قاسم یعقوب
تہذیبیں ایک دوسرے سے کس طرح متاثر ہوتی تھیں یا ایک تہذیب میں تبدیلی کن عوامل سے وقوع پذیر ہوتی۔اس کے بارے میں ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ زمانہ قدیم میں تہذیبوں کے مابین رابطے کے دو ہی ذرائع ممکن تھے ایک ؛جنگ اور دوسرا؛ تجارت۔ اگر ہم تہذیبوں کے اولین زمانے کا نقشہ سامنے رکھیں تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ ایک انسانی گروہ جو ابھی تہذیب کی حالت تک نہیں پہنچا تھا،زندگی کی بقا کے لیے ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کرجاتاتھا۔ ایسا گروہ کسی دوسرے انسانی گروہوں پر حملہ آور ہوتا یا اُن کے ساتھ مل کر زندگی گزارنے لگتا۔ ایک گروہ جب بڑی تعداد میں کسی دوسرے علاقے کے معاشی ذرائع پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا تو اس کے نتیجے میں جنگ ہوتی۔ اس جنگ کا بنیادی مقصد اناج کے ذرائع پر قبضہ ہوتا ۔چھوٹے چھوٹے گروہ کسی علاقے کے فطرتی ذرائع پیداوار کی عدم دستیابی یا ناپید ہوجانے کی وجہ سے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر جاتے اور دوسرے گروہوں کے غلام بن کے زندگی گزارتے یا اُن کے رحم و کرم پر زندگی کا دیا جلانے کو ترجیح دیتے۔پتھر کے زمانے کے بعد انسان کی سب سے بڑی ثقافتی دریافت ’زراعت‘ تھی۔زراعت نے انسانوں کو تہذیب سکھائی اور معاشی طاقت و آسودگی عطا کی۔
ایک ہزار قبل مسیح سے ولادتِ مسیح تک کا زمانہ لوہے کا دور سمجھا جاتا ہے۔یہ زمانہ تہذیبوں کے عروج و زوال کا دورکہلایا جاتا ہے۔تجارت، تہذیبوں کی اثر پذیری اور اثر آفرینی کا ذریعہ تھا۔بابل کی تہذیب ’میلٹس‘ کی مشہور بندرگاہ سے یونان منتقل ہوئی۔بابل والوں کے بہت سے تصورات جیسے علمِ ہندسہ اورفلکیات کے تصورات بابل اور یونان کی باہمی تجارت ہی سے یونانی فلاسفہ تک پہنچے۔ جنھیں یونانیوں نے عروج اور دوام بخشا۔اسی طرح فیثا غورث کے سفرِ ہندوستان کے بارے میں بھی قیاسی کہانیاں ملتی ہیں کہ وہ تجارت کے بہانے ہی ہندوستان آیا اور یہاں کی ہندو تہذیب سے تناسخِ ارواح کا نظریہ ادھار لے کرگیا۔تجارت تہذیبوں سے مکالمہ کے لیے بہت طاقت ور ذریعہ تھا۔جنگ دوسرے تہذیب کو تباہ کر کے اپنی مرضی کی تہذیب بنانے کا عمل تھا جو دوسری تہذیب کی راکھ پہ اپنی عمارت تعمیر کرتی ،کہیں کہیں مقامی اینٹ، گارے سے بھی مدد لے لی جاتی۔ جنگ اپنے نظریے اور رائے کو دوسرے گروہ یا قوم پر تھوپنے کا نام ہے۔جب انسان لوہے کی تہذیب میں داخل ہُوا تو اس نے جنگ کو اپنا عملِ خاص بنا لیا۔عسکری قوتوں نے انسانی تہذیب میں انسانیت سوز بازار گرم کر دیا۔وحشی قبائل اور بد تہذیب گروہوں نے تہذیبوں پر اُن کے ذرائع پیداوار کو چھیننے کے لیے حملے کیے اور اپنی زندگی کی بقا کو محفوظ بنایا۔تاریخ کے صفحات پہ ایسا بھی موجود ہے کہ ایک وحشی قوم نے تہذیب یافتہ قوم کو سرنگوں تو کر لیا مگر اُس تہذیب کے ہاتھوں اپنے وحشی پن کو شکست دی دے۔ کئی بے تہذیب گروہ ،فاتح تہذیبوں میں شامل ہو کے تہذیب یافتہ بن گئے۔
