(شازیہ ڈار)
کچھ روز قبل لاہور میں سالانہ کتب میلہ منعقد ہوا اور مجھے وہاں جانے کا موقع ملا ۔ میں نے وہاں سے کچھ کتابیں بھی خریدیں جن میں سے ایک میری فیورٹ ہے کیونکہ وہ مولانا روم اور ان کے استاد محترم شاہ شمس تبریزی کے تعلق پر ایک خوبصورت تحریر ہے۔ ترک مصنفہ ایلف شفق نے شاہ شمس کی تعلیمات کے اس مجموعہ کو ‘عشق کے چالیس اصول’ کا نام دیا ہے ۔ یہاں عشق سے مراد حقیقی عشق ہے۔ عشق کا پہلا اصول ہمیں بتاتا ہے کہ، “ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گمان کا ایک عکس ہوتا ہے۔ اگر اللہ کے نام سے ذہن میں محض الزام اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنے سینے کی گھٹن میں پنپ رہی ہے اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے تو یقینًا ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔”
ہم سب انسانوں کی زندگیوں میں نشیب و فراز تو آتے رھتے ہیں۔ اگر ہم پر کوئی مشکل آتی ہے تو ہم سب سے زیادہ موردہ الزام اسی ہستی کو ٹھراتے ہیں جو ہمیں سب سے زیادہ پیار کرتی ہے ۔ ہم سب سے زیادہ بدگمان اللہ سے ہوتے ہیں کیونکہ ہمارا اس کی ذات پر یقین بہت کھوکھلہ ہوتا ہے ۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہمیں اس پر بھروسہ اور مان کرنا نہیں سکھایا جاتا۔ مذہب کے ٹھیکدار تو ہر وقت اللہ سے ڈراتے رہتے ہیں ۔ ان کے مطابق تو اللہ کریم نے ہر لمحہ ہاتھ میں ڈانگ پکڑی ہوئی ہے کہ لوگ گناہ کریں تو میں سزا دوں۔
اللہ کے ساتھ تو ماں جیسا رشتہ ہونا چاہئے ۔ سب سے زیادہ محبت کرنے والا اور مان والا کیونکہ اللہ جی کو مان کرنا بہت پسند ہے۔ کیا آپ کو اپنی ماں سے ڈر لگتا ہے؟ نیہں نا؟؟ بڑی سے بڑی خطا بھی سرزد ہو جاے تب بھی ہمیں یقین ہوتا کہ ہماری ماں ہمیں معاف کر دے گی ۔ تو ایسا مان ہی اللہ جی پر ہونا چاہہے ۔ جب انسان کے دل میں یہ کامل یقین اترتا ہے کہ وہی میرا کریم رب ہے اور میں اس کا بندہ ہوں تو پھر زندگی کی ڈگر بہت خوبصورت ہو جاتی ہے ۔ جب ہم یہ بھروسہ کر لیتے ہیں کہ میرا رب ہی میرا خیال رکھنے والا ہے ۔ بس وہی میری پکار سننے والا ہے تو پھر یقین جانیے وہ کریم سننے میں دیر نہیں کرتا ۔ ہم جیسا اس ہستی کے بارے میں سوچتے ہیں وہ ویسا ہمارے ساتھ پیش آتا ہے۔
رب پر مان کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اس پاک ہستی سے گستاخی کر رہے ہیں ۔ یہ تو بلکل ویسے ہی ہے جیسے ہم اپنی ماں سے اپنی کسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں ۔ مان سے اور احترام سے ۔ ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر ماں میری خواہش ضرور پوری کر دے گی اگر اس کے پاس وسائل نیہں ہیں تب بھی وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی میری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے۔
یہ تو ہمارے سوچنے کے انداز ہیں کہ ہم اللہ جی کے قہار اور جبار پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں یا پھر کریم اور رحیم ہونے پہ۔ وہ بہت شفیق ذات ہے اور بہت مہربان بھی۔ آپ اس پر مان کرکے تو دیکھیں ۔ میں تو اگر کبھی ٹریفک میں پھنس جاتی ہوں تو میں تو بڑے مان سے اس کو کہتی ہوں اللہ جی تھوڑی جلدی تو راستہ صاف کر دیں اور یقین کریں راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ بارہا دفعہ میں نے کہا اللہ جی آج سٹیک کھانے کا موڈ ہے تو اس نے کھلا دیا ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ہماری چند خواہشوں میں ہمیں انتظار کرواتا ہے کیونکہ وہ ہماری اس شے کے لیے تڑپ دیکھنا چاہتا ہے ۔ ہم سب اس کے ڈارلنگ ہیں تو ہماری فکر ہوتی ہے اس کو۔ ایسی صورتحال میں اللہ جی سے بدگمان ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
Allah G is not a proper name or a term. It will be better to say Allah Pak or Allah Ta’ala.