(شکور رافع)
سات اسلامی ممالک کے افراد پر انکل سام نے پابندی لگا دی۔۔۔۔ اچھا۔ اپنی مٹی اور اُس پہ دمکنے والے رنگوں سے محبت فطری اور قدرتی جذبہ ہے۔ ایک غریب شاعرکو پردیس میں بہار آئی تویوں روپڑا: خار وطن از سنبل وریحاں خوش تر….
یعنی بیٹھنے کو چھاؤں کیسی بھی گھنی ملے،غریب الوطنی ہر لمحے کا کرب ہے، گزرنے والا سوچ سوچ ’گزرتا‘ ہے۔ مدینہ جاتے ہوئے وہؐ بطحا کی آخری گھاٹی پر ٹھہر سے گئے، دم لیا اور گویا ہوئے: ’مکہ! تو مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند جومجھے رہنے نہیں دیتے۔ ‘
وطن چھوڑنے والا کہیں بھی چلا جائے غریب الوطن ہی کہلاتا ہے اور وطن اس کے لیے کوئے جاناں ۔ پھر سے حکم صادر ہوا تو فیض دربدر ہوئے مگر سانس جب بھی لی، منہ ہمالیہ کی طرف کر کے کہا
ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟
تاریخ یہی بتاتی ہے انقلاب کے لیے دل و جاں گروی رکھ کے جلاوطنی جھیلنے والے قوم کے ماتھے کا جھومر بن جاتے ہیں جبکہ ذات خواہشات کے لیے مٹی سے کٹ جانے والے اسی ماتھے کا ٹیکا۔ ایک قیمتی شخص کے چلے جانے سے فرد نہیں پوری قوم غریب الوطن ٹھہرتی ہے۔
ایسے ہی کچھ تلخ حقائق کی کہانی یہ سر زمین سنا رہی ہے۔
پہلے کی کہانی باالرضا تھی۔۔آجکل کی بالجبر!! ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے چند برسوں میں پاکستان سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد بہت تیزی سے بیرون ملک منتقل ہو چکے اور ہورہے ہیں۔
تفصیل یہ کہ گزشتہ دور حکومت میں ستائیس لاکھ باون ہزار تعلیم یافتہ افراد کی کھیپ وطن عزیز چھوڑ چکی جبکہ صرف دو سالوں (2013ءسے 2015ء تک) میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار تعلیم یافتہ نوجوان امیر ممالک میں جا بسے ہیں۔ یہ اعداد وشمار دل دہلا دینے والے ہیں۔ ایک ایسی قوم کہ جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد آبادی کے دو فیصد سے بھی کم ہوں، وہاں ایسے نایاب اثاثے کی مسلسل بے وطنی کھڑے خطرے کا بڑا الارم ہے۔
قوم کا یہ نایاب عطر اپنے لیے جس سہانے خواب اور آدرش کا متلاشی ہے وہ اسے اسی پردیس میں ممکن دکھائی دیتا ہے ، جہاں بقول ان کے شناخت کی قربانی لے کر صلاحیت کو جان اور مان تو لیا جاتا ہے۔ دوسری طرف پرکشش بتیاں جلا دکھا کر غریب جھونپڑیوں سے گوہر نایاب اٹھا لینے کی اس ’دولت گردی‘ یا معاشی ڈاکہ کو گلوبل ویلج میں اکنامک پالیسی کہا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام زوال کی آخری حد پر ہے اور ہاتھ پیر مارتے امیر ممالک جی ڈی پی میں مسلسل کمی سے پیدا شدہ اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے اب معیشت پر بوجھ بننے والوں کے بجائے معیشت کا بوجھ اٹھانے والے کارآمد ورکرز کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سات اسلامی ممالک پر امریکہ داخلہ پر حالیہ پابندی کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ مذہبی دہشت گردی کے ’خوف‘ سے عراق،شام، لیبیا، ایران، یمن،صومالیہ اور سوڈان وغیرہ کے ان غریب مہاجرین پر تو پابندی لگادی گئی کہ جہاں خود امریکہ نے سازش اورظلم کے پہاڑ توڑ دیے مگر ان بے بس ریاستوں سے کبھی امریکہ پر حملے کا تصور بھی نہیں کیا گیا، دوسری طرف جن تیل بردارعرب ریاستوں پر نائن الیون جیسے واقعات میں ہزاروں امریکی ماردینے کا الزام ہے، دفاعی و تجارتی سودوں میں انہی کے منہ چومے جا رہے ہیں۔