حضرتِ مسیح ؑ کی تحریک اور تبلیغ سے دنیا نظریے کی بالادستی اور کسی فکری تحریک کے غلبے کی طرف جہت بھرتی ہے۔اب جنگ اور تجارت کے ساتھ ایک تیسری قوت ’نظریے‘ (مذہبی فکر) کی بالادستی اور اشاعت کا مقصد بھی شامل ہو گیا۔نبی اکرمﷺ کی پیدائش ۷۱۲ء ہے یعنی عیسیؑ کے زمانے کے کوئی چھ سات سو سال بعد کا زمانہ۔حضرت مسیحؑ اور آنحضرتﷺ کے ادوار کے درمیانی عرصے میں دنیا بھر کی مختلف قوموں میں نظریے کے فروغ کا سامان تیار ہو چکا تھا۔جیسے چین میں کنفیوشش مت، ہندوستان میں بدھ مت اور جین مت ۔ ایران میں زرتشت کا ظہور وغیرہ۔ یہ مذہبی اور روحانی نظریے کسی قوم کی مجموعی تہذیب پر اثر انداز ہو رہے تھے بلکہ نئی تہذیب کی بنیاد بن رہے تھے۔ان روحانی نظریوں نے سوچنے سمجھنے کے سبھی رویوں کو بدلنے کا اہتمام کیا۔ یونانی فلسفی فلاطینوس جو ارسطو کے بعد کا فلسفی ہے ،ایک مصری تھا۔ فلاطینوس کے فکری نظام میں مصری تہذیب کی چھاپ نمایاں ہے۔اسی طرح جب مذہبی نظریوں نے کمر اٹھانا شروع کی تو تہذیب کو ازسرنَو مرتب کرنا شروع کیا۔تجارت سے پیدا شدہ باہمی اشتراک بہت قیمتی اور وسیع ہوتا تھا۔یہ اشتراک ایک دوسرے کی تہذیب کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم کرتا اور ایک دوسرے کی تہذیب کو بغیر کوئی قیمت ادا کیے قبول بھی کرتا۔
اب ہم آتے ہیں اسلامی تہذیب کے مرکز حجاز کی طرف۔ حجاز کا علاقہ جس میں مکہ اور مدینہ دو بعید الوقوع علاقے شامل ہیں،بنیادی طور پر دومختلف مقامی تہذیبوں کے مراکز تھے۔مکہ کا سارا دارومدار تجارت پر تھا۔ یعنی اس علاقے میں زمین سازی (کھیتی باڑی، زراعت اور کاشت کاری) کا نام و نشان بھی نہیں تھا جب کہ مدینہ اور اُس کے مضافات کا علاقہ سرسبز اور ہرا بھرا علاقہ تھا جہاں کے مقامی افراد کا باغبانی و کاشت کاری پہلا پیشہ تھا ۔ اس کے علاوہ مدینہ وہ تجارتی راستہ بھی تھا جو مختلف اطراف کے قافلوں کو ایک بڑی سرائے کے طور پر سہولیات بھی فراہم کرتا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام نے دونوں علاقوں کو اپنے نظریے کے فروغ کے لیے برابر اور یکساں طور پر اہمیت دی۔ اگرخاندانِ رسولﷺ مکے کاصدیوں سے رہائشی تھا تو حضورنے مدینے میں اپنے روضے کی سعادت سے دونوں علاقوں کے وقار کو ایک کر دیا۔
اسلام کے مکی اورمدنی دونوں ادوارمیں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہاں جو ردعمل آرہا تھا وہ اپنی نوعیت میں بھی مختلف تھا:
۱۔ مکے کے لوگ سخت مذہبی تھے، اُن کا اسلام کی مخالفت میں سامنے آنا اُن کی اپنے مذہب سے وابستگی اور وفاداری کی وجہ سے تھا۔ قریش کسی ایک قبیلے کا نام نہیں تھا۔ بلکہ مکے کے تمام قبیلے قریش کہلاتے تھے جو اسماعیل ؑ کی اولاد تھے۔اسلام سے مخالفت اُن کی اپنے دین سے محبت کی بنا پر تھی۔اس لیے جب وہ اسلام میں داخل ہوئے تو انھوں نے اسلام کے ساتھ وفاداری میں بھی انتہا کر دی۔
۲۔ مدینے (یثرب) کے لوگ زیادہ تر یہودی تھے جو اپنے علاقوں میں مال دار کہلائے جاتے۔ یہودیوں کا اسلام سے جھگڑا مذہبی سے زیادہ معاشی تھا۔وہ اپنے معاش کی تباہی کی وجہ سے اسلام کے خلاف ہوتے جا رہے تھے۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہودیوں نے اسلامی عقائد اور رسمات کو زیادہ ہدفِ ملامت بنانے کی بجائے دوسرے قبائل سے مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگی سازشیں کی تا کہ کسی طرح مسلمان پسپاہ ہو جائیں اور انھیں (یہودیوں) کو معاشی سرگرمیوں کی کھلے عام اجازت مل جائے۔خیبر کی فتح کے بعد فدک کے علاقے کے فتح ہونے سے اسلام کو ایک نئی معاشی طاقت ملی۔ یہ وہی باغ ہے جسے باغِ فدک کہا جاتا ہے جو سرسبز ہونے کے ساتھ ساتھ اتنا بڑا اور زرخیر تھا کہ حضرت عائشہ ؓ نے اسی باغ کے متعلق کہا تھا کہ’’ فدک کی فتح کے بعد ہم نے پیٹ بھر کے جَو کھائی‘‘۔
مکہ کا سارا دارومدار تجارت پر تھا۔ مکے کی زندگی اور ثقافتی سرگرمیاں تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ مثلاً
۱۔ تجارت کے لیے مرد حضرات کو گھر سے کئی کئی مہینے باہر جانا پڑتا، سو وہ اپنے جانور، قیمتی سامان یا اپنے بیوی بچے کسی ایمان دار ، ذمہ داراور نیک شخص کے حوالے کر جاتے یا نگرانی میں دے جاتے تا کہ اُس کی غیر موجودگی میں وہ اُن کی امانتوں کی حفاظت کرے۔ حضورﷺ کے علاوہ اور بھی کئی افراد اپنی امانت اور دیانت کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ عموماً ایک قبیلے کا فرد اپنے قبیلے کے ہی کسی فرد کے پاس امانتیں رکھواتا۔
۲۔ زراعت، باغبانی اور کاشت کاری نہ ہونے کی وجہ سے مکے کا علاقہ بنجر تھا۔ آج بھی اس علاقے میں زراعت نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ مکے کے افرادسبزے سے وابستہ اشیا سے محروم تھے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مکے میں زراعت سے جنم لینے والی اشیا اور سرگرمیاں ناپید تھیں۔ مثلاً
۰ اس خطے میں جنگلی حیات ’’لائیو سٹاک‘‘ بہت محدود اور نایاب تھی۔ اسی لیے لائیو سٹاک کی قدر ومنزلت بہت تھی۔ جیسے جانوروں کا پیشہ (چرواہا)، اونٹوں کو پالنا وغیرہ باقاعدہ اہم معاشی ذرائع تھے۔
۰ زراعت اور کاشت کاری نہ ہونے کی وجہ سے بھینسیں پالنا بھی ناممکن تھا اس لیے ان سے وابستہ اشیا جیسے دودھ، مکھن اور گھی بہت نایاب تھا۔
۰ شہد کے چھتوں کا تصور بھی درختوں سے وابستہ ہوتا ہے اس لیے شہد یہاں بہت نایاب اور اہمیت کا حامل تھا۔
