( الیاس کبیر)
ملتان کی شعری روایت میں بہت سی ایسی لفظ گر اور لفظ شناس شخصیات گزری ہیں جنھوں نے اپنی عمر کا معتدبہ حصہ علم و دانش کے فروغ میں صرف کیا۔ کسی صلہ وستائش کی تمنا کیے بغیر ! اصغر علی شاہ صاحب کا شمار ایسے ہی روشن دماغ لوگوں میں سے ہوتا تھا۔ وہ ایک نفیس طبع انسان تھے۔ بذلہ سنجی، وضع داری ، سنجیدگی اور متانت کو اگر کوئی نام دیا جاسکتا ہے تو شاہ صاحب اس پر پورے اترتے ہیں۔ وہ بلاشبہ کلاسیکی مزاج کے جدید آدمی تھے۔ وہی کلاسیکی اٹھان، وہی عاجزانہ طرزِ حیات، وہی گفتار میں پاکیزگی، وہی شگفتہ طبعی جو آج خال خال ہی نظر آتی ہے۔
کلاسیکی روایت میں یک فن ہونا عیب تھا ، اسی لیے میر جیسے شاعر نے بھی غزل کے علاوہ ، دوسری اصناف سخن ،مرثیہ ،شہر آشوب ، مثنوی وغیرہ میں بھی طبع آازمائی کی۔شاہ صاحب اسی روایت کے مقلد تھے ،انھوں نے بھی نظم، غزل، قصیدہ، مرثیہ، سلام، منقبت اور دیگر اصناف میں جم کر لکھا ۔ شاعری اور علم عروض شاہ صاحب کی طبعِ رسا کے لیے نہایت موزوں تھے۔ اس شوق نے انھیں دیگر زبانیں سیکھنے کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے اردو، انگریزی، عربی، فارسی، ہندی، ہریانوی، گورمکھی، پنجابی، سرائیکی اورسنسکرت کا بغور مطالعہ کیا۔ اور ان زبانوں کے اسرار و رموز سیکھے۔ انھیں نہ صرف ان زبانوں میں کمال حاصل تھابلکہ شاہ صاحب کی شاعری میں ان علوم کے نقوش دکھائی دیتے ہیں۔
ملتان میں جب بھی کسی کوہندی یا سنسکرت کے حوالے سے کسی چیز کی دریافت ہوتی؛ کسی لفظ کے معنی درکار ہوتے؛ کسی متن کی تفہیم کامسئلہ ہوتا، ایسے اور اس قبیل کی دیگر مشکلات میں شاہ صاحب ’مشکل کشائی‘ کا فریضہ بخوبی نبھاتے۔پاکستان میں سنسکرت فہمی کے حوالے سے دیکھا جائے تو شاہ صاحب کا شمار اُن معدودے چندافراد میں تھا جنھیں اس زبان پر کسی حد تک دسترس حاصل تھی۔ شاہ صاحب کا شاعری اور نثر کے علاوہ نمایاں ترین کام ’’سندیس راسک‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔اس سنسکرت نظم کو گیارہویں صدی کے ملتان کے اہم شاعر عبدالرحمن ملتانی نے لکھا تھا۔شاہ صاحب نے ہندی متن کو سامنے رکھ کر اس کا اردو ترجمہ کیا۔ اس تبحر علمی کے باوجود شاہ صاحب کے مزاج اور مذاق میں کبھی تکبر نہیں دیکھا گیا، اور نہ ہی وہ کبھی خبطِ عظمت کا شکار ہوئے۔اُن کے نحیف و نزار پیکر جُثے میں کوہِ ہمالیہ ایستادہ تھا۔ اُ ن سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں، انھیں مختلف ادبی تقریبات میں دیکھا ،مشاعرہ پڑھتے دیکھا، مذاکروں میں دیکھا، ہر جگہ انھیں اپنی ہی وضع کا انسان پایا۔انھوں نے کبھی اپنے آپ کو نمایاں نہیں کیا ۔تقریبات میں انھیں جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتے۔ وہ خود پسندی سے کوسوں دور رہے۔وہ عجز و انکسار کے خمیر میں گندھے ہوئے ایسے انسان تھے جن کے وجود سے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔ انھوں نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی، اور نہ ہی کسی کے بارے میں اپنے سینے میں بغض وعناد پالا۔اُنھوں نے شاید حیاتِ مستعار کے راز کو پالیا تھا۔ کبیر داس نے کہا تھا:
جب ہم جگ میں پگ دھرو، سب ہسے ہم روئے
کبیرا ! اب ایسی کرچلو پاچھے ہسی نہ ہوئے
شاہ صاحب کبھی خبطِ عظمت کا شکار نہیں ہوئے۔ اور نہ ہی اپنے انھوں نے گرد ایسا کوئی حصار قائم کیا تھا۔ وہ تو روشنی کا ایک ایسا ہالہ تھے جس سے بہت سو ں نے اپنے قلوب و اذہان کو منور کیا۔ اُن کا یہ شعر خود اُن پر منطبق ہوتا ہے:
اُن کو دیکھا تو یہ اعجاز کھلا ہے ہم پر
روشنی دھار لیا کرتی ہے خاکی صورت
