(پروفیسر فتح محمد ملک)
انگریزی روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ کے نامہ نگار نے اپنے اخبار کی ایک اشاعت میں سوال اُٹھایا تھا کہ :
Can Iqbal’s poetry keep drones away?
ہر چند نامہ نگار نے یہ سوال اقبال کی شاعری اور دفترِ خارجہ کے ترجمان کا مذاق اُڑانے کی خاطر اُٹھایا ہے تاہم اِس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔جی ہاں! اقبال کی شاعری ڈرون حملوں کا منہ موڑ کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے بشرطیکہ اِس انقلابی شاعری کو ٹونے ٹوٹکے کی طرح استعمال کرنے کی بجائے ضابطۂ حیات اور لائحۂ عمل بنایا جائے۔اقبال کا یہ مصرع ہمارے ہاں زبان زدِ عام ہے : عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ! ہم نے اقبال کے انقلابی پیغام پر عمل نہ کر کے اپنی زندگی کو جہنم بنا لیا ہے۔ ایک وقت تھا جب شہیدِ مِلّت اور اُن کے رفیق سیاسی قائدین اقبال کے پیغام پر عمل کرنے میں کوشاں تھے ۔ یہی زمانہ تھا جب بھارت نے اپنی قاہر و جابر افواج نوزائیدہ پاکستان کی سرحدوں پر لاکھڑی کی تھیں ۔ تب لیاقت علی خان نے اپنا مُکّا دکھاتے ہوئے اقبال کا یہ شعر پڑھ کربھارتی افواج کوپسپائی پر مجبور کر دیا تھا:
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
جاننا چاہیے کہ لیاقت علی خان کا یہ مُکّا فقط اِس لیے ہماری قومی تاریخ میں ایمانِ محکم اور عملِ پیہم کی مثال بن کر رہ گیا ہے کہ اِس مُکّے میں اقبال کی شاعری لہُو بن کر گردش کر رہی تھی۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد غلام محمد ، سکندر مرزا اور ایوب خان اقتدار کی مسند پر زبردستی آ بیٹھے تھے ۔یہ سامراج نژاد افسران اقبال اور تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال سے ناآشنائے محض تھے۔ اِسی طرح کے مغربی سامراج کی آنکھوں کے تارے آمروں نے پاکستان کو اُس حالت میں پہنچا دیا ہے جس میں آج ہے۔ آج پاکستان اپنے ’’دوستوں‘‘ کی دشمنی اوراپنے ’’اتحادیوں ‘‘ کی منافقت کے حصار میں پڑا تڑپتا ہے۔کل پاکستان اقبال کے انقلابی فکر و تخیّل سے پھوٹا تھا اور آج اِسی انقلابی فکر و تخیّل کو اپنا کر زندہ رہ سکتا اور دُنیا میں سربلند ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہیدِ مِلّت لیاقت علی خان کا طیارہ جب امریکی ہوائی اڈے پر اُترا تھا تب صدر ٹرومین اور ان کی بیگم ایئرپورٹ پر اُن کے استقبال کو موجود تھے ۔شاید اِس لیے کہ لیاقت علی خان کے ہاتھ میں کوئی کشکولِ گدائی نہیں تھا۔اقبال کے فلسفہ خودی و خودمختاری کے عملی ترجمان شہیدِ مِلّت لیاقت علی خان کی غیرتِ فقر آج بھی ہماری سنگین ترین قومی ضرورت ہے۔’’غیرتِ فقر ‘‘پر مجھے اقبال کی ایک چھوٹی سی نظم یاد آتی ہے۔علامہ اقبال کی زندگی کے پہلے اور آخری یومِ اقبال کی نسبت سے پنجاب کے پریمیئر سرسکندر حیات خان نے اقبال کی قومی و ملّی خدمات کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے وقت قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ یومِ اقبال کے موقع پر شاعرِ مشرق کی خدمت میں ایک خطیر رقم بطور نذرانہ پیش کرے۔اِس پر اقبال کو اتنا غُصہ آیا تھا کہ انھوں نے فی الفور ایک بیان میں اِس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک فانی انسان ہوں ،میری ضروریات بھی فانی ہیں۔برصغیر کی مسلمان قوم لافانی ہے اِس لیے سر سکندر حیات کو چاہیے کہ میری ضروریات کی بجائے قومی ضروریات کی جانب توجہ دیں۔اِسی موقع پر نظام حیدر آباد دکن نے بھی ایک خطیر رقم کا چیک اقبال کو بھجوایا تھا ۔ اقبال نے یہ چیک وصول کرنے سے انکار میں نظام حیدر آباد دکن کی خدمت میں درج ذیل مختصر نظم لکھ بھیجی تھی:
تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہِ پرویز
دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات
مجھ سے فرمایا کہ لے، اور شہنشاہی کر
حُسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات
میں تو اس بارِ امانت کو اُٹھاتا سر دوش
کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات
غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اُس نے کہ ہے میری خدائی کی زکات!
ہماری جس قیادت نے امریکی خدائی کی زکواۃ کے لالچ میں ہماری قومی خود مختاری کو امریکی حکومت کے ہاں گِروی رکھ دیا تھا وہ اقبال کی اِسلامی انقلابی شاعری کے پیغام سے ناآشنائے محض تھی۔اُسے نہ تو فقر کا مفہوم معلوم تھا اور نہ درویشی کا ۔اُسے کسی نے کبھی بتایا ہی نہ تھا کہ اقبال کا درویشی باقاہری کا تصور کیا معنی رکھتا ہے اور غیرتِ فقر کس چڑیا کا نام ہے؟نتیجہ یہ کہ آج دُنیا علامہ اقبال کی بجائے صوفی محمد کو اسلام کا شارح اور ترجمان سمجھنے پر مجبور ہے۔وہی صوفی محمد جس کے بارے میں علامہ اقبال پون صدی پہلے فرما گئے ہیں:
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟
اِس کو کیا جانیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام؟
مقامِ شکر ہے کہ آج ہماری قومی قیادت نیٹو کی غلامی کے چلن کو ترک کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔چچا سام کے آگے گِروی رکھی ہوئی قومی خودمختاری ہماری قومی سیاسی قیادت (حزبِ اقتدار +حزبِ اختلاف ) کو ورثے میں ملی ہے۔رہن رکھی ہوئی قومی خودمختاری کی بازیافت ایک کٹھن مہم ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ ہماری قومی قیادت اِس مہم کو سَر کرنے نکل پڑی ہے۔اگر اقبال کا فکر و تخیّل شاملِ حال رہا تو بہت جلد یہ مہم سَرکر لی جائے گی۔دفترِ خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ کے دوران جہاں روزنامہ ’’دی نیوز ‘‘کے نامہ نگار کو طنز و مزاح کا موقع فراہم کیا وہاں میرے دل و دماغ کو اِس احساس سے سرشار کر دیا کہ ہمارے دفترِخارجہ میں اقبال کا داخلہ ابھی بند نہیں کیا گیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قومی زندگی کے ہر شعبے میں مصورِ پاکستان اور مفکرِاسلام علامہ اقبال کو سرچشمۂ فیضان بنا لیں۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کا فقط یہی علاج ہے۔جب ہم اقبال کے فکر و تخیّل کو اپنا رہبر و رہنما بنا لیں گے تب ہمیں پتہ چلے گا کہ ڈرون حملوں کا مقابلہ تو صرف اقبال کی شاعری ہی سے کیا جا سکتا ہے!