اسلام میں پسند کی شادی کا تصور

(فرہاد علی)

مشہور قصہ ہے کہ کسی گاؤں میں چار دوست رہتے تھے مگر سب کے سب اندھے تھے۔ انہوں نے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا ایک دن انہوں نے شہر جا کر چڑیا گھر میں ہاتھی دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ چڑیا گھر جا کر ہاتھی کے قریب گئے۔ چونکہ دیکھ نہیں سکتے تھے اس لئے ٹٹول ٹٹول کر ہاتھی کا جائزہ لینے لگے۔ ہر ایک ہاتھی کے مختلف حصوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ ایک نے ہاتھی کے پیر چھو کر اعلان کیا کہ یہ تو ستون کی طرح ہے۔ دوسرے نے سونڈ ہاتھ میں لے کر کہا کہ یہ تو اژدہے کی طرح کا جانور ہے۔ تیسرے کے ہاتھ دم آئی تو وہ اس کو رسی جیسا سمجھنے لگا جبکہ چوتھا اس کے کان کو چھو کر اس کو ہاتھ کے پنکھے جیسا ثابت کرنے لگا۔

ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک کا اندازہ غلط تھا کیونکہ ہاتھی کا ہر حصہ ان کی نظروں کے سامنے نہیں تھا۔ یہی حال ہم نے آج اسلام کا بنا رکھا ہے کسی کو اس صرف خلافت نظر آتی ہے تو کسی کو صرف جمہوریت، کوئی اس کو صرف اخلاقیات کا دین سمجھ رہا ہے تو کوئی صرف مسجد تک محدود کرنے پر مصر ہے۔ غرض جس کو اسلام کا جو پہلو راس آتا ہے اس کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرے پر طنز و تشنیع اور گالم گلوچ کی گولہ باری شروع کردیتا ہے۔

یہی طرزِ عمل پسند کی شادی کے معاملہ میں اختیار کیا گیا ہے۔ جن حضرات کو عالمی میڈیا کے زیر اثر اسلام کا صرف یہ پہلو پسند آیا کہ اسلام پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے انہوں نے باقی تمام پہلوؤں اور اسلام کے معاشرتی احکام و مزاج اور معاشرے پر اس کے اثرات کو یکسر نظر انداز کردیا۔

اسلام کے ہر حکم میں معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے چنانچہ حدیث کی تمام مشہور کتابوں میں یہ واقعہ منقول ہے کہ مشرکین نے جب خانہ کعبہ کو ازسرنو تعمیر کیا تو انہوں نے آپس میں یہ عہد وپیمان کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں حرام پیسہ نہیں لگائیں گے۔ چنانچہ حلال کی کمائی ختم ہوگئی اور ایک حصہ باقی رہ گیا جس کو خانہ کعبہ کے چوکور کمرے کے باہر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے ارد گرد چھوٹی سی دیوار کھینچی گئی اور اس کو ہم حطیم کہتے ہیں جو کہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے مگر عمارت سے باہر ہے۔ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ میرا دل کرتا ہے کہ خانہ کعبہ کو ان بنیادوں پر تعمیر کروں جن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا (حطیم کو تعمیر میں شامل کرنے کی طرف اشارہ تھا ) لیکن تمہاری قوم کا نیا ایمان اس ارادہ کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ ہے۔

حضور ﷺ خود موجود ہیں۔ جان نچھاور کرنے والے صحابہ کرام ایک اشارہ آبرو کے منتظر ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ کے عمل پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا مگر پھر بھی ضعیف الایمان لوگوں کا خاص خیال رکھا گیا۔ اس لمحے حضورﷺ نے اپنی دیرینہ خواہش کو معاشرے کی رعایت پر قربان کردیا۔

