اعجاز حسین حضروی کی ہارمونیم نوازی اور سنگت

مصنف: پروفیسر شہباز علی

(پروفیسرشہباز علی)

اعجاز حسین حضروی صاحب سے مَیں ۱۹۷۵ء میں متعارف ہوا۔ اس تعارف کا سبب ہمارے گھر پر منعقدہ ایک محفلِ موسیقی تھی جس کا اہتمام میرے والد قاضی محمد انور قریشی (ریٹائرڈ ڈپٹی پوسٹ ماسٹر) صاحب نے میرے بڑے بھائی شہزاد محمود کو ملازمت ملنے کی خوشی میں کیا تھا۔ اعجاز صاحب میرے والد صاحب کے دوستوں میں سے تھے اور اکثر انھیں ان کے دفتر میں اور گھر پر ملنے آیا کرتے تھے۔ اس محفل میں اعجاز صاحب خاص طور پر مدعو کییگئے تھے۔ میں نے اس محفل میں پہلی بار ان کا گانا سُنا۔ انھوں نے کچھ گیت اور غزلیں سنائیں اور بہت داد سمیٹی۔ اس ضمن میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ میرے والد صاحب کے اکثر دوست ’’کن رس‘‘ تھے اور موسیقی سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ ان میں بطور خاص رحمان بخش عرف ماسٹر اِبّو بڑے شوق سے ہمارے ہاں موسیقی کی محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ وہ تھیٹریکل انداز کا ہارمونیم بجاتے تھے اور برصغیر کے نام ور موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی ہارمونیم نوازی کے رسیا تھے۔ اس محفل میں انھوں نے بھی اپنی ہارمونیم نوازی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اگر یہاں میں یہ ذکر نہ کروں تو نا انصافی ہو گی کہ hqdefault-1انھوں نے مجھے بچپن میں  بہت inspireکیا اور میرے شوق کو جلا بخشی۔
اس تعارف کے بعد اعجاز صاحب مجھے کبھی کبھار کالج روڈ پر مل جایا کرتے تھے اور بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ وہ میرے والد صاحب اور تمام اہلِ خانہ کا حال فرداً فرداً پوچھا کرتے تھے۔ انھیں میرے موسیقی سے شغف کا علم تھا ۔ ایک رو زمیں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں ریاض کرتے ہیں۔۔۔ انھوں نے جواب دیا کہ راجا بازار کے تاج ہوٹل میں میرا کمرا ہے، میں وہیں ریاض کرتا ہوں۔۔۔ میں نے ان سے دوبارہ پوچھا کیا میں آپ کا گانا سُننے آپ کی بیٹھک میں آسکتا ہوں؟۔۔۔ انھوں نے جواب میں کہا! ہاں بیٹا شوق سے آؤ۔

تاج ہوٹل کی یہ بیٹھک اعجاز صاحب کی زندگی کا مرکز و محور تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت اسی بیٹھک میں گزارا۔ وہ شام ڈھلتے ہی اس بیٹھک میں آجاتے۔ یہاں وہ مختلف راگوں کے الاپ، ان کی تانوں اور پلٹوں کا گھنٹوں ریاض کرتے تھے۔ میں بھی کبھی کبھی ان کا گانا سُننے ان کی بیٹھک میں جایا کرتا تھا۔ اس بیٹھک میں راول پنڈی کے بہت سے شوقیہ فن کار اور ان کے شاگردان کا گانا سننے آتے تھے اور موقع ملنے پر خود بھی گاتے تھے۔ ان کی بیٹھک پنڈی کے فن کاروں کا مسکن تھی۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پنڈی کے چھوٹے بڑے تمام فن کاران کا دل و جان سے احترام کرتے تھے اور ان کے فن کے مداح تھے۔ میں بھی ان کی غزل گائکی کے اچھوتے انداز اور ان کی ہارمونیم نوازی کا شیدائی تھا اور سوچا کرتا تھا کہ کاش میرے گانے اور ہارمونیم بجانے میں بھی اتنی مہارت، چاشنی اور پختگی پیدا ہو جائے لیکن اُس وقت میں یہ نہ جانتا تھا کہ اس مقام تک پہنچنا بہت کٹھن ہے اور اس کے لیے اک عمر کی ریاضت در کار ہے۔

