(فاروق احمد)
(نوٹ: کل اشتیاق احمد صاحب کی پہلی برسی ہے، یہ مضمون ایک سال پہلے اشتیاق احمد صاحب کی وفات کے چند روز بعد لکھا گیا تھا۔)
اشتیاق احمد صاحب کی یاد اور محبت میں لکھے جانے والے لاتعداد مضامین، کالموں اور دل کو چھو لینے والی تحریروں کے سیلابِ عظیم کے بیچوں بیچ خس و خاشاک کی مانند بہی جاتی اس بندہ ناچیز کی ان آڑھی ترچھی لکیروں کی کیا وقعت … یہاں تو اشتیاق صاحب کے چاہنے والوں کا ایک جم غفیر ہے جو ایک کے اوپر ایک امڈا جاتا ہے … کون ہے جو ان سے محبت نہیں کرتا … کون ہے جو ان کی شخصیت کا اسیر نہیں … ہے کوئی جو ان کی تحریروں سے محبت نہ کرتا ہو … سب ہی صدقِ دل سے ان کے لیے غم و اندوہ میں ڈوبے ہیں …۔
ادھر اپنی حالت کچھ ایسی ہے جو اپنے تئیں ان سے سب سے زیادہ قربت اور اپنائیت کا پرچم اٹھائے رہا … اردو ادب کے عظیم ترین لیجنڈ اشتیاق احمد کے قدیم ترین قاری ہونے کا دل ہی دل میں دعوے دار رہا … اڑتیس برس پر محیط اس باہمی دوستی پر نازاں رہا … فخر رہا کہ انہوں نے میری ہر ضد کے سامنے ہتھیار ڈالے، اس باپ کی طرح جو اپنے لاڈلے ترین بچے کو چاہنے کے باوجود انکار نہیں کر پایا …. لوگ کہنے لگے تھے کہ تم اشتیاق صاحب سے کہو، وہ تمہارا کہا نہیں ٹالتے … خود ستائی کے الزام کے خدشے کے سبب یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ لوگوں کا کہا سو فیصد درست ہے …اشتیاق بھائی بہت بڑے آدمی تھے جن سے قربت کا دعویٰ بھی جگ ہنسائی سمیٹ لیتا ہے کہ اب وہ کہاں رہے جو کسی دعوے کی تصدیق کریں … بس یوں سمجھئے اس انگشت نمائی سے دامن بچانے کی غرض سے وہ قرض چکائے جو واجب بھی نہیں تھے …۔
میرا ان کا ساتھ ان کی نوجوانی اور میرے بچپن کا تھا … اور آج جب میں ادھیڑ عمری کی دہلیز عبور کرنے چلا ہوں تو وہ وہ ہنوز نوجوان ہی تھے، ان کا قلم جوان تھا … معاف کیجئے کہ میں ان کو حضرت اشتیاق احمد کہنے سے قطعاً معذور ہوں … وہ کل بھی میرے لیے اشتیاق بھائی تھے اور ہمیشہ اشتیاق بھائی ہی رہیں گے … اشتیاق بھائی سے میرا تعلق ان کی کامیابیوں کے دور سے پہلے کا ہے … اس وقت کا جب انہوں نے اپنا صرف گیارہواں ہی ناول لکھا تھا …جب ابھی ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی …جب وہ جگنو کے ایڈیٹر تھے … اس دور کی یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو وقت آنے پر ان کے چاہنے والوں کے لیے سپردِ قلم کروں گا …۔
موت برحق ہے لیکن دل اپنوں کے معاملے میں حق کے اس حق کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا … نومبر 1977 میں اپنے خط کے جواب میں ان کا پہلا خط موصول ہوا اور نومبر 2015 میں وہ فون جس میں یہ اطلاع تھی کہ اب وہ کبھی مجھے فون نہیں کریں گے اور نہ ہی خط لکھیں گے کہ جہاں وہ چلے گئے ہیں وہاں سے نہ ڈاک آتی ہے اور نہ ہیفون جاتا ہے …بہرحال اللہ رب العزت ہر چیز پر قادر ہے …۔
