(نعیم بیگ)
مجھے آج ناجانے کیوں ژاں ژاک روسو یاد آ رہا ہے۔ اس نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’معاہدہِ عمرانی‘ میں ریاست، عوام اور اقتدار اعلیٰ کو اس قدر وضاحت سے بیان کر دیا ہے کہ رہتی دنیا تک اس فلسفہ کو کوئی رد نہیں کر سکتا۔ اقتدار اعلیٰ کیا ہے؟ حکومت ( قوتِ عاملہ) اور اقتدار اعلیٰ میں کیا فرق ہے؟ اس کا اندازہ آج صبح کا اخبار پڑھتے ہوئے ایک مختصر سی خبرسے ہوا۔ خبر کو پوری طرح سمجھنے سے پہلے تمہیدی بیان کے طور پر روسو کے متعین کردہ اصولوں پر کچھ گفتگو ہو جائے۔
روسو نے دستورِ اساسی کے جو اصول وضع کئے ہیں ان میں اقتدار اعلیٰ اور حکومت (قوت عاملہ) کا فرق خاص اہمیت رکھتا ہے۔ روسو کہتا ہے ’’ اقتدار اعلیٰ کی مالک پوری جماعت ہے، برخلاف اس کے کہ حاکم یا سلطان یا عامل افراد۔ اقتدار اعلیٰ وہ فرد، یا افراد کا مجموعہ ہے جسے پوری جماعت کی طرف سے یہ خدمت تفویض ہوئی ہوکہ وہ ’ارادہ اجتماعی‘ جس کا اظہار جوقانون کی شکل میں ہوتا ہے، کو عملی جامہ پہنائے۔ یہاں ارادہِ اجتماعی کسی طور پر صرف اکثریت سے موسوم نہیں، بلکہ من حثیث الجماعت غیر محدود اور ہم خیال ہو۔ ’اجتماعی ارادے ‘ میں نہ تو انفرادی مفاد ہوتا ہے نہ ہی پوری جماعت کا بلکہ پورے نظام میں بسنے والے افراد کے ’اجتماعی ارادے ‘سے ہی قانون کا درجہ ملتا ہے۔ ‘‘
روسو سے پہلے مختلف فلسفیوں نے حکومت اور محکوم میں طے پائے ہوئے معاہدے کی بنا پرمحکوم کے مختلف حقوق مقرر کئے تھے، مگر روسو معاہدہ عمرانی کو حکومت کی نہیں بلکہ ریاست اور معاشرے کی بنیاد تصور کرتا ہے۔ (دورجدید میں ہم یہاں معاہدہ عمرانی کو علامتی معنوں میں ملکی آئین کو ہی لیں گے)۔
روسو کہتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ جماعت کو معاہدہ عمرانی کی بنا پر قوت حاصل ہے برخلاف اس کے کہ حاکم پوری جماعت (یعنی صاحب اقتدار اعلیٰ) کا نامزد کیا ہوا ہے۔ اقتدار اعلیٰ جس کا استعمال قانون وضع کرنے کی صورت میں ہونا چاہیے، ناقابل تقسیم ہے۔ اسی وجہ سے وہ کہتا ہے کہ قانون وضع کرنے میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیئے۔ جس لمحے حکومت قانون کو وضع کرنے کے حق کو غصب کرے اسی وقت معاہدہ عمرانی ٹوٹ جاتا ہے۔ اور معاہدہ عمرانی کے ٹوٹتے ہی ریاست کے وجود کی اخلاقی یا قانونی علت باقی نہیں رہتی۔
اس معنوی تفہیم کے تناظر میں جب ہم یہ اخباری خبر کی یہ جلی سرخی پڑھتے ہیں کہ ’’حکومتی وفد کی آرمی چیف سے ملاقات، پلانٹڈ سٹوری پر تحقیقات کی پیش رفت پر آگاہ کیا، (آئی، ایس، پی، آر)
روزنامہ جنگ لاہور کی ۲۸ اکتوبر کی اس سرخی کی اجمالی تفصیل یہ ہے کہ ’’آئی، ایس، پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بدھ کی شام آرمی ہاؤس میں حکومتی وفد نے ملاقات کی، آرمی چیف کو پلانٹڈ سٹوری سے متعلق تحقیقات میں پیش رفت اور سفارشات سے آگاہ کیا۔ وفد میں وزیر داخلہ چوہدری نثار، شہباز شریف، اور اسحاق ڈار شامل تھے۔ حکومتی وفد نے آرمی چیف کو ۶ اکتوبر کی قومی سلامتی کے منافی اسٹوری پر بریف کیا۔آرمی چیف سے وفد کی ملاقات شام ۴ بجے سے ۳۰.۵ تک ہوئی۔‘‘
اس خبر کے تناظر اور روسو کے فلسفے کی روشنی میں دو سوال اٹھتے ہیں۔ پہلاکہ اقتدار اعلیٰ کی تشریح جو قرار داد آئین پاکستان میں کی گئی ہے اس کی وضاحت پر جماعت ( جماعت سے مراد یہاں الیکشن کے عمل سے چنے گئے حکومتی افراد ہیں) پر ایک قانونِ عمل کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے وہ اقتدار اعلیٰ کا استحقاق خودمجروح نہ کریں؟
دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ ہے کہاں ؟ کیا ہم آئین جسے روسو معاہدہ عمرانی کہتا ہے کی روح، الفاظ، اس کی معنوی تشریحات کو ابھی بھی زندہ سمجھے ہوئے ہیں۔ کیا ہم اپنے آئین کے بارے میں کوئی قانونی استحقاق یا جواز رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر ہم وزراء یا وفود سے قانون کی بالا دستی کا اصرار کریں۔ یاکیا جماعت (یہاں روسو کے مطابق اقتدار اعلیٰ) کے اراکین اپنا مینڈیٹ کھو چکے ہیں؟ اور اس کمزوری کو سرعام طشت از بام کر رہے ہیں۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ہم نے اپنے محکوم افراد جسے ہم تفاخر سے’ملت‘ کا نام دیتے ہیں، کو اس معاہدہ عمرانی سنہِ ۱۹۷۳ء کے تحت کوئی حقوق دیتے ہیں یا بحیثیت محکوم وہ یہ سمجھ لیں کہ عمرانی معاہدہ ٹوٹ چکا ہے اور ہم نئے عمرانی معاہدے کی طرف گامزن ہیں۔