۰ زراعت اور کاشت کاری نہ ہونے کی وجہ سے پھل اور سبزیاں بھی بہت قیمتی تصور کی جاتی ہیں۔مختلف روایات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مکے والوں میں پھل بہت نایاب شے کے طور پر موجود ہے۔
۰ جن علاقوں میں زراعت اور باغبانی موجود ہوں وہاں جانور خود بخود ہی یا بغیر تگ و دوکے انسانی زندگی کا حصہ بنے ہوتے ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اونٹ اور دیگرجانوروں کی سواریوں کو رکھنا اور پالنا بہت مشکل اور اہم فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ خون بہا کے طور پر سو انٹوں کی قربانی کی مشکل رسم بھی تھی جو نا ممکن حد تک عمل آرا سزا تھی۔اونٹ کی ایک اور اہمیت سواری کے طور پر بھی تھی چوں کہ مکے کے افراد تجارت سے منسلک تھے اس لیے اُس شخص کے لیے تجارت بہت آسان ہو جاتی جس کے پاس اپنا اونٹ ہوتا۔گھوڑے کو ذبح کر کے کھانا آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا کیوں کہ گھوڑا اُس وقت کے جنگی حالات میں اہم سواری سمجھا جانے لگا تھا۔
۳۔ مکہ مذہبی حوالے سے بھی مرکزی اہمیت رکھتا تھا۔ خانہ کعبہ کی موجودگی نے اس خطے کی اہمیت کو دو چند کردیا تھا۔دینِ ابراہیمی اس خطے کی اکثریت کا مذہب تھا جو مدینے کی طرف جاتے ہوئے کم ہوتا جاتا اور وہاں یہودیت کا غلبہ نظر آتا۔ اس لیے کعبے کی موجودگی افراد کے مذہبی فریضے کا ایک مقام بن گئی تھی۔ ہر سال لوگ بہت دور دور سے کعبے کی زیارت اور حج کے لیے مکے آتے۔ مکے کے منتظمین اس موقعے پر اعلیٰ انتظامات کرتے اور پیسے بھی کماتے۔میلے لگتے، دکانیں سجتیں اور زائرین کو ٹھہرانے اور کھانے پلانے کے لیے بڑے پیمانے پر افرادی قوت درکار ہوتی۔جس سے وسیع پیمانے پر روز گار پیدا ہوتا۔ کئی افراد تو سارا سارا سال حج کا انتظار کرتے اور اتنا کما لیتے کہ سارا سال گزر جاتا۔ کعبے کی مذہبی اہمیت کے پیشِ نظر ہی مکے کے لوگ جنگوں میں اہم کردار کرتے۔ قریش جس قبیلے کا ساتھ دیتے یا مخالفت کرتے وہ جنگی معاملہ بھی اہمیت کرجاتا۔
جس طرح قبلِ مسیح ادوار میں جنگ اپنے معاشی اہداف کا مرکز سمجھی جاتی تھی، نظریے کی پیدائش کے بعد جنگ نے نظریے کے اندر سے جھانکنے کی کوشش کی۔ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ (مذہبی)نظریے کی پیدائش میں معاشی بالادستی شامل نہیں تھی۔اگر اسلام کے ایامِ آغاز سے لے کر’ فِدک‘ کی فتح تک معاش غلبہ نظر نہیں آرہا تو اس میں ایک سچائی تو موجود ہے کہ اسلامی قافلے میں شامل ہونے والے افراد معاشی مقاصد سے نہیں بلکہ نظریے کی تبلیغ سے کھنچے آتے تھے۔ صُفحہ کے چبوتروں پہ بھوکے بیٹھے افراد اور سعد بن عبادہ ؓ کے گھر سے آنے والے کھانے میں معاشی کشش کیسے پیدا ہو سکتی تھی!