مئی 1980 میں کراچی آئے تومیرے ہی گھر اترے … اس سے پانچ ماہ پہلے میں ان سے ملاقات کی غرض سے لاہور گیا تو ان کے کرشن نگر والے گھر پر ان سے ملا تھا … مئی 1980 کا وہ ایک ہفتہ ان کے ساتھ خوب گزرا … سمندر پر پکنک منائی، وی سی آر پر فلمیں دیکھیں، پرانے گانے سنے، نیوی کے ایک جہاز کے عرشے اور کیبنوں کی سیر کی، کلفٹن گئے، قائد اعظم کا مزار دیکھا … باجی رابعہ مرتضیٰ کے گھر گئے، وہ اپنے بچپن کے دوست سلام اللہ سے بھی ملے … میری ہی طرح ان کے ناولوں کی دیوانی سیما صدیقی سے بھی خود ہی ملنے ان کے گھر جا دھمکے .. سیما صدیقی کا ہکا بکا چہرہ آج بھی یاد ہے۔ پھر اپنے ایک انکل کی ہنڈا ففٹی پر ان کو خوب گھمایا بلکہ ڈرایا کہ نئی نئی سیکھی تھی، میرے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھنے سے پہلے آیۃ الکرسی ضرور پڑھتے تھے۔ ٹریفک پولیس کے سارجنٹ سے بچ کر بھاگے تو پیچھے بیٹھے مجھے چلا چلا کر مشورے دیتے رہے کہ دائیں موڑو، بائیں موڑو، یہاں سے نکال لو … پھر بعد میں گھر پہنچ کر دونوں ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔ اس سے آئندہ برس اپنے والد بزرگوار مشتاق احمد صاحب مرحوم و مغفور کو حج کے لئے سفینئہ عرب پر سوار کروانے آئے اور پھر لینے آئے تو سیر و تفریح اور ہلے گلے کا ایک اور دور گزارا … ان دنوں کی یادگار تصویریں ”میری کہانی- اشاعت 2013“ میں شامل ہیں …۔
میرے ابا کو انکل اور امی کو آنٹی کہتے تھے… میرے بچپن کے دوستوں المعروف شتو اور مانٹو سے بھی گھل مل گئے … پھر ان دونوں کے کرداروں کو بھی تین ناولوں میں پیش کیا … نماز اس وقت بھی نہیں چھٹتی تھی، طبیعت اس وقت بھی دین کی طرف مائل تھی، حالانکہ داڑھی اس کے کئی برس بعد رکھی … صبح چار بجے اٹھ کر لکھنا شروع کر دیتے تھے، نماز کی ادائیگی کا ان کو ہمیشہ عادی دیکھا … انگریزی کے جاسوسی ناولوں کے تراجم نہایت شوق سے پڑھتے تھے … ارل اسٹینلے گارڈنر، جیمز ہیڈلے چیز، اگاتھا کرسٹی، الیئسٹر میکلین، آئن فلیمنگ غرض یہ کہ سب کو پڑھ رکھا تھا … ان سب کے لکھنے کی تکنیک سے واقف تھے … اگاتھا کرسٹی کو خصوصیت سے پسند کرتے تھے … کہتے تھے کہ سراغ رسانی کیا شے ہوتی ہے یہ اگاتھا کرسٹی سے سیکھو…
کراچی آ کر اگر کچھ دیکھنے کی خود خواہش ظاہر کی تو وہ سمندری جہاز تھا … اس وقت تک جیرال کی واپسی والی پانچ ناولوں کی سیریز لکھ چکے تھے … پوچھا کہ کیوں دیکھنا چاہتے ہیں … بولے دل نہیں مانتا کہ بغیر تحقیق کچھ لکھوں … جیرال کو مکتبہ اشتیاق کے اولین خاص نمبر (جس کا نام بعدِ ازاں جیرال کا منصوبہ طے پایا) میں دوبارہ سامنے لانے کا رادہ ہے لہٰذا جیرال آئے گا تو سمندر بھی لامحالہ آئے گا اور سمندر آئے گا تو سمندری جہاز بھی … اس لیے چاہتا ہوں کہ ناول شروع کرنے سے پہلے سمندری جہاز کو اندر سے دیکھ لوں تاکہ جو لکھوں مستند ہو ..یہ اچھے وقتوں کی بات ہے اس لیے یہ کام با آسانی ہوگیا … کراچی کے ایسٹ وہارف پہنچے، کار کی ڈکی چیک کروا کر اندر داخل ہوئے، گودی کے ساتھ کئی جہاز کھڑے تھے … ایک کے نیچے کھڑے ہو کر ہانک لگائی … اوپر سے ایک چہرہ دکھائی دیا … ہم نے کہا اوپر آنا ہے … اس نے کہا کیوں؟ … ہم بولے بس ایسے ہی دیکھنے کا دل ہے … وہ بولا آجاؤ ! … یقین کیجئے اس میں ایک لفظ بھی مبالغہ آرائی نہیں … اب کوئی جا کرتو دکھا دے …۔