فرق صاف ظاہر ہے کہ اصل مسئلہ مذہبی نہیں، معاشی ہے۔ مذہبی پہلو محض اتنا ہے کہ زیرعتاب آنے والے ان اسلامی ممالک میں ایک مخصوص (شیعہ) مسلک کی اکثریت ہے جس کی ایسی تحقیر آمیز پیش بندی پر مخالف مسلکی (بالخصوص عرب ) مملکتوں نے خاموشی اختیار کر کے ملت اسلامیہ کی داخلی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ۔ ویسی ہی خاموشی جیسی عراق اور افغانستان پر حملوں میں حالیہ معتوب شیعہ مسلکی مملکتوں نے اختیار کر رکھی تھی۔
ٹرمپ نے اس تیر سے اسلامی وحدت کو آشکار کرنے کے ساتھ دوسرا شکار اپنے انتہا پسندانہ ووٹرز کو کیا کہ انتخابی مہم میں جن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ امریکہ میں متشدد مسلمانوں کا داخلہ بند کر دے گا ۔ کم ووٹرزنے معاملے کو اتنی باریک بینی سے دیکھا کہ متشدد کے بجائے یہ تو وہ غریب اور مہاجرت زدہ ریاستیں تھیں جنہیں خود امریکہ نے ہی بالواسطہ یا بلاواسطہ اس حالت تک پہنچایا ہے ۔اپنے اسلحہ بارود کی کھپت کے بعد اب ان مفلوک مملکتوں سے امریکی معیشت کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی کہ جنگ، قحط اور نفسانفسی میں اعلیٰ دماغ پروفیشنلزم کا کم ہجرت فرار کا زیادہ سوچتے ہیں۔
آمد برسر مطلب، سوال یہ ہے کہ ان سات کے علاوہ باقی غریب ریاستیں اپنے تعلیم یافتہ اثاثوں کی منتقلی پر مطمئن ہیں؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ذہین، پروفیشنلز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اٹھانوے فیصدی دودھ پر دو فیصد بالائی ہیں۔ دودھ کو مسلسل جوش دے کر بالائی اتاری جاتی رہے تو رہ جانے والے پانی نما دودھ کی کیفیت کیا ہوتی ہے، اس کا اندازہ اپنے ریاستی معاملات اور انتظامی ڈھانچے کو دیکھ کرہی بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اس سوال کا بھی کوئی حتمی جواب سامنے نہیں آتا کہ بھرپور نظام معیشت چلا لینے والے کروڑوں افراد کے اس پاک مسکن میں سے تعلیم یافتہ نسل ہی باہر کیوں بھاگنا چاہتی ہے۔ اس کا ایک سادہ جواب تو یہ ہے کہ یہاں قیام پذیر بقیہ کروڑوں افراد کو باہر جانے کی امید ہی نہیں، موقع ہی میسر نہیں۔
دنیا میں بیشتر ممالک غریب ہیں اورباہر جانا ان کی بھی ترجیحات میں شامل ہے مگراپنے ہاں یہ شرح انتہائی بلند ہے اور مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ’ویزہ مہر‘ کے ’ترجیح ‘ سے ’جنون‘ بن جانے کی سب سے بڑی وجہ، طالب علم کے خیال میں، فرسودہ تعلیمی نظام ہے ، بالخصوص نصاب کہ جو حب الوطنی، قناعت، ایثار اور خدمت خلق کے جذبات پیدا کرنے میں بری طرح سے ناکام رہا ہے۔
باہر جانے اور ملٹی نیشنلز میں خدمات سر انجام دینے والوں میں سے اکثریت اس اشرافیہ کی ہے جو افزائش سے آرائش تک کسی مرحلے میں بھی قومی نصاب تعلیم کے دھارے میں ہی نہیں آتی۔ پلے گروپ سے اے لیول تک یہ طلبہ پاکستانی کلچر، ثقافت، زبان اور پاکستانی مسائل بالخصوص معاشی وسماجی چیلنجز سے بے خبر رہتے ہیں یا لاتعلق…. نصاب بنانے والے، پرچہ بنانے والے، امتحانات لینے والے، ڈگری دینے والے سب اپنی مٹی سے نہیں ہوتے…. گھریلو ولایتی منظر سے لے کر بدیسی میل ملاپ تک میں یکسر اجنبی ماحول میں پروان چڑھنے والے ان ملٹی نیشنل نوجوانوں سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ ملک کی ابتر معاشی صورتحال میں قناعت سے کام لیتے وطن عزیز کی خدمت اور خاندان و معاشرہ سے قربت کا ثبوت دیں گے۔
