(منظور الحسن)
فن موسیقی کےعنوان کے تحت ہم نے جو روایت نقل کی تھی، اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے سیدہ عائشہ سے فرمایاکہ کیا تم اس عورت کوجانتی ہو؟ سیدہ نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ فلاں قبیلے کی قینہ (مغنیہ) ہے ، کیا تم اس کا گانا پسند کرو گی ؟ اور پھر اس نے سیدہ کوگاناسنایا۔
اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے ہم نے بیان کیا تھا کہ اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فن موسیقی کو اصلاً باطل نہیں سمجھتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ اس ماہر فن مغنیہ کو ٹوک دیتے یا کم سے کم سیدہ کو اس کا گانا ہرگز نہ سننے دیتے۔ یہ بات مسلم ہے کہ حبشہ کے غلام اور لونڈیاں رقص و موسیقی کے فنون میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ اکثر عربوں کی تقریبات میں شریک ہوتے رہتے تھے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انھی میں سے بعض نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔
مذکورہ روایت کے تحت جو حوالہ ہم نے نقل کیا ہے، وہ سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۸۹۶۰ ہے۔ یہ درحقیقت السنن الکبریٰ للنسائی، رقم ۸۹۶۰ ہے ۔ پروف کی غلطی سے نسائی کے بجائے بیہقی لکھا گیا ہے۔ ”الاعتصام ”نے اس جانب متوجہ کرنے کے لیے’ ‘غلط حوالہ” کے عنوان سے جلی سرخی قائم کی ہے اور اس کے تحت ایک نوٹ میں اپنے خاص انداز سے اس کی نشان دہی کی ہے۔ اس طرح کی پروف اور تدوین کی غلطیاں معتد بہ تعداد میں خود ”الاعتصام” کے مضمون میں بھی موجود ہیں اور جواب آں غزل کے طور پر ‘غلط حوالہ’ ، ‘غلط ترجمہ’، ‘غلط اعراب’، ‘غلط املا’ ، ‘غلط محاورہ’اور’ غلط اوقاف ‘ کے عنوانات قائم کر کے ان کی نشان دہی بھی کی جا سکتی ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ طریق مکالمے اور علمی تبادلۂ خیال کی فضا کو متاثر کر سکتا ہے، اس لیے ہم اس سے قطع نظر کرتے ہوئے اس نشان دہی پر ”الاعتصام ”کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔آیندہ اشاعت میں ان شا اللہ اس کی تصحیح ہو جائے گی۔
اس روایت سے ہمارے استدلال پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ہم علامہ الزمخشری ، علامہ الجوہری رحمہم اللہ وغیرہ کے حوالے سے ذکر کر آئے ہیں کہ ”قینۃ” دراصل لونڈی کو کہتے ہیں، ماہر فن اور پیشہ ور مغنیہ کو نہیں۔ لہٰذا جب وہ ”پیشہ ور” تھی ہی نہیں، لونڈی تھی، اس کے گانے کا انداز ”ماہر فن مغنیہ” کا نہیں، اونچی آواز سے شعر پڑھنے کا تھا، چنانچہ اس نے وہ اشعار پڑھے۔سیدہ عائشہ نے وہ اشعار سنے۔”(۱۱؍۵۷ :۱۷
قینہ کے مفہوم اور اطلاق کی بحث تو گزشتہ صفحات میں فیصل ہو چکی ہے، تاہم ”الاعتصام” کے اس نوٹ پر کہ ” اس کے گانے کا انداز ماہر فن مغنیہ کا نہیں، اونچی آواز سے شعر پڑھنے کا تھا، چنانچہ اس نے وہ اشعار پڑھے۔سیدہ عائشہ نے وہ اشعار سنے،” چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ یہ اطلاع کہاں سے ملی ہے کہ اس قینہ کا انداز اونچی آواز میں شعر پڑھنے کا تھا؟ مذکورہ روایت میں توایسا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا جس کا معنی ‘شعر’ یا ‘اونچی آواز ‘ کیا جا سکے؟ اس کے الفاظ تو فقط یہ ہیں: تحبین ان تغنیک؟ فغنتھا۔(کیا تم اس کا غنا سننا چاہو گی؟ چنانچہ اس نے انھیں غنا سنایا)گویا یہاں فقط غنا کا فعل استعمال ہوا جس کے معلوم اور معروف معنی گانا گانے کے ہیں۔ اسی سے مغنی اور مغنیہ بنا ہے جس کے معنی گلوکار اور گلوکارہ کے ہیں۔ چنانچہ وہ کون سی داخلی یا خارجی دلیل ہے جس کی بنا پر یہ تحقیق پیش کی گئی ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ شعر اور آواز کے بلند آہنگ کو آپ نے غنا کے مصداق سے الگ کیسے کر لیا ہے۔ ناشناسی کی اگر یہی نوعیت ہے توکسی راہ چلتے سے معلوم کر لیجیے ، وہ بادنیٰ تامل بتا دے گا کہ اشعار کو آواز کے زیرو بم کے ساتھ پڑھنا غنا ہی تو ہے۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ آپ کی دانست میں جب قینہ کے معنی گانے والی کے نہیں ، بلکہ عام لونڈی کے ہیں اور اس نے اونچی آواز سے شعر پڑھنے ہی پر اکتفا کی ہے تو پھر آپ کے قلم سے ”اس کے گانے کا انداز”کے الفاظ کیوں نکل گئے ہیں؟ آپ نے یہ کیوں نہیں لکھا کہ ”اس کے کہنے کا انداز” یا ”اس کے پڑھنے کا انداز”؟ کہیں معاملہ وہی تو نہیں ہے کہ:
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے، تو چھپائے نہ بنے
تنقید کو آگے بڑھاتے ہوئے ”الاعتصام” نے لکھا ہے:
”السنن الکبریٰ للنسائی میں حضرت سائب کی یہ روایت تو انھیں نظر آگئی مگر مسند امام احمد اور المعجم الکبیر لطبرانی میں حضرت سائب کی یہ روایت نظر نہ آئی، جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب وہ لونڈی گانے لگی
”فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((قد نفخ الشیطان فی منخریھا))”تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان نے اس کے نتھنوں میں پھونک ماری ہے۔” یہی روایت علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد (ج:۷، ص۱۳۰) میں بھی ذکر کی اور فرمایا: ”رواہ احمد والطبرانی ورجال احمد رجال الصحیح” ”اسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور مسند احمد کے راوی الصحیح کے راوی ہیں… جس سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی کے گانے پر نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایاکہ ”اس کے نتھنوں میں شیطان پھونک لگاتا ہے۔” مگر افسوس اہل اشراق بڑی سادگی بلکہ عیاری سے مکمل روایت سے آنکھیں بند کر کے یہ باور کرانے کے درپے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے گانے پر کراہت کا اظہار نہیں فرمایا… شیطان کے ساتھ اس کی تشبیہ اس کی کراہت کی بین دلیل ہے ، مگر افسوس وہ تو اہل اشراق کو نظر ہی نہیں آتی۔”(۱۱؍۵۷:۱۷)
اس عبارت کوپڑھ کر ہم اہل الاعتصام سے التجا کرتے ہیں کہ اپنے مزعومہ تصورات کے اثبات کے لیے علم بھینٹ چڑھتا ہے تو چڑھا دیجیے، حق کا کتمان ہوتا ہے تو کر دیجیے، اخلاقیات کی دھجیاں بکھرتی ہیں تو بکھیر دیجیے، مگر خدا کے لیے کم سے کم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے معاملے میں بہت احتیاط سے کام لیجیے ۔اس معاملے میں ہمارا اور آپ کارویہ یہ ہونا چاہیے کہ زبان کٹ جائے، قلم ٹوٹ جائے، مگر ایک لفظ بھی ایسا نہ نکلے جو اس عظیم المرتبت کی شان سے فروتر ہو۔ اس لیے کہ اسی کی ذات والا صفات ہے جس پر دین کا مدار ہے اور اسی کی ہستی ہے جس کا قول و عمل دین کا منبع و ماخذ ہے۔ دیکھیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں سے وہ وصف جسے آپ کی اتباع نہ کرنے والوں نے بھی تسلیم کیا ہے ، آپ کے قول و فعل میں کامل ہم آہنگی ہے ۔آپ نے جو کچھ کہا ، آپ کا عمل ہمیشہ اس کے عین مطابق رہا اور جو کچھ آپ نے کیا ، اس کے برعکس کوئی ایک قول بھی مورخین دریافت نہیں کر سکے۔ چنانچہ یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ غنا کو آپ شیطان سے منسوب قرار دیں اور اس بنا پر اسے ناپسندیدہ اور لائق نفرت سمجھیں اور پھر یہی غنا اپنی زوجۂ محترمہ کو سنوائیں یازوجۂ محترمہ کو غنا سنوانے کے بعد آپ اسے باطل اور شیطانی عمل قرار دیں۔ ایسے تضاد فکر و عمل کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں آپ کے دینی اخلاص پر اطمینان اور رسول اللہ کے ساتھ آپ کی محبت پر یقین ہے، مگر غور کیجیے، یہاں آپ سے کیا صادرہوا ہے۔ آپ کی درج بالا تعبیر کو اگر مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمل کی اجازت دی اورمعاً بعد اسی کے خلاف قول صادر فرما دیا۔ معاذ اللہ