جب لاہور جانا ہوتا ان کے کرشن نگر والے گھر میں ٹھہرتا … صبح کا ناشتہ باورچی خانے میں پیڑھی پر بیٹھ کر ہوتا … اشتیاق بھائی کے ساتھ بھابھی آمنہ اور بچے بھی وہیں ساتھ ہی بیٹھے ہوتے … بچے بہت ہی چھوٹے تھے … باتیں اور ناشتہ ساتھ چلتا … اس وقت بھابھی کہا کرتا تھا … 2003 میں جھنگ جانا ہوا … طویل عرصے کے بعد بھابھی سے ملاقات ہوئی … کہنے لگیں ” تجھے دیکھا تھا تو بالکل بچہ تھا، اب تو تیرے بال بھی سفید ہوچلے ہیں۔“
اب اشتیاق بھائی کے انتقال پر جھنگ آکر بھابھی کے پاؤں چھوئے تو زبان سے بھابھی کی جگہ ”ماں جی“ نکلا … پتا نہیں کیوں!… کہنے لگیں تجھ سے تووہ بہت پیار کرتے تھے، اسی لیے آخری پانچ دن بھی تیرے ہی ساتھ گزار گئے … میرے آنسو پلکوں پرآکرٹک گئے، رہا سہا بند اس وقت ڈھے گیا جب چھوٹی عائشہ بول اٹھی:
”وہ آپ کے پاس گئے تھے، آپ انہیں کہاں چھوڑ آئے۔“
۔
ایک شام پہلے ایکسپو کے دوران کسی سے فون پر بات کر رہے تھے، اسٹال بند ہونے میں چند ہی منٹ باقی تھے، ملنے والوں کا رش بھی چھٹ چکا تھا … میں نے ازراہِ تفنن پوچھا کہ جناب اس بار آپ فون پر کچھ زیادہ ہی مصروف ہیں۔ اپنے مخصوص انداز میں ہنسے، پھر بولے … ”او یار جب میں جھنگ سے چلا تھا تو میری سب سے چھوٹی بیٹی عائشہ کی طبیعت خراب تھی، مجھے روک رہی تھی کہ نہ جائیں، بہت لاڈلی ہے، مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے، میں نے کہا کہ جانا ضروری ہے اعلان ہوچکے ہیں؛ اخباروں میں اشتہار لگ چکے ہیں، نہیں جاؤں گا تو قارئین کو مایوسی ہوگی، تو کہنے لگی اچھا تو میرے لیے سوٹ لائیے گا … میں نے وعدہ کر لیا تھا اور یہ دیکھو میں نے اس کے لیے سوٹ لے بھی لیا ہے۔“ اسی لمحے ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک آئے، پھر بولے۔ ” یار یہ دیکھو آج تم نے میری آنکھوں میں آنسو بھی دیکھ لیے … بس اب میرا جی چاہ رہا ہے کہ اڑ کر اپنی بیٹی کے پاس پہنچ جاؤں، اسی سے بات کر رہا تھا فون پر…“
کاش وہ عائشہ سے مل کر ہی چلے جاتے …
کاش زندگی انہیں چند گھنٹوں کی مہلت اور دے لیتی …
لاکھ شکر ہے کہ ہمارا ایمان اس ذاتِ پاک کے رحیم و کریم ہونے پر چٹان کی طرح مضبوط ہے …
ایک بڑے (دروغ گو) کالم نگار کے حرف حرف جھوٹ پر مبنی کالم بعنوان”مولوی صاحب مرچکے ہیں“ کے چھپنے کے بعد حقیقت سے آگاہی کے لیے میں نے غلام رسول زاہد صاحب کے تعاون سے کراچی ایئر پورٹ اے ایس ایف چیف کے دفتر میں بیٹھ کر تین گھنٹے کی وہ سی سی ٹی وی کیمروں کی تین گھنٹے کی فوٹیج دیکھی جو ان کے ایئرپورٹ میں داخلے کے وقت سے ان کے جسدِ خاکی کے ایمبولینس میں روانہ ہونے تک کے