رہ گئے قومی نظام تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے بعد، باہر جانے سے کے خواہشمند تو ماں کی لوری سے سپنوں کی گوری تک کے سفر میں یہ دیسی نوجوان جب بھی نگاہ ارد گرد اٹھاتے ہیں تو والدین، اساتذہ، علما اور میڈیا سب کے سب وطن عزیز کو ایسے خطرناک موڑ پر لرزہ اندام دیکھتے دکھاتے ہیں کہ تشریح ایک مصرع میں ہوتی ہے
’کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا!‘
اپنے استاد کی ازلی مفلوک الحالیاں، انجینئرز کی ایک آسامی پہ دو ہزار درخواستیں، ڈاکٹرز کے ماہانہ بھوک ہڑتالی کیمپ اور ایم بی اے پاس کیشئرز کی اکثریت دیکھ کر وہ مقسط ندیم کی طرح یہ کہہ کر نقل مکانی کرجاتے ہیں۔
میرے باپ نے ہجرت کی تھی، میں نے نقل مکانی
اس نے اک تاریخ لکھی تھی، میں نے اک کہانی
اس قومی اثاثے کی لوٹ سیل پر سرکار کی چشم پوشی کی ایک مثال اپنے ہاں روایتی ملازمت کے ادارے ہیں۔ ملٹی نیشنلز کے علاوہ، باعزت مراعات اور استقبالی سہولیات محض سول سروس اور اسٹیبلشمنٹ کے زیر انتظام چند اداروں میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ کچھ بڑے اداروں میں اگر مراعات پر کشش ہیں بھی تو ترقی و ضابطہ کے معیار کو ایک عامیانہ محاورہ سے سمجھا جا سکتا ہے یعنی ’گھوڑوں اور گدھوں کا برابر ہونا‘۔ ہمت، مزاج اور صلاحیت کے برعکس ٹھونسا گیا کام، سینئرز کا حوصلہ شکن رویہ اور ترقی کا غیر منصفانہ (یعنی مساویانہ) عمل ان سست اداروں کے ساتھ ساتھ چست افراد کو بھی لے ڈوبتا ہے۔
یہ محنتی اور تخلیقی افراد ایک لاٹھی سے ہانکے جانے والے سازشی نظام کا حصہ بننے کے بجائے عزت اور معاوضہ کے ساتھ کھلے پرسکون ماحول میں زیادہ کام کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور بدقسمتی سے ،ہم، بحیثیتِ قوم ، سخن فہم کم اور ’غالب کے طرفدار‘ زیادہ واقع ہوئے ہیں جبکہ فن کے قدر دان شیکسپیئر کے رسیا دکھائی آتے ہیں کہ جہاں انتخاب میرٹ پر اور ترقی محض کارکردگی کے ساتھ مشروط ہے۔
پاکستان میں آٹھ کروڑ افراد چالیس سال سے کم عمر ہیں۔ اس عظیم عددی اکثریت کی حامل نوجوان نسل کی سیاسی ہمدردیاں لینے کے لیے اگر لیپ ٹاپ، قرضے اور نئے پاکستان کے تشہیری خوابوں پر کھربوں روپے لٹائے جاسکتے ہیں تو جھولوں، اسکولوں سے لے کر دانش گاہوں تک میں سیکھنے سکھانے والوں میں سرزمین اور اس کے اداروں سے وابستگی پیدا کرنے کے لیے فکری و عملی اقدامات کیوں نہیں کیے جا سکتے؟ مثلاً سائنسی و تکنیکی اور پروفیشنلز شعبوں میں خصوصی پیکجز، سرکاری و نجی ملازمت کے منصفانہ اور قابل عمل اصول و ضوابط، ترقی اور مراعات کے تحریک افزا پلان، بالخصوص جزا سزا کے نظام میں بنیادی اصلاحات کہ جن سے پرانی سیاست گری کو خوار کیا جاسکتا ہے اور جوانوں کو پیروں کا استاد کیا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف اہل فکر ودانش سے مشاورت کے بعد تعلیمی نظام ریاست کے قبضے میں لے کر، امرا کو ترقی کے زینے اور غربا کو مزدوری کے پسینے بخشنے والے موجودہ بے رحم نصاب تعلیم کو بھی مکمل طور پربدل ڈالنے کی اشد ضرورت ہے…. ایک غریب قوم ایسا نظام تعلیم برداشت نہیں کر سکتی کہ جہاں فرد کو جسمانی و ذہنی طور پر تیار کرنے میں خرچ دیسی ریاست کا ہو اور ثمرات بدیسی امیر ریاست لوٹ لے، وہ بھی احسانات اور اوقات یاد دلا کر۔ کاش نسل نو بھی امیر ممالک میں داخلہ کےَ خِفتّی خطرات کے جنون سے زیادہ اپنی مٹی کے خُفتہ امکانات میں سکون تلاش کر سکے۔ افتخار عارف کی اس اعترافانہ رمز کے ساتھ!
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ،ہم کیا، ہماری ہجرت کیا؟
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.