ہوا ہے کہ وہ اس جامعہ میں بالخصوص اور ملک کی دوسری جامعات اور کالجوں میں بالعموم طلباء کے اعلیٰ اخلاق کی آبیاری کے ’’نیک مشن‘‘ پر بھی کاربند ہے اور اگر کوئی نا ہنجار اپنی مرضی منشاء کے تحت زندگی گزارنے کا قصد کرے تو اسے ’’راہ راست‘‘ پر لانے کے لئے وہ اپنے ہاتھ پاؤں کا بے دریغ استعمال کرنے سے قطعی گریز نہیں کرتے۔
اسی بہانے جہاں اپنا لہو گرمانے کا موقع میسر آتا ہے تو ایسے’’بدکاروں‘‘ کے لہو میں پلنے والے باغیانہ اور سرکش جراثیم کو بھی تلف کرنے کی سعادت نصیب ہو تی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے اس امر میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں کہ کیونکر وہ ایک تنظیم کی صورت میں کام کر تی ہے۔ تاہم اختلاف کی گنجائش نکل اس وقت نکلتی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں اپنی من مانی کرکے دوسروں کے لئے جینا مشکل بنا دیتی ہے۔اس تنظیم کی موجودہ روش اور کارنامے یقینی طور پر اس کی ماضی کی روایات اور کامیابیوں سے صریحاً مختلف ہیں کہ جب ان کی کوکھ سے ایسے افراد نے جنم لیا جنہوں نے ملکی سیاست میں اپنا ایک نام اور مقام پیدا کیا۔
لیکن یہ بھی خوب ٹھہری کہ اس کی صفوں سے ابھرنے والوں نے اس سے جلدہی ناتا توڑ کر اپنا مستقر کہیں اور بنا لیا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں جہاں اسٹوڈننس یونین پر پابندی کا کوڑا برسا وہیں پر تعلیمی اداروں میں اپنے ’’صالحانہ مشن‘‘کی تکمیل کے لئے جنرل صاحب کو اسلامی جمعیت طلبہ کی صورت میں ایک منظم تنظیم ہاتھ لگ گئی، مخالفین کو تشدد کے ذریعے مرعوب کرنا، دھونس دھاندلی کواپنا شعار بنانا اور مخالف آواز کو دبانا ان کا منتہائے مقصود بن گیا۔اس تشدد پسندی نے بڑھتے بڑھتے ایک ایسی نا خوشگوار صورت اختیار کر لی کہ جس میں دنگا فساد اور کشت و خون من پسند مشغلہ ٹھہرا۔اسلامی جمعیت طلبہ نے جہاں اس میں مقدور بھر حصہ لیا وہیں ان کے مخالفین نے بھی جب موقع پڑا حساب چکتا کر دیا، جامعہ کراچی اس کا واضح ثبوت ہے کہ جہاں پہلے جمعیت کا سکہ چلتا تھا وہ اسی اور نوے کی دہائی میں ’’جمعیت ٹھاہ، جماعتی ٹھاہ ‘‘ کے نعروں سے گونجنے لگی۔
تعلیمی اداروں میں اسٹوڈننس یونین پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں اور وہ اسٹوڈننس کونسل کے انتخابات میں بھر پور حصہ لے کر ان اداروں کی تعمیر و ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں لیکن پچھلے کچھ عشروں سے ہمارے تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں سے وابستہ ان طلبہ تنظیموں نے پورے ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے، اسلامی جمعیت طلبہ نے کیونکہ اسلام کا لبادہ بھی اوڑھا ہوا ہے اس لئے اپنی جائز و ناجائز حرکت کو دین سے سند فراہم کرنے میں بھی کمال مہارت رکھتے ہیں، دوسری سیاسی جماعتوں کی طلباء تنظیموں نے بھی کچھ کم لنکا نہیں ڈھا رکھی جس کی واضح مثالیں جامعہ کراچی، بلوچستان یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، مہران یونیورسٹی جامشورو جہاں دوسری تنظیموں نے طلبہ گردی مچائی ہوئی ہے۔ پختون کلچرل ایونٹ شاید جمعیت کے فہم دین سے متصادم ہے اس لئے اس پر دھاوا بولنے کی سند بھی عین ان کے ’’اسلام‘‘ سے ڈھونڈنا کوئی مشکل امر نہیں اسلئے تو شرمساری اور پشیمانی کی ایک ہلکی سی بوند بھی ان کی’’ روشن پیشانی‘‘ سے نہیں پھسلی۔