(ترجمہ:عارف بخاری)
اقبال احمد کو خراج تحسین پیش کرنے سے پہلے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پچھلے کئی برس سے میرا اور اقبال احمد کا ایک معمول رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم دونوں ایک مقامی آدمی اور ایک گورے کے مابین مشرقی طریقوں پر گفتگو کے طرز پر بات کرتے ہیں۔ ہم بار باری مقامی اور گورے کا روپ دھارتے ہیں۔ لہٰذا میں کہتا ہوں ’’ارے مولانا ! آپ عظیم ہیں‘‘۔ اور وہ فرماتے ہیں، ’’نہیں نہیں۔ میں تو آپ کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں‘‘۔ جواب میں مَیں کہتا ہوں ۔۔۔ بہرحال یہ گفتگو دیر تک یوں ہی چلتی رہتی ہے۔ آج مزے کی بات یہ ہے کہ میں اقبال احمد کے بارے میں جو بھی کہوں‘ وہ جواب نہیں دے سکتے ! آج وہ خاموشی سے خود پر ڈھیروں تعریف و تحسین کی بارش ہوتے دیکھیں گے !
ہمارے پیارے دوست اور کامریڈ اقبال احمد پر بجا طور پر نچھاور کیے گئے احتراماتِ فراواں کے باوجود ان کے بارے میں بہت کچھ کہنا باقی ہے۔ میں مزید کچھ کہنے کی‘ کم از کم‘ کوشش ہی کر سکتا ہوں۔ اقبال احمد کی سب سے شاندار بات یہ ہے کہ اگرچہ انہوں نے اکثر لوگوں سے زیادہ سرحدیں پار کی ہیں‘ وہ ہر نئی جگہ‘ نئے حالات اور نئے تناظر میں بلا تردد اپنا تشخص مضبوطی سے برقرار رکھتے ہیں۔ یہ کسی نسلی یا مذہبی تشخص کی بات نہیں‘ نہ ہی اس کا تعلق اُس استحکام سے ہے جو مضبوط قسم کے شہریوں کی عادت بن جاتی ہے۔ یہ دراصل اقبال احمد کی شاندار دانش‘ حوصلے‘ انتہائی ارفع قوتِ تجزیہ اور ایک مستقل ہمدرد شخصیت کا مرکز ہے جو انہیں بقول رڈیارڈ کپلنگ ’’تمام دنیا کا دوست‘‘ بناتا ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’ثقافت اور شہنشاہیت‘‘ (Culture & Imperialism) اقبال احمد کے نام منسوب کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے مطابق اقبال کے فکر و عمل اور زندگی میں نہ صرف ریاست کی سیاست کی تجسیم ہو گئی تھی بلکہ چند ایک معاشی و تخفیفی اصول قواعد کی بجائے انسانی حیات کے کامل تجربات کا نچوڑ شامل ہو گیا تھا۔ لہٰذا اقبال جس چیز کو ریاست کا تجربہ سمجھتے ہیں وہ نہ صرف ریاست کے تمام اُمور پر حاوی رہتا ہے بلکہ ریاست کی مزاحمت کے نتیجے میں پیدا ہونے والا تخلیقی فکر و عمل بھی ہے۔
اقبال احمد کی تحریکوں میں جو بات دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہے وہ روایتی اور غیر روایتی فکر کا باہمی اختلاف ہے بلکہ اس سے بھی گہرا تر اختلاف انصاف اور نا انصافی کے مابین ! اقبال احمد کی ترجیحات غیر روایتی اور منصفانہ فکر کے حق میں اٹل ہیں۔ اس لیے کہ ان کے بقول یہ فکر لوگوں کو آزادی‘ قومی ثقافت اور فلاح و بہبود تک رسائی مہیا کرتا ہے۔ وہ اسلحہ لیس فوجوں‘ منجمد افسر شاہی اور پائیدار امراء شاہی کے بارے میں بلا استثناء تحفظات رکھتے ہیں۔ تاہم بقول ان کے (جیسا کہ وہ ’’ڈیبرے‘‘ Debray پر لکھے گئے اپنے اعلیٰ مضمون میں اظہار کرتے ہیں) فقط غیر روایتی ہونا ہی کافی نہیں اگر آپ روایات کو اہمیت نہیں دیتے‘ ان مفید عوامل کو اہمیت نہیں دیتے جن سے ایک روایتی معاشرے کے افراد محظوظ ہوتے ہیں‘ انسانی زندگی کے اُس عظیم الشان استحکام کو اہمیت نہیں دیتے جسے اقبال احمد سے بالکل مختلف دانشور ایڈمنڈ برک (Edmund Burke) نے بھی سراہا۔