۱۹۸۱ء میں راول پنڈی کی کسی مقامی ثقافتی تنظیم نے فن کاروں کو ایوارڈز دینے کے لیے مرحبا ہوٹل صدر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں‘ مَیں بھی مدعو تھا اور مجھے بھی کچھ گانا تھا۔ اتفاق سے اُس وقت اُس محفل میں جتنے بھی فن کار موجود تھے اُن میں سے کسی کے پاس ہارمونیم نہ تھا۔ جب مجھے سٹیج پر گانے کے لیے بلایا گیا تو میں نے اعجاز صاحب سے ان کا ہارمونیم مانگا۔ انھوں نے فوراً کہا! بیٹا ضرور، کیوں نہیں۔۔۔ آپ میرے ہارمونیم پر گاسکتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے کسی شاگرد کو کہا کہ جاؤ گاڑی میں سے ہارمونیم لے آؤ۔ میں ان کے اس محبت آمیز رویہ سے بے حد خوش ہوا کیونکہ میں نے سُن رکھا تھا کہ وہ اپنے ہارمونیم پر کسی شوقیہ فن کار کو نہیں گانے دیتے۔ مجھے آج بھی ان کی یہ شفقت اور ہمدردی یاد ہے۔ راول پنڈی کے چیدہ چیدہ فن کاروں کو اِیوارڈز دینے کے بعد آخر میں اعجاز صاحب کو ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے بعد محفل موسیقی کا آغاز ہوا۔ اس محفل میں ریڈیو راول پنڈی کے شعبۂ موسیقی کے پروڈیوسر اظہر مجید بھی شریک تھے۔ انھوں نے مجھے سننے کے بعد ریڈیو پر آڈیشن کے لیے بُلایا۔ میں جب آڈیشن دینے ریڈیو اسٹیشن پہنچا تو وہاں اعجاز صاحب بھی موجود تھے، انھوں نے اظہر مجید سے میرے گانے کی تعریف کی اور ریڈیو کے گلوکاروں کی فہرست میں شامل کرنے کو کہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا میرے متعلق اس طرح اظہار کرنا میرے ساتھ ان کے پیار اور خلوص کا مظہر تھا ورنہ من آنم کہ من دانم۔

اس کے بعد ریڈیو اسٹیشن پر اکثر اعجاز صاحب سے ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔ وہاں انھیں سُننے اور ان کی گفتگو سے محظوظ ہونے کا موقع ملتا، ان کے فنی تجربات سے بہت کچھ حاصل ہوتا۔ کئی دفعہ ریڈیو پروگرام ترتیب دینے والے ان کے گانے کے بعد میرا گانا رکھ دیتے تھے لیکن انھوں نے کبھی ناراضی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ حالانکہ میرے خیال میں ریڈیو والوں کا ایسا کرنا سرا سر غلط تھا کیونکہ اتنیسینیرفن کار کے بعد کسی نئے سنگر کا گانا شیڈول میں رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔

اعجاز صاحب اکثر صرافہ بازار، بوہڑ بازار اور کالج روڈ پر پیدل چلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں چھتری ہوا کرتی تھی جسے وہ بارش یا دھوپ سے بچنے کے لیے اپنے ساتھ رکھتے تھے، دوسرے یہ چھتری چھڑی کا کام بھی دیتی تھی۔ گرمیوں میں وہ شلوار قمیص زیب تن کرتے تھے اور سردیوں میں شیروانی پہنا کرتے تھے۔ وہ گندمی رنگت اور لمبے قد کے وجیہہ شکل انسان تھے۔ پیدل چلتے وقت ایک عمر رسیدہ بزرگ اکثر ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان کا صحیح نام تو مجھے معلوم نہیں البتہ عرفِ عام میں انھیں ’’چاچا کرما‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ عموماً اعجاز صاحب کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے۔ پیچھے چلنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ بزرگی کے باعث وہ تیز چلنے سے معذور تھے اور دوسری وجہ حدِ ادب تھی۔ وہ پرانے انداز کے طبلہ نواز تھے اور اکثر ریاضت کے دوران اعجاز صاحب کے ساتھ طبلے پر سنگت کیا کرتے تھے۔ وہ اعجاز صاحب کے رشتہ دار بھی تھے۔ اعجاز صاحب محفلوں میں ان کے ساتھ مذاق بھی کیا کرتے تھے اور کبھی کبھار جگت بھی لگا دیا کرتے تھے۔ یہ سب ان کے چاچا کرما کے ساتھ پیار کا اظہار تھا۔ اس سلسلے میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اعجاز صاحب چاچا کرما کے کھانے پینے، لباس اور جیب خرچ کا ممکن حد تک خیال رکھتے تھے۔

yt_thumbوضع داری اعجاز صاحب کی شخصیت کا ایک خاص وصف تھی۔ یہ وضع داری لباس اور گفتگو ہر دو صورتوں میں جھلکتی تھی۔ میں نے انھیں جب بھی دیکھا وہ صاف ستھرے اور خوب صورت لباس میں ملبوس دکھائی دیے۔ وہ گفتگو کے دوران بھی محتاط رہتے تھے۔ مجھے ان کی گفتگو میں کبھی بھی پھکڑ پن اور ابتذال سُننے کو نہ ملا۔ یہ بات بھی ان کی وضع داری کا حصہ تھی کہ انھوں نے ثقافتی اور نشریاتی اداروں کے ارباب حل و عقد سے اپنے پروگرام یا ان کا معاوضہ بڑھانے کی درخواست نہ کی تھی۔ انھوں نے کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا تھا بلکہ انھیں جو کچھ بھی ملتا وہ صبر او رشکر کے ساتھ اسی پر گزارا کرتے تھے۔ ارباب اختیار کی کم توجہی اور زمانے کی ناقدری کے باوجود انھوں نے موسیقی کو اپنے سینے سے لگائے رکھا اور ساری زندگی اپنے خونِ جگر سے اس کی آبیاری کرتے رہے بقول مرزاغالب:
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

اعجاز صاحب کو اردو شعر و ادب سے بہت لگاؤ تھا اور وہ خود بھی شاعر تھے۔ شعر و ادب سے دل چسپی کے باعث ان کا اُردو تلفظ مثالی تھا۔ عموماً ہمارے فن کاروں کا کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث اُردو تلفظ درست نہیں ہوتا اور گانے کے دوران ان سے تلفظ کی بہت سی غلطیاں سر زد ہوتی ہیں۔ اس کے بر عکس اعجاز صاحب کی طرزِ ادا اور تلفظ بہت معیاری تھا۔ وہ گاتے ہوئے صحتِ لفظی کا خیال رکھتے تھے۔ اعجاز صاحب نے ۱۳ ؍جولائی ۱۹۷۷ء کو حضرت شاہ چن چراغ کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک منقبت کہی تھی جو مسدس کی ہیئت میں تھی۔ اُس کے دو بند ملاحظہ ہوں:

چراغِ مصطفوی پرتو جمال ہے تُو
علی کا لختِ جگر سیّدہ کا لال ہے تُو
جسے ہے قُرب یداللہ وہ ہلال ہے تُو
جہاں میں سب کے لیے اپنی خود مثال ہے تُو
بجھے ہوئے تھے جو مدت سے دل کے داغ جلے
ترے طفیل زمانے کے سب چراغ جلے
ترے حضور جو پہنچا وہ فیض یاب ہوا
تری نگاہ سے دنیا میں لا جواب ہوا
ترے ہی لطف سے ذرہ بھی آفتاب ہوا
جہان میں ترا اعجاز کامیاب ہوا
دلِ امیر ملا، ہاشمی دماغ تجھے
لقب خدا سے ملا شاہِ چن چراغ تجھے

یہ منقبت حضرت شاہ چن چراغ کی قبر کے اوپر دیوار پر آویزاں ہے اور اس کے آخر میں لکھا ہے پیش کردہ سگِ درِ شاہِ چن چراغ اعجاز حسین حضروی۔

اعجاز صاحب غزل گائکی کے علاوہ ہارمونیم نوازی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ ہارمونیم پر راگ کے بول، ٹھمری اور گیت اس قدر خوب صورتی سے بجاتے کہ سامعین ان کے انداز میں کھو جاتے تھے۔ راول پنڈی ریڈیو  پر ان کے Soloہارمونیم کی کچھ ریکارڈنگ موجود ہے۔ ریڈیو کے ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ریکارڈنگ کو نہ صرف محفوظ رکھیں بلکہ وقتاً فوقتاً اسے نشر بھی کیا کریں۔ ریڈیو کے لیے ان کی ہارمونیم پر بجائی گوجری ٹوڑی‘ راگ بھیروں‘ راگ مالکونس اور راگ پیلو میں سُن چکا ہوں، یہ راگ انھوں نے اس درجہ مہارت اور تیاری سے بجائے ہیں کہ بایدوشاید۔۔۔ ہارمونیم نوازی میں ان کے انداز کی نظیر پیش کرنا محال ہے بقول شاعر:

کیا پابندِ نَے نالے کو میں نے

یہ طرزِ خاص ہے ایجاد میری

اعجاز صاحب کی زندگی کا ایک المیہ یہ تھا کہ انھوں نے ساری زندگی بھابڑا بازار کی تنگ وتاریک گلی کے ایک کرائے کے مکان میں گزار دی۔ میری ان سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ مجھے اپنے لیے ایک اچھے سے مکان کی تلاش کے لیے کہتے۔ مکان کے سلسلے میں وہ ایک بات خاص طور پر کہا کرتے تھے کہ مکان ایسا ہونا چاہئے جس میں مجھے ریاضت کے لیے کوئی دقت محسوس نہ ہو۔ لیکن افسوس کہ میں ان کے لیے کوئی مکان تلاش نہ کر سکا۔
ہمارے ثقافتی اداروں کے سربراہوں کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ اتنے نایاب موسیقار کو کسی بہتر جگہ پر ایک اچھے مکان کی ضرورت ہے جہاں وہ ریاضت کر سکے اور گھر آنے والے مہمانوں کو بٹھا سکے، ان کی خاطر مدارات کر سکے، انھیں اپنے فن سے محظوظ کر سکے۔۔۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد مکان کے سلسلے میں جب ان کی بے بسی یاد آتی ہے تو کلیجہ مسوس کر رہ جاتا ہے۔

اعجاز صاحب کا تعلق حضرو کے موسیقی دان خاندان سے تھا۔ وہ ۱۹۲۹ء کو حضرو میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد اُستادنبی بخش، اپنے بڑے بھائی اُستاداللہ بخش حضروی اور اپنے پھوپھی زاد بھائی عنایت حسین حضروی (سارنگی نواز) سے حاصل کی۔ اعجاز صاحب کے اپنے بیان کے مطابق انھوں نے اُستاد عاشق علی خاں پٹیالہ والے اور اُستاد بڑے غلام علی خاں صاحب سے بھی اکتسابِ فن کیا۔

ریڈیوپاکستان کے لیے اعجاز صاحب کی گائی ہوئی بہت سی غزلیں اور گیت مشہور ہوئے، ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا جانا ضروری ہے۔ ان کی گائی ہوئی مرزا غالبؔ کی یہ غزل بہت مشہور ہوئی:
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

بھیرویں میں مرزا غالب کی یہ غزل بھی بہت مقبول ہوئی:

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تیری شہرت ہی سہی

پیلو میں گائی ہوئی مومن خاں مومن کی یہ غزل بھی ان کی مقبول غزلوں میں سے ہے۔:

اثر اُس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

آہیری ٹوڑی ‘‘میں گائی ہوئی ناصر کاظمی کی یہ غزل بھی انھوں نے بہت خوب گائی:

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

ان کا ایک پوٹھوہاری گیت بھی بہت مشہور ہوا جس کے بول
ہیں:
اُڈ چل کالیا کانواں
وے لکھیں مینڈھے ماہی ناں نانواں
وے ڈھول سپاہی ناں نانواں

غزل گائیکی کے حوالے سے اعجاز صاحب کا شمار صاحب طرز گانے والوں میں ہوتا تھا۔ وہ اپنی غزلوں کی دھنیں راگوں میں ترتیب دیتے تھے۔ ان کے گانے میں آوارگی نہیں تھی اور ان کا گانا شدھ تھا۔ غزل کے علاوہ انھیں موسیقی کی مروجہ اصناف مثلاً خیال، ٹھمری، کجری، ٹپّااور کافی پر بھی عبور حاصل تھا۔ ابتدائی ایام میں وہ سُر منڈل پر گایا کرتے تھے۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے جیسا سُر منڈل چھیڑنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
اعجاز صاحب کے شاگردوں کی تعداد بہت محدود ہے۔ راول پنڈی کے شوقیہ گانے والوں میں شیخ مقصود الٰہی اور لالہ ظفر جبکہ لاہور میں مشہور فلمی موسیقار اور طبلہ نواز الطاف حسین عرف طافو کے بھائی نثار حسین عرف بگ اور فلم سنگر رجب علی ان کے شاگرد ہیں۔

راول پنڈی کی مشہور کاروباری، سیاسی اور سماجی شخصیت یوسف بٹ صاحب سے اعجاز صاحب کی بہت گہری دوستی تھی۔ اعجاز صاحب کا معمول تھا کہ وہ تقریباً ہر روز شام کو بٹ صاحب کی دکان لاہور ٹینٹ سروس پر حاضری دیتے اور ان سے بے تکلف گپ شپ کرتے تھے۔
یوسف بٹ صاحب نے اعجاز صاحب کی گلو کاری کے ابتدائی زمانے میں انھیں لاہور میں مستقل طور پر سکونت اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ لاہور میں ایک تو آپ کو فن موسیقی کے سچے قدر دان ملیں گے اور دوسرا یہ شہر فنِ موسیقی کے لیے ساز گار اور موزوں ہے اور اس طرح آپ کے لیے شہرت کا حصول آسان ہو جائے گا۔ اعجاز صاحب نے بٹ صاحب کو یہ کہہ کر لاہور جانے سے انکار کر دیا تھا کہ اگر آپ بھی میرے ساتھ چلیں تو میں جانے کے لیے تیار ہوں ورنہ پنڈی ہی ٹھیک ہے۔۔۔ بٹ صاحب نے جواباً کہا کہ اعجاز صاحب میں آپ کو لاہور میں مکان دلا دوں گا اور مجھے جب بھی فُرصت ملے گی آپ سے ملنے آجایا کروں گا، مگر اعجاز صاحب نے بٹ صاحب کی یہ پیش کش بھی مستر دکر دی اور تمام عمر پنڈی میں ہی مقیم رہے۔ واقعتا اعجاز صاحب کو اس فیصلے کا بہت نقصان ہوا۔ ان کی شہرت صرف خواص تک محدود رہی اور پاکستان سے باہر ان کا نام نہ پہنچ سکا۔

یہ غالباً ۱۹۸۶ء کا ذکر ہے کہ اعجاز صاحب کو بٹ صاحب کی معیت میں برطانیہ کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ یہ دورہ تقریباً تین ماہ پر مشتمل تھا مگر اعجاز صاحب ڈیڑھ ماہ بعد ہی واپس آگئے۔ ایک روز میں نے اُن سے پوچھا کہ اعجاز صاحب آپ اتنی جلدی کیوں واپس آگئے، آپ کو تو وہاں رہنا چاہیے تھا، موسیقی کی محفلوں میں اپنا فن پیش کرنا چاہئے تھا۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ وہاں سردی بہت تھی اور میں اتنے سرد موسم میں رہنے کا عادی نہ تھا اور دوسرے لندن میں جب مجھے ڈھوک کھبا راول پنڈی میں گیارہ افراد کے سفاکانہ قتل کی خبر ملی تو میں بے چین ہو گیا اور اس صدمے کے باعث اپنا دورہ مختصر کر کے واپس آگیا۔

مجھے ان کی یہ بات سُن کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔۔۔حیرت اس بات پر کہ انھوں نے اپنا مالی نقصان کیا، لندن میں طے شُدہ بہت سے پروگرام چھوڑے اور خوشی اس بات پر کہ ان کے دل میں انسان کے دُکھ کو محسوس کرنے کی حِس موجود تھی جو صرف ایک سچے فن کار کے اندر ہی ہو سکتی ہے بقول شاعر:

شاید کسی کے دل کو لگی اُس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیشۂ دل چُور ہو گیا

اعجاز صاحب کے بھتیجے نوازش علی حضروی کے بیان کے مطابق بھارت کے مشہور موسیقار مدن موہن اُن کے والد اُستاداللہ بخش حضروی کے شاگرد تھے اور راول پنڈی کے رہنے والے تھے۔ راول پنڈی میں ان کا آبائی مکان بھابڑا بازار میں واقع تھا۔ اُستاد اللہ بخش حضروی گلوکاری اور ہارمونیم نوازی میں ایک انفرادی حیثیت کے مالک تھے اور یہ اسی اُستاد کا فیض تھا جس کے باعث اعجاز صاحب اور مدن موہن نے موسیقی کے اُفق پر درخشاں نقوش چھوڑے اور لافانی مقام حاصل کیا۔

جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اعجاز صاحب سولو ہارمونیم نوازی میں بھی بہت کمال رکھتے تھے۔ ان کی فنی صلاحیتوں کا یہ پہلو موسیقی کے بہت سے شائقین سے پوشیدہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل گائکی کی طرف مائل ہونے کے بعد انھوں نے ہارمونیم نوازی اگرچہ ترک نہیں کی تھی البتہ کم ضرور کر دی تھی۔ اس کی دوسری وجہ میرے نزدیک یہ تھی کہ وہ عوام الناس کے سامنے ہارمونیم نوازی سے گریز کرتے تھے۔ وہ موسیقی کے صرف خاص شائقین کے سامنے وہ بھی کسی کے بے حد اصرار پر سولو ہارمونیم بجاتے تھے۔

اعجاز صاحب کی ہارمونیم نوازی کا ایک خاص وصف کلاسیکی گائیکوں کے ساتھ ہارمونیم پر ’’ سنگت‘‘ کرنا تھا۔ سنگت کرنے میں وہ اتنے ماہر اور روح دار تھے کہ گانے والے سے زیادہ خوب صورت جگہیں، مرکیاں اور بہلاوے ہارمونیم پر بجا جاتے تھے۔ جس کلاسیکی گائیک نے بھی انھیں ’’ سنگت ‘‘ کی لیے اپنے ساتھ بٹھایا، اس نے انھیں دوبارہ سنگت کرنے کی دعوت نہیں دی۔ انھوں نے استاد عاشق علی خاں پٹیالہ والے، اُستاد بڑے غلام علی خاں، ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم اور استاد سلامت علی خاں کے ساتھ ہارمونیم پر سنگت کی اور ان سے بے پناہ داد حاصل کی۔

اس ضمن میں ایک بہت دل چسپ واقعہ یوسف بٹ صاحب نے مجھے سنایا: غالباً ۱۹۸۲ء کی بات ہے کہ یوسف بٹ صاحب کے بھتیجے کی شادی کی تقریب میں ان کے قریبی دوست مایہ ناز غزل گائک مہدی حسن کی ایک نجی محفل کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مہدی صاحب گانے کے لیے لاہور سے راول پنڈی تشریف لائے تو سنگت کے لیے لاہور کے ایک ہارمونیم نواز تصدق حسین ان کے ہمراہ تھے۔ تصدق حسین اکثر مہدی صاحب کے ساتھ ہارمونیم پر سنگت کیا کرتے تھے۔ اس محفل کے سامعین میں اعجاز صاحب بھی شامل تھے۔ اعجاز صاحب کو دیکھ کر مہدی صاحب بہت خوش ہوئے۔ مہدی صاحب اعجاز صاحب کی اُستادوں کی طرح عزت کرتے تھے اور انھیں ہمیشہ اپنا سینیر مانتے تھے۔اُ س رات نہ جانے مہدی صاحب نے ترنگ میں آکر یوسف بٹ صاحب سے فرمائش کر دی کہ بھائی اعجاز کو کہیں کہ آج وہ میرے ساتھ ہارمونیم پر سنگت کریں۔ بٹ صاحب نے اعجاز صاحب سے درخواست کی تو انھوں نے معذرت کر دی اور کہا کہ نہیں۔ آج میں بھائی مہدی کا گانا سننے آیا ہوں۔ ان کے ساتھ تصدق حسین ہی سنگت کریں تو بہتر ہے۔ لیکن مہدی صاحب اعجاز صاحب سے سنگت کروانے کے لیے بضد ہو گئے۔ ۔۔۔ بالآخر بہت منت سماجت کے بعد اعجاز صاحب سنگت کرنے پر تیار ہو گئے۔ اعجاز صاحب نے فوراً کسی شاگرد کو بھیج کر تاج ہوٹل راجا بازار سے اپنا جرمن ریڈز کا تین سیٹ کا ہارمونیم منگوایا۔ محفل شروع ہوئی تو مہدی صاحب نے راگ کروانی میں الاپ کے بعد اپنی مشہور غزل ’’ شعلہ تھا جل بجھا ہوں ، ہوائیں مجھے نہ دو‘‘ شروع کی۔ راگ داری میں اعجاز صاحب بھی باکمال تھے ۔ انھوں نے فوراً ہارمونیم پر راگ کروانی چھیڑا اور سنگت شروع کر دی۔۔ ۔ اس نجی محفل کے سامعین اور شرکاء سب ہی ’’کَن رس‘‘ اور ’’ گُنی ‘‘ تھے۔ اعجاز صاحب نے مہدی صاحب کی راگ کروانی کی مخصوص جگہوں کو سہ آتشہ کر کے کچھ اس خوب صورتی سے ہارمونیم پر بجایا کہ وہ گاتے گاتے اپنا گانا چھوڑ کر اعجاز صاحب کو داد دینے پر مجبور ہو جاتے ، اسی طرح سامعین کی طرف سے بھی اعجاز صاحب کو برابر داد ملنا شروع ہو گئی اور اس محفل میں ایک مقابلے اور جُگل بندی کی فضا پیدا ہو گئی۔۔۔۔۔ داد کا رخ کبھی اعجاز صاحب کی طرف مڑ جاتا اور کبھی مہدی صاحب کی طرف۔۔۔۔۔۔ مختصر یہ کہ اس محفل کے بعد مہدی صاحب نے اعجاز صاحب کو دوبارہ کبھی اپنے ساتھ ہارمونیم پر سنگت کرنے کی دعوت نہیں دی۔

وفات سے کچھ عرصہ قبل اعجاز صاحب یوسف بٹ صاحب کے ساتھ بھارت کے دورے پر جانا چاہتے تھے۔ اس دورے کی ساری تیاری مکمل ہو چکی تھی، پاسپورٹ پربھارت کا ویزا بھی لگ چکا تھا لیکن افسوس کہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور روانگی سے چند روز قبل فرشتہء اجل نے دستک دے دی۔ اگر انھیں بھارت جانے کا موقع مل جاتا تو وہاں یقیناً انھیں بہت پذیرائی ملتی، بالخصوص ہارمونیم نوازی کے حوالے سے بھارت کے کلاسیکی گائکوں اور موسیقاروں پر ان کے جوہر کھلتے۔

خلیفہ ارشاد علی صاحب کا شمار راول پنڈی ریڈیو کے مشہور اور مستند طبلہ نوازوں میں ہوتا ہے۔ انھیں راول پنڈی ریڈیو پر اعجاز صاحب کے ساتھ مدت تک کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ اکثر ریڈیو پروگراموں میں ان کے ساتھ طبلے پر سنگت کیاکرتے تھے۔ خلیفہ صاحب کا اعجاز صاحب کے فن کے بارے میں کہنا ہے:
’’اعجاز صاحب کا شمار مستند گانے والوں اور ہارمونیم نوازوں میں ہوتا تھا۔ انھیں لَے پر مکمل عبور حاصل تھا اور وہ کسی بھی تال میں آسانی اور روانی سے گا سکتے تھے۔ ایسے فن کار نایاب ہوتے ہیں‘‘۔ ۱؂

اعجاز صاحب کو اپنے گلے کی بہت فکر رہتی تھی اور بالخصوص وہ ٹھنڈے مشروبات اور کھٹی چیزوں سے پرہیزکیا کرتے تھے۔ لیکن یہ پرہیزآہستہ آہستہ وہم کی صورت اختیار کر گیا۔ اتفاقاً اگر انھیں کسی ہوٹل میں چائے یا پانی پینا پڑ جاتا تو وہ اپنے سامنے برتن دُھلواتے تھے۔ اس وہم کے نتیجے میں وہ شاذو نادر ہی کہیں باہر سے کھانا کھایا کرتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں ان کی آواز میں لرزش پیدا ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے گانا جاری رکھا اور لرزش زدہ آواز کو بھی خوب صورتی اور خاص سبھاؤ سے برتا۔

لوک ورثے کے قومی ادارے نے کچھ عرصہ قبل ’’عصرِ حاضر کے نام ور موسیقار‘‘ کے سلسلے کے تحت اعجاز صاحب کے ساتھ ایک محفل موسیقی کا اہتمام کیا تھا۔ اس پروگرام کو لوک ورثے نے ایک وڈیو فلم کی صورت میں محفوظ کر رکھا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی وژن اسلام آباد مرکز میں بھی ان کی کچھ ریکارڈنگ موجود ہے۔ ٹی۔ وی والوں کو ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے ان کے پروگراموں کو وقتاً فوقتاً نشر کرنا چاہیے تا کہ نئی نسل بھی ان کے نام اور فن سے آشنا ہو سکے۔

اعجاز صاحب کے کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔ ان کی واحد اولاد ان کی بیٹی تھی مگر انھوں نے اپنے بڑے بھائی اُستاد اللہ بخش حضروی کے بیٹے نوازش علی حضروی کو جب وہ دو سال کے تھے، اپنے بڑے بھائی سے لے لیا تھا۔ نوازش کی ولدیت میں بھی اعجاز صاحب کا نام درج ہے۔ اعجاز صاحب نے اپنے بھتیجے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ نوازش نے بھی اعجاز صاحب کی سگی اولاد سے بڑھ کر خدمت کی اور وہ اعجاز صاحب کی وفات کے بعد بھی ان کا نام بڑے ادب سے لیتے ہیں اور انھیں والد ہی کہہ کر پکارتے ہیں۔ نوازش آرگن بجانے کے ساتھ ساتھ پی۔ ٹی۔ وی کے کمپوزر بھی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں اعجاز صاحب کی ہارمونیم نوازی کا انگ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت اعجاز صاحب کے فنی ورثے کے امین، جانشیں اور خلیفہ نوازش ہی ہیں۔

نوازش نے مجھے بتایا ہے کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اعجاز صاحب کی ایک سی۔ ڈی تیار کر رہی ہے جس میں ان کی سولہ مشہور غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ ان غزلوں کی ریکارڈنگ سنٹرل پروڈکشن یونٹ لاہور اور ریڈیو پاکستان کے دیگر مراکز سے حاصل کی گئی ہے۔ وہ اعجاز صاحب کی گائی ہوئی پنجابی اور سرائیکی کافیوں، خیال اور ٹھمری کی ایک علیحدہ سی۔ ڈی بنانے کے سلسلے میں بھی کام کر رہے ہیں۔

اعجاز صاحب کی اُستادِ محترم قاضی ظہور الحق صاحب سے بہت دوستی تھی۔ وہ اکثر شام کو انھیں گھر سے لے جاتے، کبھی یہ دونوں صدر کے کسی سینما میں فلم دیکھتے، کبھی کسی ہوٹل میں چائے پیتے، کبھی تاج ہوٹل راجا بازار کی بیٹھک میں ریاض کرتے اور کبھی راول پنڈی ریڈیو کے گلو کار، ملکۂ ترنم نور جہاں کے بھتیجے اور سنگیت سینما کے مینیجرمحمد سلیم کے ہاں گا بجا رہے ہوتے۔ اس دوستی اور معمول کا خاتمہ ان دونوں کی وفات کی صورت میں ہوا۔۔۔ان دونوں موسیقاروں کی وفات میں چند گھنٹوں کا فرق تھا اور انھیں دفن بھی ایک ہی دن اور ایک ہی وقت پر کیا گیا۔ اعجاز صاحب کی تاریخ وفات ۵ ؍فرور ی ۱۹۸۹ء ہے اور وہ ڈھوک کھبا راول پنڈی کے قدیمی قبرستان میں دفن ہیں بقول کسے:

کتنے حسین لوگ تھے جو مل کے ایک بار
آنکھوں میں جذب ہو گئے دل میں سما گئے

حوالہ:۔
۱؂ خلیفہ ارشاد علی سے راقم کی گفتگو، حوالہ مذکور

About پروفیسر شہباز علی 12 Articles
پروفیسر شہباز علی گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں اردو زبان و ادب کے مدرس ہیں۔ ان کا شمار نامور موسیقاروں میں ہوتا ہے۔ وہ PNCA اور ہنر کدہ سمیت بہت سے اداروں میں موسیقی کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے قاضی ظہور الحق اور ماسٹر محمد صادق پنڈی والے سے کسب فیض کیا اور بعد ازاں مہدی حسن خان صاحب کی شاگردی بھی اختیار کی۔ ٹی وی سے موسیقی کے تین سو سے زائد لائیو پروگراموں بطور ماہر۔موسیقی شرکت کر چکے ہیں۔