الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال : نیت صاف، منزل آسان
(تنویر احمد)
حال ہی میں جب پڑوسی ملک بھارت میں چھ ریاستوں میں انتخابات کا دنگل سجا تو ہندوتوا کی علمبردار انتہا پسندسیاسی جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی نے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی بھارتی ریاست اترپردیش میں کامیابی کے جھنڈے یوں گاڑے کہ مخالفین اس ’’فقید المثال ‘‘ کامیابی پر انگلیاں دانتوں تلے دینے پر مجبور نظر آئے۔اس کامیابی کے پس پردہ محرکات میں ’’مہاشے‘‘ نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ کے دور میں ہونے والی ’’محیر العقول‘‘ ترقی سے زیادہ ان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو دخل تھا جنہیں انتخابی عمل میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
بی جے پی کے ’’مہا شوں‘‘نے کچھ ایسا چمتکار دکھایا کہ ان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں نے دوسری تمام سیاسی جماعتوں کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کو بھی نریندر مودی کی جماعت کے حق میں کر دکھایا۔ ان الیکٹرانک مشنیوں کے ساتھ کی گئی واردات نے بی جے پی کو جو کامیابی دلائی اس پر بھارت میں سیاسی مخالفین کو تو سخت رد عمل آیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں الیکشن کمیشن نے اچانک انگڑائی بھر ی۔ ایک معاصر میں شائع ہونے والی خبرکے مطابق اگلے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے کمیشن نے کہا کہ بھارت میں ہونے والے انتخابی فراڈ کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو استعمال سود مند نظر نہیں آتا۔
ہمار ا الیکشن کمیشن ’’اللہ میاں کی گائے‘‘ کے مترادف ایک آئینی اداراہ ہے جس کی سربراہی پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سے ریٹائرڈ ہونے والے جج کرتے ہیں۔ انتخابات جیسے نازک اور اہم ملکی معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اکثر اوقات اس کمیشن کی سربراہی ان پیرانہ سال ججوں کے ذمہ ٹھہر ی کہ جنہیں دن چڑھے سامنے کھڑا ہوا اونٹ بھی نظر نہ آئے لیکن ہماری حکومتوں نے ان نحیف و نزار بابوں سے انتخابات جیسا بار عظیم اٹھوانے کی با رہا نابکار کوششیں کیں۔بھارت کے بر عکس پاکستان میں کاغذ کے بیلٹ پیپر پر ووٹ کاسٹ کئے جاتے ہیں اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ابھی تک نہیں ہوا اگرچہ اگلے انتخابات میں ان کے استعمال پر غورو غوض جاری تھا۔ ماضی میں ہونے والے تمام تر انتخابات ماسوائے ستر میں ہونے والے عام انتخابات دھاندلی اور انتخاباتی بد عنوانیوں کے الزامات میں لتھڑے ہوئے ہیں۔
(سن70میں ہونے والے شفاف انتخابات کے بعد پاکستان دو لخت ہو گیا تھا اس لئے ’’محب وطن‘‘ اداروں نے کوئی فرد گزاشت کو دوہرانے سے پرہیز کر رکھا ہے)۔ ان تمام انتخابات میں ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے جیتنے والی جماعت پر جو الزامات عائد کئے ان کا کوئی منطقی نتیجہ تو نہ نکلا البتہ ملک کی سیاسی فضا با رہا مکدر ہوئی۔بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ساتھ ٹمپرنگ کر کے جو مطلوبہ انتخابی نتائج بی جے پی کے حق میں حاصل کئے تھے و ہ پاکستان میں انسانی ذہنوں اور ہاتھوں نے اس کمال خوبی سے حاصل کئے کہ آج تک وہ کسی کے گرفت میں نہیں آسکے۔ستر کے بعد ہونے والے سن77میں ہونے والے عام انتخابات میں پی این اے نے دھاندلی کا شور و غلغلہ مچایا۔ پی این اے کی ایجی ٹیشن مارشل لاء کی آمد تک دھاندلی دھاندلی کرتی رہی اس کے بعد جب بھٹو دار پر لٹک گیا تو اس کے بعد خاموشی کی بکل مار کر لیٹ گئی۔
’’امیر المومنین‘‘جنرل ضیاء الحق نے سن 85میں انتخابات کو غیر جماعتی بنیادوں پر کروا کر جس دھاندلی کا مظاہر ہ کیا اس کی آج تک باز پرس نہیں ہو سکی کہ کس طرح اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ملک کو فرقہ واریت،لسانیت اور برادری ازم کے چنگل میں پھنسا دیا۔ 1988میں ہونے والے انتخابات میں پی پی پی کی ملک گیر مقبولیت کے باوجود ’’محبان وطن‘‘ نے اسے حد تک قابو میں رکھا کہ وہ معمولی سی اکثریت ہی حاصل کر پائی اس لئے اٹھارہ ماہ کے بعد اسے رخصت کر کے 1990میں ایسے انتخابات کا ڈو ل ڈالا گیا جس میں بے نظیر بھٹو جیسی سیکورٹی رسک کی بجائے نوا ز شریف کو ہی کامیاب بنانا تھا اس کے لئے اسامہ بن لادن نے ڈالروں کے تحفے بھیجے ہوں یا مہران بنک کے ذریعے ’’محبان وطن‘‘ میں شیرینی کی طرح لاکھوں کروڑوں روپوں کی بانٹے گئے ہوں۔
اصغر خان نے انصاف کی زنجیر ہلائی لیکن تاحال یہ زنجیر ان عناصر کو کسنے میں ناکام ہے جنہوں نے نوے کے انتخابات کو دھاندلی زدہ کیا تھا۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ 1997کے انتخابات میں پولنگ کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز راتوں رات اس طرح معتبر اور مقبول ٹھہری کہ دو تہائی اکثریت کی حقدار ٹھہری۔ سیدی مشرف کے دور آمریت میں 2002میں ہونے والے عام انتخابات تو اس ئے بھی سند قبولیت پا سکتے کہ وہ ایک آمر کے زیر سایہ منعقد ہوئے اور اگر اگر کسی کو پھر بھی ان میں سے جمہوریت کی خوشبو آتی ہے تو پھر اس دھاندلی زدہ الیکشن کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ پاکستان کی دو مقبول ترین سیاسی جماعتیں حزب اختلاف کی نشستوں پر بھی پچھلی بنچوں پر نظر آئیں چہ جائیکہ کہ انہیں اقتدار نصیب ہوتا۔ ان انتخابات کی فاتح قاف لیگ اب کہیں نظر آتی ہے اور نا ہی اتحاد ملت اسلامیہ کا علمبردار متحدمجلس عمل جو سب سے بڑی حزب اختلاف کی کلغی پگڑی پر سجائے پھولا نہ سماتا تھا۔
آج ہم دو ہزار سترہ میں زندہ ہیں لیکن دو ہزار تیرہ کے انتخابات کی گرد ابھی تک اڑ رہی ہے۔میاں نوا زشریف کی جماعت نے جو اکثریت حاصل کی اس پر عمران خان دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں اور آصف زرداری تو اسے آر اوز کا الیکشن کہہ کر دو حرف بھیجتے ہیں۔ اے این پی اسے حکیم اللہ محسود کی زیر نگرانی ہونے والا الیکشن قرار دیتے ہیں۔گزشتہ انتخابات پر لگنے والے ان الزامات نے اس سارے عرصے میں سیاسی حدت کو کم نہیں ہونے دیا۔آئندہ انتخابات وقت کی منازل کو پھلانگتے قریب سے قریب تر آرہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دوسرے مقتدر ادارے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو بے شک استعمال نہ کریں لیکن کسی ٹرک کے پیچھے لکھے ہوئے ان لفظی موتیوں کو ذہن نشین کر لیں’’نیت صاف ، منزل آسان‘‘ تو شاید پاکستان میں کبھی شفاف انتخابات کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