مدینے اور اس کے اطراف کے یہودیوں نے اتنی معاشی طاقت کے باوجود چند سالوں میں ہی اسلامی طاقت کے ہاتھوں اپنی شکست تسلیم کر لی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انھیں اس قسم کی جنگی مزاحمت کا سامنا کبھی کرنا ہی نہیں پڑا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ بدویوں اور جنگی قافلوں کے بچنے کے لیے اپنے قلعے تعمیر کرتے اور کرواتے رہے۔اپنی معاشی صلاحیت پر ہی توجہ دیتے رہے۔ اسی لیے وہ اسلام کے لشکروں کے ہاتھوں سال بہ سال شکست کھاتے گئے۔ اس موقع پر مکی افراد کی نفسیات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ وہ اسلام کی مذہبی جلالت سے زیادہ ان خبروں سے بھی شکست کھانے پر مجبور ہوئے کہ اسلام تیزی سے یہودیوں کے خیموں تک جا پہنچا ہے۔مکے کے افراد بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ایک؛مکے کی اشرافیہ (سردار طبقہ) اوردوسرا؛ وہ غریب لوگ جو معاشی طور پربد حال تھے۔جو اشرافیہ کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے تھے۔مذہبی بالادستی اشرافیہ کا مسئلہ تھا اور آخر تک رہا۔ آپ دیکھیے ابوسفیان اور اُس کا خاندان فتح مکہ پر اسلام لائے۔اشرافیہ کا مذہب چھوڑنا اصل میں طاقت کو خیر باد کہنا تھا اس لیے وہ پسپا ہونے کو تیار نہیں تھی۔ مکے کے محنت کش طبقے نے اسلام کو کھلے دل سے قبول کیا اور ہجرت کر کے اس جذبے کو طاقت میں بدل ڈالا۔ جس نے مکے کی اشرافیہ کو بھی شکست پر آمادہ کر لیا۔
قبل مسیح ادوار میں تہذیبوں کو مفتوح بنانے کا رجحان اُس کے پیداواری ذخیرے کو لوٹنا ہوتا تھا۔مگر نظریے کی بالادستی کا قیام کرنے والوں کے ہاں پیداواری ذرائع کو لوٹنا یا قبضہ کرنے کا رجحان بھی مذہبی نظریے کے فروغ کے لیے نظر آتاہے۔ نظریے کے فروغ کے لیے نظریاتی منصوبہ بندیاں مفتوح علاقوں کو تقسیم ہونے سے بچاتی ہیں یعنی مفتوح علاقوں کو ایک جگہ رکھتی ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں جو مفتوح علاقے طاقت اور پیداواری ذرائع کے قابضین کے پاس ہوتے ہیں، وہ آبادیوں کو تقسیم کرجاتے ہیں یا اُن کے علاقے خود بخود اُن کے تسلط سے نکلتے جاتے ہیں۔
سکندر جب تخت پہ بیٹھا تھا تو اُس کی عمر صرف سترہ سال تھی۔سکندر کا باپ بھی حکمران تھا۔ وہ اپنے باپ کے ارادوں کو تکمیل دیناچاہتاتھا چناں چہ اُس نے ایران پر چڑھائی کا ارادہ کیا۔اس سے پہلے۳۳۲ میں وہ مصر کو تاخت وتاراج کر چکا تھا۔ایران کے شہر’’ قصرِ سوسن‘‘ پرقبضہ کر کے سکندر نے پورے شہر کے مال کو لوٹا اور جلایا۔ایران اُس وقت جہلم اور اٹک تک پھیلا ہُوا تھا، چناں چہ سکندر جہلم اور اٹک تک چلا آیا۔ اپنی فوج کے کہنے پر وہ واپس تو لوٹ گیا مگر اُس کی مفتوح جاگیر تین حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔یہ یونان ، ایران اور مصر کے علاقے تھے۔
اسلامی حکمرانوں کے اہداف میں جب تک نظریہ اولین درجہ رکھتا رہانظریے نے فروغ پایا۔ہم دیکھتے ہیں کہ جب جب اسلامی حکمرانوں میں معاشی اہداف اولیت اختیار کرتے گئے تب تب ان کے ہاں سلطنت اور اختیار کی تقسیم ہوتی گئی۔