ہماری رائے یہ ہے کہ اگر ‘قد نفخ الشیطان فی منخریھا’ کو روایت کا جز قرار دینا ہے اور اس سے وہی مراد لینا ہے جسے ”الاعتصام ”نے بیان کیا ہے توپھر یہ زیادہ بہتر ہے کہ اس روایت کو رد کر دیا جائے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات منسوب نہ ہوجوادنیٰ درجے میں بھی تضاد بیانی کا تاثر دے۔ تاہم، ہمارے نزدیک اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جملے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جو ”الاعتصام ”نے بیان کیا ہے۔ وہ تھوڑا سا تردد کر کے اگر لغت سے رجوع کرلیتے تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ ‘نفخ الشیطان فی منخریہ’یا ‘نفخ الشیطان فی انفہ’ اصل میں بیانیہ جملہ نہیں، بلکہ محاورہ ہے جو بالعموم کسی کے کمال کو بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے اس حد تک تجاوز کیا جس حد تک جانا اس کے لیے مناسب نہ تھا۔
دیکھیے، تاج العروس میں ہے:
نفخ الشیطان فی انفہ: یقال للمتطاول الی ما لیس لہ.(۲؍۲۸۳)
”یہ اس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو اس حد تک پہنچ جائے جو حقیقت میں اس کے لیے نہ ہو۔”
اقرب الموارد میں بیان ہواہے:
نفخ الشیطان فی انفہ: تطاول الی ما لیس لہ.( ۲؍۱۳۲۶)
” شیطان نے اس کے ناک میں پھونک ماری یعنی اس نے اپنے متعلق ایسی بڑھ چڑھ کر باتیں کہیں جو درحقیقت اس میں نہیں تھیں۔”
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ عربی زبان کے استعمالات میں شیطان کا لفظ حرمت یا شناعت کے مفہوم میں صریح نہیں ہے۔ روایتوں میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کو شیطان کی نسبت سے بیان فرمایا ، مگر اس سے آپ کا مقصودانھیں حرام یا شنیع قرار دیناہر گز نہیں تھا۔ بخاری کی روایات، رقم ۳۰۴۶، ۳۰۴۹ میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘التثاؤب من الشیطان’ (جماہی شیطان کی طرف سے ہے)، ‘الحلم من الشیطان’ (خواب شیطان کی طرف سے ہے) ۔ اسی طرح ترمذی، رقم ۱۹۳۵میں ہے: ‘العجلۃ من الشیطان’ (جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے)۔مسلم، رقم ۷۸۹ میں ہے:الکلب الاسود الشیطان ‘(کالا کتا شیطان ہوتا ہے)۔مسلم،رقم ۲۴۹۱ میں آپ کے یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں: ان المرأۃ تقبل صورۃ شیطان و تدبر فی صورۃ شیطان’ (عورت شیطان کی صورت میں آتی اور شیطان کی صورت میں لوٹتی ہے)۔ترمذی ، رقم ۱۵۹۷میں ہے: الراکب شیطان والراکبان شیطانان(ایک سوار ایک شیطان ہے اور دو سوار دو شیطان ہیں)۔ ترمذی ہی کی ایک اور روایت، رقم ۲۶۷۲ میں آپ کے یہ الفاظ درج ہیں: العطاس والنعاس والتثاؤب فی الصلاۃ والحیض والقیء والرعاف من الشیطان (نماز میں چھینک اور جماہی اور حیض، قے اور نکسیر شیطان کی طرف سے ہے)۔
اس ساری بحث کے باوجود ‘نفخ الشیطان فی منخریھا’ کے حوالے سے ہماری رائے یہ ہے کہ یہ جملہ اگر سند کے اعتبار سے اس لائق ہے کہ اسے روایت کا حصہ تصور کیا جائے تو پھر بھی قرین قیاس یہی ہے کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنے کے بارے میں توقف کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی ذوق کے خلاف محسوس ہوتی ہے کہ آپ غنا جیسی چیز کے بارے میں تحسین کا اسلوب اختیار کریں گے جو بہرحال اشتغال بالادنیٰ کے زمرے میں آتی ہے۔