لمحہ بہ لمحہ مناظر کا احاطہ کیے ہوئے تھی … اس سے جہاں ایک طرف یہ واضح ہوا کہ ان کے ساتھ ایئرپورٹ پر کسی قسم کی لاپروائی نہیں برتی گئی اور انہیں بھرپور اور ہر ممکن طبی امداد دی گئی وہاں یہ بھی نظر آیا کہ انتقال سے چند منٹ پہلے تک وہ بظاہر بالکل ہشاش بشاش تھے … بارہ بجے وضو کرنے کے بعد ساڑھے بارہ کے قریب انہوں نے نمازِ ظہر ادا کی … واپس آ کر اپنی نشست پر بیٹھے، اس کے بعد مجھ سے موبائل فون پر پندرہ بیس منٹ بات کرتے رہے … اس دوران کچھ ایسی باتیں بھی کیں جو زندگی میں کبھی نہ کیں … انداز کچھ نصیحت اور کچھ وصیت والا تھا … اس وقت یہ احساس نہ ہوا، بعد میں سوچا تو آنکھیں کھلیں … ان میں کچھ ہدایات جیسی باتیں بھی تھیں جو میرے ساتھ ہی قبر میں جائیں گی، اور جن پر عمل کرنے کی میں بھرپور کوشش کروں گا۔ اس کے بعد کہنے لگے اچھا اب جہاز میں بیٹھ کر فون کرتا ہوں شاید بورڈنگ شروع ہونے والی ہے۔ اس کے بعد فوٹیج میں ان کو واسکٹ کی جیبوں میں اور ہینڈ بیگ میں کچھ تلاش کرتے دیکھا گیا … پھر اندازہ ہوا کہ ان کا بورڈنگ کارڈ کہیں گم ہوگیا تھا، اس کی تصدیق ایئر لائن اسٹاف سے بھی ہوئی کہ انہوں نے پہلے ادھر ادھر بورڈنگ کارڈ تلاش کیا، جائے نماز کی طرف بھی گئے اور بالآخر ایرلائن کی ایک لیڈی اسٹاف نے ان کے لیے دوسرا بورڈنگ کارڈ منگوانے کے لئے وائرلیس پر پیغام بھیجا … پھر وہ صوفے پر جا کر بیٹھ گئے اور وہیں ان کی طبیعت خراب ہونے لگی … فوراً ہی ڈیوٹی ڈاکٹر کو طلب کیا گیا … ڈاکٹر کے پاس اسٹیتھواسکوپ کے علاوہ، آکسیجن اور دل میں لگانے والے انجکشن کا انتظام بھی تھا۔ لیکن وقت آ چکا تھا … شاید بورڈنگ کارڈ کے گم ہوجانے سے اچانک جو پریشانی ہوئی وہی دل پر بوجھ ڈال گئی اور وجہ بنی …اڑتیس برس کی رفاقت یوں لمحوں میں صدیوں پر محیط ہوگئی۔
گر کہیں سفرِ آخرت بھی بورڈنگ کارڈ کے بنا ممکن نہ ہوتا تو ہم خود ہی ان کا بورڈنگ کارڈ کہیں گم کر دیتے …
آخر میں بس ایک بات کہوں گا کہ جہاں پہنچنی ہے خود ہی پہنچ جائے گی … وہ یہ کہ کہنے کو میں اشتیاق بھائی کے ناولوں کا پبلشر ضرور ہوں اور اگر میری زندگی میں اگر میں نے کچھ حاصل کیا ہے تو اس میں سے یہ ایک اعزاز میرے لیے بہت اہم ہے … ان سے میرا دل کا رشتہ تھا اور آج بھی ہے … وہ میرے لئے کیا تھے اور میں ان کے لئے کیا اس کو نہ تو مجھے ثابت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اس کے لیے کسی دکھاوے اور محبت کے اظہاریئے کی، نہ الفاظ کی اور نہ ہی کسی سند کی … نہ ہی میرا کوئی معاشی مفاد کبھی پبلشنگ سے وابستہ رہا ہے … ناولوں کی اشاعت بھی میرے دل کا فیصلہ تھا دماغ کا نہیں اور میں آج بھی اپنے دل کے اس فیصلے کا سب سے بڑا حامی ہوں …کیونکہ مجھے اشتیاق احمد سے محبت تھی، انسپکٹر جمشید، محمود، فاروق، فرزانہ، انسپکٹر کامران مرزا، آصف، آفتاب، فرحت، خان رحمان، پروفیسر داؤد، منور علی خان اور شوکی برادرز سے محبت تھی اور آج بھی ہے۔