اب پسند کی شادی کا معاملہ لیجئے۔ اس معاملہ میں ہمارے دور کے حضرات حدیث سے مثالیں پیش کرتے ہیں لیکن یہاں وہ صرف ان احادیث کو دیکھتے ہیں۔ اسلام کے عمومی مزاج کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اگر صرف ان احادیث کو لے کر پسند کی شادی کو ثابت کریں گے تو یہ حضرات ان احادیث کے بارے میں کیا کہیں گے جو ولی کے اختیار کے بارے میں ہیں؟ انہیں احادیث کی روشنی میں بعض آئمہ کرام تو ولی کے بغیر نکاح کے انعقاد ہی کے قائل نہیں ہیں۔ چونکہ لڑکی کے اولیاء نے اسی معاشرے میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اسی لئے ان کی رعایت کا خاص اہتمام کیا گیا ہے تاکہ نادان اور نسبتا کم تجربہ رکھنے والی جذباتی لڑکی کی وجہ سے یہ لوگ معاشرے میں رسوا نہ ہوں۔ اس لئے اسلام نے بالغ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اولیاء کو ظلم سے بچایا ہے۔ آخر ایسا کیوں فرض کیا گیا ہے کہ ہر لڑکی کا فیصلہ صحیح اور اس کے اولیاء کا فیصلہ غلط ہوتا ہے۔

جب اولیاء کو نظر انداز کرکے کوئی لڑکی شادی کرے گی اور آپ اس کی حوصلہ افزائی کریں گے تو اس سے معاشرے پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ شادیاں عموما ناکام ہوتی ہیں کیونکہ جذباتی جوڑے کے درمیان لڑائی جھگڑے کی صورت میں صلح صفائی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اگر لڑکا ظالم ہو یا اس کے گھر کے افراد لڑکی کو بےجا تنگ کر رہے ہوں تو ان پر لڑکی کے اولیاء کی طرف کوئی دباؤ نہیں ہوتا چنانچہ لڑکی خاموشی سے ظلم سہتی رہتی ہے نیز ہمارے معاشرے میں عام طور پر ایسی لڑکی کو وہ عزت نہیں ملتی جو والدین کی مرضی سے شادی کرنے والی لڑکی کو ملتی ہے۔ علاوہ ازیں ایسی صورتوں میں بات غیرت کے نام پر قتل تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو ان تمام خرابیوں کی جڑ معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو دانستہ یا نادانستہ طور پر نظر انداز کرنا ہے۔

پسند کی شادی کے معاملہ میں اسلام سے دلائل دینے والے اس وقت کے عرب معاشرے اور ہمارے موجودہ معاشرے کی نفسیات میں پائے جانے والے فرق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام سے پہلے اور بعد میں وہاں عورتیں نکاح کا پیغام خود بھیجتی اور قبول یا رد کردیتی تھیں۔ یہ اس معاشرے کی عام سی بات تھی اور اس کے محرکات آج کے محرکات سے یکسر مختلف ہوتے تھے۔ ایسے میں حضرت خدیجہؓ کے عمل سے یہ تاثر دینا کہ یہی عمل ہر معاشرے میں اختیار کیا جاسکتا ہے ناانصافی اور لاعلمی پر مبنی ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ایسی عورتوں کو اس معاشرے میں کبھی غلط نہیں سمجھا گیا۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسی لڑکیوں کے بارے میں جو سوچ عام ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ جب معاشرے میں رائج اس سوچ کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا اور گھر سے نکل کر شادی کرنے والی لڑکیوں کے لئے اسلام کی تعلیمات سے دلیل ڈھونڈی جائے گی تو اس صورت میں یہ ان لڑکیوں کے ساتھ ظلم بھی ہے اور ان کی زندگیوں سے کھلواڑ بھی۔

خدارا! اسلامی تعلیمات کو یوں اپنے نظریات کے لئے کتر و بیونت کی بھینٹ نہ چڑھائیے اور نہ من پسند پہلو کو لےکر دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کریں، ورنہ اس کے نقصانات معاشرے میں بے چینی، انتشار اور پریشانی کی صورت میں ظاہر ہوں گے جیسا کہ اس کے نتائج ہم روز دیکھتے ہیں۔

2 Comments

  1. The writer has tried to prove that every culture has its own norms and values and those norms and values should be kept intact. Yes, I agree with that. But my question is would the venerable writer extend the same courtesy to all cultural practices or because is it just reserved for for the case of marriage? For example, in Indian Sub-Continent, there has been this traditions for centuries that these people give dowry to their daughters and don’t give them share in property. Which is not right according to Islamic principles. If we follow the argument of the writer, then we should not challenge this tradition and accept it because it is part of local culture. I think it is the writer who is picking and choosing the concepts of Islam that suit his ideology

Comments are closed.