اقبال احمد جیسے ذی فہم اور حقیقت پسند دانشور کو یہ احساس ہے کہ محض انقلاب کے نام پر معاشرتی نظام کو الٹ پلٹ کر رکھ دینا ایک بے حس اور تباہ کن عمل ہے جسے انقلابی عمل تو کہا جاسکتا ہے‘ درست ہرگز نہیں قرار دیا جاسکتا۔ خصوصاً اس صورت میں جب کہ ان حقائق سے صرفِ نظر کیا جاتا ہو کہ انسان محبت بھی کرتا ہے اور تخلیق بھی‘ جشن بھی مناتا ہے اور یادیں بھی۔
پچھلے چند ہفتوں سے اقبال احمد کی مختلف حیثیتوں کے بارے میں پڑھتے اور سوچتے ہوئے مجھے مسلسل ان کی ہمہ جہتی کا احساس ہوتا رہا‘ ایک دانشور‘ صاحب علم‘ سرگرم کارکن‘ استاد اور دوست‘ ان کے کام کا دائرہ کس قدر وسیع ہے ! اقبال احمد کی طرح کے سمندر پار اور سرحد پار سفر بہت کم لوگوں نے اختیار کیے ہوں گے اور ان کا ہر سفر مانوسیت کی ایک قابل رشک فضا رکھتا ہے کیونکہ اقبال اجنبی اصطلاحات و تجربات سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ انہوں نے اپنی زبان کا اوزار اس طرح سے صیقل کیا ہے کہ اس کی مدد سے تصورات جیتی جاگتی زندگی کا روپ دھار لیتے ہیں اور ٹھوس انسانی تجربات ایک اعلیٰ توانائی اور انتہا درجے کی درستی کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔
اب میں آپ کے سامنے ان کے ایک مضمون ’’ایک نئی صدی کی پیش آگاہی‘‘ (Portent of a New Century) سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ یہ مضمون فلس بینس Phyllis Bennis کے زیر ادارت جریدے ’’Gulf Crisis Reader‘‘ سے لیا گیا۔ ذرا ملاحظہ کیجئے کس خوبصورتی سے انہوں نے اس مضمون میں ایک مربوط قسم کے طنز‘ تعمیم (Generalization) اور ایک باقاعدہ غیظ و غضب کی آمیزش کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے جملے استعاراتی لبادے اوڑھنے کی بجائے سنگین حقائق لے کر سامنے آتے ہیں۔ ان کا ایک ایک جملہ اس قدر مواد سے بھرپور ہے جس کو بیان کرنے میں ہٹنگٹن Hutington اور برزنسکی Brzenski جیسے بلند آہنگ ماہرین نے صفحوں کے صفحے سیاہ کر ڈالے۔
’’بیسویں صدی رجائیت کے وعدوں اور قنوطیت کے حوالوں کی متوارد اہلیت کی وجہ سے ایک شاندار صدی رہی اور اب تو میں محسوس کر رہا ہوں جیسے یہ صدی اسی طرح اختتام کو پہنچ رہی ہے جس طرح شروع ہوئی تھی۔
ایک عادلانہ اور پرامن عالمی نظام کی شاندار امیدوں پر ایسے سیاستدان اور جنگجو غالب آ رہے ہیں جن کی سیاسی سوچ ماضی میں گڑی ہوئی ہے۔ بیسویں صدی کے طلوع سے قبل تین سو سال تک دنیا تبدیلیوں کی زد میں رہی‘ وہ تبدیلیاں جو جدید سائنس‘ ٹیکنالوجی اور شہنشاہیت کی بناء پر وجود میں آئیں۔ یہ سرمایہ دارانہ اور یورپی وسعت پذیری کا وہ دور تھا جب عالمی نظام مغرب کے زیرِ نگیں آ گیا تھا اور عالمی منڈی کلیتاً مغرب کے زیرِ تسلط آگئی۔ یہ سب کچھ دیکھنے میں بے ضرر معلوم ہوتا ہے‘ لگتا ہے جیسے عالمی منڈی واقعی آزاد اور فقط معاشی طور پر مضبوط گروہ کے کام آتی ہے‘ حقیقت یہ نہیں۔ مغربی تسلط کو مذہبی اور اخلاقی قوت کے ذریعے قانونی اور ادارہ جاتی شکل دے کر مضبوط کیا گیا۔ یہ بین الاقوامی فساد آج تک مغربی اور غیر مغربی دنیاؤں کے مابین تضادانہ تعلق کی بنیاد ہے‘‘۔
اقبال احمد کو پڑھتے ہوئے آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ایمان و ایقان سے بھرپور ایک رجائیت پسند آواز ہے جو آپ سے باتیں کر رہی ہے‘ آپ کو نصیحت یا آپ پر ہیکٹری نہیں جتا رہی‘ یہی ناگزیر طور پر اقبال احمد ہیں‘ جو آپ کے ساتھی ہیں‘ آپ کے ہم مکتب ہیں‘ جو ایک تحقیقی و تفتیشی دماغ رکھتے ہیں اور جو ماسوائے اصولوں اور اخلاقی انصاف کے معاملوں کے کسی بھی معاملے میں کٹر نہیں ہیں۔ کئی سالوں تک مجھے اور شاید آپ کو بھی‘ یہ افسوس رہا کہ انہوں نے کوئی کتاب کیوں تصنیف نہیں کی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ دراصل اقبال احمد نے تو اچھی خاصی تخلیقات کی ہیں جو انہوں نے نہایت بے دھیانی سے دنیا بھر میں انٹرویز اور آرٹیکلز کی شکل میں بکھیر کر رکھی ہیں۔ اقبال احمد انٹرویو دینے سے کبھی انکار نہیں کرتے۔ تبھی وہ جہاں بھی جاتے ہیں‘ نئے اور نوجوان لوگ ٹیپ ریکارڈ اور نوٹ پیڈ لیے‘ ان سے گفتو کے متمنی‘ انہیں گھیرے رکھتے ہیں۔ اقبال احمد کو پیشہ ورانہ کام پر مجبور کرنا ایسا ہی ہے جیسے سمندر میں ہل چلانا ! غیر ممکن ! لیکن کچھ روز قبل مجھے بڑا حوصلہ پیدا ہوا جب یہاں ایمہرسٹ میں انہوں نے مجھ سے مشورہ مانگا‘ ’’آپ کا کیا خیال ہے‘ میں اپنا وقت کیسے تقسیم کروں؟ اور اپنی تحریروں میں کس چیز پر زیادہ توجہ دوں؟‘‘ واضح طور پر‘ یہاں ہمپشائر میں جو انہیں ایک شاندار خراج تحسین پیش کیا گیا‘ اس کی بناء پر وہ اپنے نئے سنگ میل کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ یقیناًاُس لمحے میں انہیں کوئی مفید مشورہ دینے کے قابل نہیں تھا۔ تب میں نے مزید سوچا اور اب میں یہ کہتا ہوں کہ اقبال ! جو کام آپ اتنی اچھی طرح انجام دے رہے ہیں‘ وہ جاری رکھئے مگر خدارا ! ہم سب کی خاطر‘ خصوصاً نوجوانوں کی خاطر‘ یہ ذہن نشین کرنے کی کوشش ضرور کیجئے کہ ایک ’’زبانی کلامی‘‘ دانشور ہونے کے ساتھ ۔۔۔ جس طرح نگری نگری گھومنے والے مسلمان دانا ہوا کرتے تھے‘ جن کے ہمارے جیسے چیلے ہوتے تھے ۔۔۔ یہ یاد رکھئے کہ آپ کے الفاظ فقط ہواؤں میں بکھرنے یا ریکارڈوں میں بھرنے کے لیے نہیں ہیں‘ بلکہ ان کو تصنیف و تالیف کے دائرے میں لانا ازحد ضروری ہے تاکہ ہم سب ان سے مستفید ہو سکیں۔ آپ کو ہماری خاطر یہ کرنا ہوگا۔ اپنے کام کی تدوین کیجئے‘ تالیف کیجئے اور اسے شائع کروائیے۔ اور جو آپ کو اب تک نہیں جانتے ان کو حقیقی معنوں میں ایک شاندار اور قابل شخص کو جاننے کا موقع ملے گا اور پھر مزید لکھئے اور مزید بولیئے۔ بلکہ آپ کو ’’اقبال مزید‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
کیونکہ جیسا کہ ورڈز ورتھ (Words Worth) نے ملٹن (Milton) کے بارے میں لکھا‘ ’’دنیا کو تمہاری ضرورت ہے‘‘۔ ہمیں الجزائر پر اور شمالی افریقہ پر‘ ویت نام پر‘ پاکستان اور بھارت پر‘ امریکہ کے ’’جنگ مخالف‘‘ احتجاج کی مخالفت پر اور شہری حقوق کی جدوجہد پر‘ مشرقِ وسطی پر اور کم از کم اکیسویں صدی کے انقلابی جدوجہد کے ایک کامل نظریئے پر آپ سے بہت بڑے کام کی توقع ہے۔ ہم آپ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں‘ کیا آپ شروع کریں گے؟