اصغر علی شاہ ۲۵ ؍ فرور ی۱۹۳۳ء کوضلع انبالہ کے موضع چڑیالہ میں پیدا ہوئے۔وہ تقسیم سے قبل ہی اپنی والدہ کی ہمراہی میں ملتان آگئے اور پھر تمام عمر ملتان کی مٹی سے جڑے رہے۔ شاہ صاحب کے اُستاد منظور احمد صاحب نے اُنھیں عربی ادب کا گرویدہ بنادیا۔عربی کی محبت انھیں کشا ں کشاں لاہور لے گئی جہاں انھوں نے ۱۹۵۶ء میں اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا۔اسی دوران میں انھوں نے نصابی کتب کے علاوہ کلاسیکی اور جدید عربی زبان و ادب کی بہت سے متون پڑھ ڈالے۔ معاشی مسائل کے ہاتھوں مجبور ہوکر شاہ صاحب نے اے جی آفس میں ملازمت بھی کی۔شاہ صاحب نے اپنے آپ کو صرف یہیں تک محدود نہیں کیا۔ اُن پر علم و دانش کے مزید در واہوتے چلے گئے۔ اپنی مادرِ علمی سے ایم اے اسلامیات کرنے کا خیال آیا تو وہ اس میں جت گئے۔ صبح چھ سے آٹھ بجے کلاسز پڑھتے اور اس کے بعد دفتر ی امور سرانجام دیتے۔اُن کی زندگی میں ۱۹۵۸ء کا سال بڑی اہمیت کا حامل ہے جب گورنمنٹ کالج میانوالی میں بطور عربی لیکچرار اُن کی تعیناتی ہوئی۔میانوالی اور لیہ کے کالجوں میں رہنے کے بعد اُن کا تبادلہ ۱۹۵۹ء میں گورنمنٹ کالج منٹگمری (ساہیوال) ہوگیا۔ اس کالج میں انھوں نے گیارہ سال سے زائد کا عرصہ گزارا۔۱۹۶۹ء میں شاہ صاحب کا تبادلہ گورنمنٹ کالج ملتان ہوا۔ اسی دوران تدریسِ عربی کے حوالے سے پاکستان اور سعودی عرب کے تحت کیے گئے معاہدے میں انھیں سعودی عرب جانا پڑا۔ جہاں انھوں نے تدریس عربی برائے غیر عرب ناطقین کا کورس مکمل کیا۔ گورنمنٹ کالج ملتان میں چوبیس سال تک تدریسی فرائض ادا کرنے کے بعد ۱۹۹۳ء میں اُن کا تبادلہ بطور پرنسپل گورنمنٹ کالج خانیوال ہوگیا۔ جہاں سے انھوں نے ریٹائرمنٹ لی۔ اس کے بعدشعبۂ عربی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے شاہ صاحب کے علم وفضل کو طلبہ میں منتقل کرنے کے لیے اُن کی خدمات حاصل کیں۔ یہاں انھوں نے طالب علموں کو نہ صرف عربی ادب سے آشنا کیا بلکہ دیگر زبانوں کے حوالے سے بھی اُن کی رہنمائی کی۔
شاہ صاحب کی تصنیفات کے حوالے سے دیکھا جائے تو اُن کی بہت کم کتب منظر عام پر آسکیں۔ دو شعری مجموعے اور ایک مضامین کا مجموعہ منظر عام پر آیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے کتب شایع کرانے کے حوالے سے کبھی کوئی خاص اہتمام نہیں کیا۔وہ گوشۂ گمنامی میں رہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔اُن کا پہلا مجموعۂ کلام’’ محمد:پیامبرِ فجر‘‘ کے نام سے خانۂ فرہنگ ایران (ملتان) نے جنوری ۱۹۸۵ء میں شایع کیا۔ نثری مجموعہ ’’سنجیدہ مقالات‘‘ کے عنوان سے بزمِ ثقافت پبلک لائبریری باغ لانگے خاں ملتان نے اپریل ۲۰۰۷ء میں شایع کیا۔ اس کتاب میں علم الاصوات ، علم العروض، الف لیلہ و لیلہ اور قصیدے کے حوالے سے مضامین شامل ہیں۔۲۰۰۸ء میں ان کا ایک اور شعری مجموعہ ’’عشق، جب دوسراپھیرا ہوگا‘‘کے عنوان سے شعبۂ اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اہتمام سے شایع ہوا۔ اس مجموعے کا نام اُن کے مندرجہ ذیل شعر سے لیا گیا:
اس جنم میں تو فراغت نہ ملی
عشق، جب دوسرا پھیرا ہوگا
حال ہی میں سید ظفر عباس نقوی اور عنیزہ برجیس(صاحب زادی اصغر علی شاہ) نے شاہ صاحب کا کلیات نہایت سلیقے سے مرتب کیا ہے۔اس حوالے سے ظفر عباس نقوی کا اختصاص یہ بھی ہے کہ انھوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے شاہ صاحب کی شاعری کے حوالے سے ایم افل اردو کا مقالہ بھی لکھا ہے۔ شاہ صاحب کا کلیات گزشتہ دنوں پیلوں پبلی کیشنز ملتان نے شعبۂ اردو بہا ء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اشتراک سے شایع کرکے عہدِ حاضر کے اس نابغہ کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
شاہ صاحب سیدھے سبھاؤ انداز میں زندگی گزارنے کے بعد۲۰؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو عالم فنا سے عالم بقاکو سدھار گئے۔ میر نے کہا تھا:
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو