( یاسر چٹھہ )
گو کہ یہ کئی دفعہ کا واقعہ ہے لیکن ہم اسے ایک دفعہ کا واقعہ کہہ کر آپ کی سماعت اور چشم کی توجہ چاہتے ہیں۔ اسلام آباد شہر ہے، ایک ایسا سیکٹر ہے جس کے ساتھ ہی راولپنڈی کو سیدھی سڑک جاتی ہے۔ آبپارہ بھی اسی رستے سے قربت ہی میں ہے۔ ( یہ ہم علامتی و رمزیہ افسانہ نہیں لکھ رہے، اگر ایسے لگنے لگے تو آپ کی مرضی اور خدائے بزرگ و بر تر کی رضا۔) جغرافیے اور محل وقوع کے بیان کے بعد دوبارہ ایک دفعہ کے ایک ایسے ذکر پر آئیے جو ایک دفعہ کا ذکر تو ہرچند کسی طور پر نہیں، لیکن ہم اسے پھر بھی ایک دفعہ کا ذکر ہی بولیں گے۔ ایک امتحانی ہال ہے، کمرہ نہیں ہے، جنرل ہیڈ کوارٹرز کا کانفرنس روم، اور کوئی سپریم کورٹ کا روم نمبر 1 بھی نہیں ہے۔ اس حال میں دس بارہ لمبی قطاریں ان طالب علموں کی ہیں جو اپنا پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلے کی کڑی کا پہلا امتحان، یعنی ایف اے/ ایف ایس سی کا امتحان دے رہے ہیں۔
امتحانی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ نے اس امتحانی ہال میں موجود امیدوراو کی دس بارہ قطاروں کی نگرانی کے لئے تنخواہ دار نگران مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اس سپرنٹنڈنٹ نے ان کو اپنی اپنی مخصوص قطاروں میں زیر امتحان امیدواروں پر نظر رکھنے کی ہدایت کی ہوئی ہے۔ (جملئہ معترضہ: ویسے کسی بھی ملک کا آئین بھی یہی کام ریاستی اداروں کے فرائض منصبی کی ضمن میں کرتا ہے۔ خیر چھوڑیئے، آئین کی کیا وقعت، وہ تو کاغذ کے ایک ٹکڑے پر ہی تو لکھا ہوتا ہے نا! ) ان میں سے ایک نگران صاحب ہیں جو صاف ستھرے لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ کچھ دیر تو سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے ان کے لئے تفویض کردہ قطاروں میں ایک آدھا چکر کاٹتے ہیں۔ لیکن کچھ ہی وقت میں صاحب کی نگاہ اپنے ماتھے کی سطح مرتفع سے سے بھی ارفع ہو جاتی ہے۔ اپنی صفوں سے دور پرے جھانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی صفوں پر اپنی نظروں کے چراغ کی روشنی نہیں گرنے دیتے۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے؟
وہ نگران صاحب، اپنے چشم ہائے چراغاں سے دور کی صفوں میں بیٹھے امیدواروں کی کڑی نگرانی شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن خود ان کو تفویض شدہ قطاروں میں بیٹھے امیدواروں میں سے بہت سارے بغیر پڑھنے اور لکھنے کے بھی نوابی شان حاصل کر لیتے ہیں۔ مطلب کہ ان کے نصیب جاگ اٹھتے ہیں اور وہ خوب باہمی تعاون کی فضا کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ خوب تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
ہمارے پورے سیاسی و ریاستی نظام میں بھی اس طرح کی کار روائیاں ایک دفعہ کا ذکر نہیں رہتیں۔ یہ بار بار، روز بروز، کل سے جڑے آج، اور آج میں پیوست کل میں کھوجی جاسکتی ہیں، ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہم نے ہابیل و قابیل کے قصے سے ایک ضروری سبق لیا ہوا ہے۔ آخر ہم بھی آدم زاد ہیں کہ بھول جانا، اور بھولتے رہنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ دماغ، سوچ اور فکریں کسی بھی تابکاری عنصر سے زیادہ خطر ناک ثابت ہوں۔ اسی لئے بار بار اپنے آپ کو یہ کلمہ پڑھا رہے ہیں، بلکہ اس کا ذکر جلی و خفی کررہے رہے ہیں کہ محض ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ وہ کہتے ہیں نا selective amnesia یعنی سوچ سمجھ کر اور شعوری بھولنے کا عمل، بس وہی کرتے ہیں ہم!
اوپر دی گئی (بلکہ اپنے ضمیر پر خلش کرتی اور خراشیں ڈالتی تمثیل سے کچھ اور سیکھتے ہیں۔) اپنے اس یقین پر پختگی کی ایک اور تہہ لگاتے ہیں کہ ہر نئی وقوع پذیر “ایک دفعہ” کی ذکری کہانی سے، ہم پر کچھ نیا سیکھنے کی جانب دریچہ کھلتا ہے۔ پرانے سبق ہی دوبارہ سہ بارہ و چہ بارہ یادداشتوں کے ذخیرے کے صحن میں آنسووں کے نئے پا بہ زنجیر رقص کا عنوان نہیں بنتے، اور نا ہی بنتے رہتے ہیں۔ اس چھوٹی سی تمثیل سے ایک سبق۔۔۔ یقینًا یہ غیر اخلاقی سبق ہی ہوگا۔ کیونکہ کسی کو یہ کہنا کہ اپنے کام پر دھیان دیجئے، ہمارے نظام سیاست و ریاست اور اس کی پروردہ معاشرت میں politically incorrect ہی تو ہوتا ہے؛ صریحا غیر اخلاقی ہوتا ہے، آپ کی روزی روٹی، آپ کی پگڑی، آپ کی عزت نفس کے لئے خشک سالی کے لئے بری خبر ہوتا ہے۔ ان کی، جو سب کچھ ہیں، ہاں میں ہاں ملائیے، ملاتے جائیے، بیری سے دور ہونے کے باوجود سارے بیر آپ کی جھولی میں: سب انعام، سب اکرام آپ پر ۔۔۔۔ آپ متوازن سوچ و فکر کے حامل کہلائیں گے، معتدل مزاج کی پکی مہر آپ پر، آپ سنجیدہ لکھنے والے، آپ ٹیکنوکریٹ، آپ امتیازات کے سرکاری تمغوں کے سچے وارث و حقدار، آپ دانشمند، آپ دانشور، آپ سچے مسلمان، آپ پکے پاکستانی! آپ کی کسی بھی قسم کی زبردستی اور زیادتی کے کہیں سے بھی چار عاقل، بالغ، سچے، زاہد گواہ اکٹھے نہیں ہو پائیں گے: اور اکٹھے ہوکر تو دکھائیں۔ آپ ہر “حد” کی جکڑن سے باہر، آپ بے حد ہونگے۔ آپ کی ہر زور داری، زبر دستی پر سب تعزیریں اپنے لولے لنگڑے due process کے بکھیڑوں کی محض گواہیاں ڈھونڈتی پھریں گے، مگر آنکھوں پر کالی پٹیاں اور کالے چشمے لگائے۔ مگر آپ پھر بھی مامون، آپ محفوظ، جب چاہیں، جس شادی پر چاہیں رقص روح افزا کرتے پھریں۔ خدا آپ کی کمر سلامت رکھنے کی لاکھ ترکیبں نکال لائے گا!
پچھلے ہونے والے اولمپکس کے مقابلوں میں وطن عزیز کے دستے کے سب کھلاڑی کسی بھی تمغے کی جیت کے بغیر واپس لوٹے۔ ہاکی کے ورلڈ کپ میں ایک وقت کی ہاکی کی دنیا میں راج کرنے والی ٹیم کو محض شمولیت کے لئے کوالیفائی کرنے کی کوفت اٹھانا پڑی۔ ساتھ ہی یہ بھی سنئے۔ ہم اس ویب سائٹ، ایک روزن، پر وقتا فوقتا فنکاروں، گلوکاروں اور دیگر آرٹسٹوں پر مضامین کے نیچے تبصروں میں ایک بڑی افسوسناک چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ زیادہ تر تبصرے اس طور سے نچھاور کئے گئے ہوتے ہیں کہ کسی فلمی اداکار یا اداکارہ، مغنی یا مغنیہ کے خلاف ایسے نا زیبا الفاظ لکھے گئے ہوتے ہیں کہ دوزخ کے مناظر آنکھوں کے سامنے بندھے جاتے ہیں۔ تبصرہ کاران، ان فنکاروں کے جسد ہائے خاکی کو دوزخ کا ایندھن ہونے کی سفاک پیشین گوئیاں اس اعتماد سے کر رہے ہوتے ہیں جیسے خدا کے قیامت کے منصوبے کی تعلقات عامہ کی خدمات انہیں حضرات کو سونپی گئی ہو۔ مطلب یہ کہ فن اور فنکار خاص طبقوں کے تخیل اخلاق و تصور گناہ و ثواب میں سراسر پاپی طبقہ ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ہمارے ملک کی ایک بہت بڑی تعداد گیلری کو ڈائیلاگ سنانے والوں کو، اور اپنے تفویض شدہ فرائض کے آئین میں لکھے سکرپٹ سے ہٹنے والوں کے افعال پر تالیاں پیٹتے نہیں تھکتی۔ اور ہمارے اعلی سرکاری عہدوں پر متمکن افراد گیلری کے لئے کھل کھیلنے کو پاکیزہ ناٹک سمجھتے ہیں۔
ابھی دو روز نہیں گزرے ایک بہت بڑے منصب انصاف پر مامور صاحب عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے مشورے ارزاں کر رہے ہیں۔ ووٹ دینے کے فرائض و واجبات اور منکرات بتا رہے تھے۔ گورننس کے مبادی و کیفیات پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ حکومت کی ناکامی کے ہر پہلو پر چراغاں کر رہے ہیں۔ ملک کے تین بڑے اردو کے ایک سے بڑھ کر ایک محب وطن اخباروں نے شہ سرخیوں میں جناب کی فصاحت کلام کو جگہ دی ہے۔ لیکن دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ جاتے ہیں کہ اس شہر سرخی کے بالکل آس پاس ہی جناب آرمی چیف کی جانب سے دس افراد کی پھانسی کی سزا پر مہر تصدیق ثبت ہونے کی خبر چست ہوئی ہے۔ اس اختیار کا آرمی چیف تک پہنچ جانا، کن کی کامیابی و ناکامی شاخسانہ تھا؟ آخر کیوں رضا ربانی جیسے آئین پرست اور آدرش آموز پارلیمنٹرین کی سینیٹ میں انصاف کے اختیارات کے اجنبیوں کو سونپے جانے والے دن، کی آواز پہلے بھرائی، پھر روہانسی ہوئی اور بعد میں آنکھوں اور دل کا ضبط ٹوٹ گیا؟ ایک خبر اور ہے۔ دو ایک دن پہلے کسی فوت شدہ شخص کی کسی طویل مقدمے سے آزادی کا فیصلہ ہوا تھا، اس کی خبر بھی انہیں محب وطن اخباروں نے لگائی تھی۔ آخر یہ کس کی کامیابی اور کس کی ناکامی ہے؟
گو کہ تردید آ گئی ہے، لیکن کیسے مان جائیں کہ ایکدوسرے کی جان کے دشمن تین ایک سے بڑھ کر ایک محب وطن اردو اخبار ایک جیسے الفاظ کے ساتھ اس عوام کو اٹھ کھڑے ہونے اور ووٹ ڈالنے کے طریقوں اور ترکیبوں کے مشوروں کو رقم کردیں۔ آپ کی تردید کو یہ کہتے سمجھتے ہوئے بھی مان لیتے ہیں کہ اس گئے گزرے وقت میں بھی تمام میڈیا ہاؤسز اپنے نسبتا بہتر اور تجربہ کار رپورٹرز کو عدالت عظمٰی کی کوریج کا فریضہ سونپتے ہیں۔ لیکن ذہن سے وہی فلم نہیں نکلتی کہ جیسے اس امتحانی مرکز کے نگران کی تھی۔ جن کا اوپر کی سطروں میں تذکرۂ خوباں ہے۔ جو اپنی ناک کے عین نیچے سے تو نظر اندازی برتتے تھے، لیکن کہیں دور کے نشانوں پر آنکھ رکھنے میں یکتا تھے۔ حضور آئین سب کو دائرے دیتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو ہم ان دائروں میں رہ کر عزت کمائیں اور خلق خدا کی تکلیفوں اور زخموں پر پھاہے رکھیں۔ جیتے جاگتے انہیں ہم سب مل کر پنجابی والا “پھائے” نا لگائیں۔
ایک آخری بات۔ کچھ مہینوں پہلے بھی ایک صاحب کورٹ روم نمبر 1 میں بیٹھ کر بڑی بلند آہنگ آبزرویشنز دیتے تھے۔ ٹی وی چینلوں کے نیوز ایڈیٹرز اپنے ناشتے کی ڈکار بعد میں مارتے تھے، ان کی سنسنی خیز موسیقی آلود بریکنگ نیوز پہلے نشر کر دیتے تھے۔ ان کے لبوں کا ہلنا خبریں لکھنے والوں کے قلم کا روزانہ کا چارہ بن جاتا تھا۔وہی اپنے چودھری صاحب، جو انصاف کا افتخار تھے۔ آج کل انہوں نے ایک سیاسی پارٹی بنائی ہوئی ہے۔ وہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے طریقے ضرور بتاتی ہوگی۔ کیوں نا عوام بے یارو مددگار کو، ان کھڑے ہونے کے طریقوں اور ووٹ ڈالنے کے قرینوں کی دانش عظمٰی انہیں کے حوالے کر دی جائے۔ ہم عوام کو عقل وہیں سے ملے جہاں سے اسے ملنا چاہئے۔ باقی آج کل میں ہم جس چیز کی تنخواہ لیتے ہیں، جس کام پر ہیں صرف انہیں کو نبھائیں۔