(نورین شمس)
امریکی صدارتی انتخابات ۲۰۱۶ بھلے ہی کسی ایک ملک اور قوم کے الیکشن ہیں مگر تمام دنیا کے ممالک کے لیے توجہ مرکز ہیں۔ لیکن امریکی انتخابات سے میرا کچھ جذباتی رشتہ سا لگتا ہے۔ یہ بات بظاہر کچھ مزاحیہ لگتی ہے مگر کیا کریں۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ جب صحافت میں ایک ننھے مجاہد کی طرح ایک بڑے میڈیا گروپ کے ساتھ کام کا آغاز کیا تو جوش و ولولہ بہت زیادہ تھا۔ ہر طرف بکھری ہوئی معلومات کو اپنے ذہن میں قید کرنے کی ایک عجب جستجو سی ہوگئی تھی۔ سینیئرز یادہ تر اہم کام خود کرتے تھے اور مجھے سیکھنے اور مطالعہ کااچھا خاصہ وقت کا مل جاتا تھا۔
اسی دوران امریکا میں ۲۰۰۸ کے صدارتی انتخابات کو لے کر چرچا تھا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں اس قدر زیادہ ہوتا ہے اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب نہ صرف امریکی عوام نے بلکہ پوری دنیا نے دہشت گردی کے بھیانک واقعے اور اس کے سدِباب دیکھے تھے۔ جب امریکی چوتھے بڑے انویسٹمنٹ بینک لیھمن برادرز کا دیوالیہ نکل چکا تھا۔ امریکی عوام ملازمتوں کے مسائل سے گھری ہوئی تھی اور جب بجٹ کا بیشتر حصہ ’وار آن ٹیرارزم ‘ کی نذر ہوچکا تھا۔ صدر بش کے دورِحکومت نے فلاحی اور اندرونی مسائل سے زیادہ بیرونی جنگوں اور دوسرے ملکوں کی جنگوں کو بھی خود لڑنے کا بیڑہ اٹھا یا تھاایسے میں امریکی عوام ان تمام غلطیوں کا ازالہ اور ساتھ ساتھ اپنے مسائل کی طرف توجہ چاہتے تھے۔ دوسری اہم بات اس الیکشن کی یہ تھی کہ پہلی بارکوئی سیاہ فام شخص امریکہ کے صدارتی امیدوار کے طور پر ابھرا تھا۔ یہ بھی ایک تاریخی دور تھا۔
اگر امریکہ کی تاریخ میں نظرڈالی جائے تو سیاہ فام لوگوں کی جدوجہد اور اہم منصب تک سیاہ فام کا پہنچ جانا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ مگر تمام سربراہان ممالک میں امریکہ ہمیشہ جمہوری اقدار اور نئی روایت بنانے میں ایک رول ماڈل کا کردار ادا کرتا رہاہے۔ مگر صرف یہ نقطہ ہی اہم نہیں تھا۔ یہ سیاہ فام شخص باراک اوباما ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار تھا۔ لوگ ۸ سالہ بش کی دورحکومت پرکھ چکے تھے۔ امریکہ میں شخصی سوچ سے زیادہ مجموعی نظریہ اہم رکھتا ہے۔ اوباما اور انکی ڈیموکریٹک جماعت کا منشور عوامی مسائل کی بحالی تھی جو کہ ہر امریکی کی آواز تھی۔
ان کے برعکس ریپبلیکین کے جانب سے صدارتی امیدوار جان میکین تھے۔ ۲۰۰۸ کے انتخابات میں جان میکین کی وجہ شکست کچھ یہ تھی کہ وہ ایک غیر مقبول صدر سے خود کو دور اور ووٹروں کو اس بات پر قائل نہ کرسکے کہ وہ اقتصادی معاملات و حالات پر قابو پا سکتے ہیں اوران کی قیادت کر سکتے ہیں۔جبکہ ان کی انتخابی مہم میں ایک بڑی دلچسپ کن بات یہ تھی کہ جان مکین نے الاسکا کی گورنر سارہ پالن کو الیکشن سے تین ماہ پہلے اپنا نائب صدر نامزد کیاتھا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوتا کہ اگر ریپبلیکن پارٹی ان الیکشن میں کامیاب ہوتی تو کوئی خاتون نائب صدر بنتی۔سارہ پالن کی شخصیت متاثر کن تھی اور عالمی میڈیا میں اس کا کافی چرچا بھی رہا مگر ان کی مقبولیت ریپبلیکن پارٹی کے لیے ناکافی رہی اور امریکی عوام نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرکے بارک اوباما کو اپنا نیا کپتان منتخب کرلیااور یوں میں نے اسی جوش کے سا تھ اپنے سینیئرز کو یہ ہیڈلائن ترتیب کرکے دی۔
Dark Horse Wins the Race
یعنی سیاہ گھوڑا ریس جیت چکا تھا اور امریکی تاریخ کا پہلاسیاہ فام شخص امریکہ کا صدبن گیا۔
اب فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ چار سال گزرے دنیا تبدیلی کے کئی منازل طے کرچکی تھی۔ ٹوئٹر ،فیس بک، وٹس ایپ اور سیلفی دنیا میں نہ صرف متعارف ہوچکے تھے بلکہ تیزی سے مقبول بھی ہورہے تھے۔ دنیا اور بالخصوص امریکہ کو شدت سے جس اوسامہ بن لادن کی تلاش تھی اس کا بھی ۲۰۱۱ میں خاتمہ ہوچکا تھا اور یہ اوبامہ کی دورِحکومت کی بہت بڑی کامیابی تھی جو کہ ان کی ۲۰۱۲ کی انتخابی مہم کے لیے ایک خوش آئند ثابت ہوئی۔
میری صحافتی زندگی کی گاڑی بھی کچھ زیادہ ہی تیز گیئر میں تھی۔ ۲۰۱۲ میں امریکی الیکشن سے ایک مہینے قبل ہی امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا پروگرام برائے جرنلسٹس کے تحت ایک فیلوشپ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ۲۴ سالہ خاتون صحافی ہونے کے ناطے میرے لیے ایک بڑے اعزاز کی بات تھی جس کو حاصل کرنے کے لیے چار سال میں آٹھ سال جیسی محنت ،صحافتی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے حصولِ علم بھی شامل تھا۔ دوسری اہم بات یہ وقت تھا جہاں مجھے یہ موقع ملا کہ میں جمہوریت کے چیمپیئن امریکہ میں انتخابات کو قریب سے دیکھ سکوں اور اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ وہ بھی امریکہ اور عالمی دنیا کے بڑے میڈیا نیٹ ورک سی این این سے منسلک ہوکر۔
سی این این ہیڈ کوارٹرز خبر کی دنیا کی ایک ایسی عجب نگری ہے جیسے ہیری پوٹرز سریز میں ہوگوارٹس اسکول کی جادوئی دنیا۔ ہر شخص اپنے کام اور خبر میں ایسے مگن اور گم ہے کہ غیر ضروری بات کرنے کا خیال ہی شاید کسی کو آتا ہواور جب وقت ہو امریکی انتخابات کا تو ہرکوئی بس اسی کا راگ الاپتے نظر آتا تھا۔ صرف سی این این یا صحافی ہی نہیں بلکہ ہر کیفے، ہر ٹیکسی ڈرائیور جس سے بات ہوتی وہ الیکشن کے حوالے سے اپنے موقف کا اظہار کرتا۔
میرا زیادہ عرصہ ریاست جارجیا میں گزرا۔جو کہ ریپبلیکین پارٹی کی ریاست کہلائی جاتی ہے۔ 2000 اور 2004 میں سابق صدر جارج بش واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔پھر 2008 کے انتخابات میں اوبامہ بھلے ہی صدر منتخب ہوئے مگر اس ریاست نے جان مکین کو ہی پانچ پوائنٹس سے کامیابی دلوائی اور 2012 میں بھی جارجیا ریاست نے ریپبلیکن کے حق میں فیصلہ دے کے مٹ رومنی کو اوبامہ کے مقابلے میں برتری دلوائی۔
ریپبلیکین پارٹی جو کہ کنزرویٹو پارٹی کہلاتی ہے جبکہ ڈیموکریٹس لبرل اور ہر طبقے کی جماعت پر مشتمل ہے۔ جارجیا کے کچھ آزاد خیال اور ورکنگ کلاس سے ملاقات کے بات جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ وہ گزشتہ چار سالہ اوبامہ دورِحکومت سے مطمئن ہیں اور اس بات کو سمجھتے ہیں کہ صدر بش کی پالیسیوں کا تدارک اور حل صرف چار سالوں میں نہیں نکل سکتا اس لیے صدر اوبامہ کو مزید وقت دینے کہ حامی ہیں۔ ایک اہم نکتہ صدر باراک اوبامہ اور ان کے مد ِمقابل مٹ رومنی کا موازنہ بھی اہم تھا۔ بض لوگوں کا کہنا تھا کہ ایک امیرکاروباری شخص ہر طبقے کے مسائل اور ضروریا ت کوسمجھنے کا اہل نہیں ہے۔
یہ ایک اہم وجہ تھی لیکن کئی دوسری اہم وجوہات جیسے کہ ا چھا خاصہ تارکینِ وطن پر مشتمل گروہ جس میں لاطینی امریکی،افریقی امریکی، مسلمان امریکی، نوجوان نسل اور غیر شادی شدہ خواتین کا نمایاں حصہ اوبامہ کا حامی قرار پایا جس کی وجہ ڈیموکریٹ پارٹی کی امیگریشن کے مسائل، اسقاطِ حمل، رنگ ونسل سے بلا امتیاز اور اقلیتوں کے مسائل کے منصفانہ حل کے لیے عزم مقبولیت کی اہم وجہ بنا۔
تیسری وجہ جسے کچھ تجزیہ نگار قدرتی آفت ’سینڈی طوفان ‘ کوبھی ٹھہراتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے فلوریڈا، ورجینیا اور کولوراڈو میں طوفان نے کافی تباہی مچائی جس کی وجہ سے صدر اوبامہ کا قوم کو ویڈیو پیغام اور اس کی ٹائمنگ ان کی مہم کے لیے کارآمد ثابت ہوئی اور جن علاقوں میں طوفان سے تباہی ہوئی تھی وہاں ریپبلیکن پارٹی کے لئے یہ ایک مزید دھچکا ثابت ہوا۔ طوفان سینڈی سے میں بھی بارشوں اور ٹھنڈک سے متاثر ہوئی۔ کراچی میں رہتے ہوئے ٹھنڈک اور سردی مجھے رابرٹ فراسٹ کی نظموں کی طرح صر ف فرضی لگتی تھیں۔ اصل سردی کیسی ہوتی ہے اس کا تجربہ بھی مجھے سات سمندر پار امریکہ میں ہوا۔ بہرحال جہاں میری امریکی یاترا اختتا م پذیر ہوئی وہیں امریکی عوام نے صدر اوبامہ کو وائٹ ہاؤس کی چابی مزید چار سال کے لیے پھر سے۔
اب بیانیے میں ایک اور جست بھرتے ہیں۔ موجودہ الیکشن کی طرف آتے ہیں۔ 2016 ہے۔ وقت بہت بدل چکا ہے اور تیزی سے بدل رہا ہے۔ اس وقت اس تحریر کو لکھتے لکھتے ہی نہ جانے کتنی خبریں تابڑ توڑ سوشل میڈیا پر موضوع گفتگو ہوگئی ہونگی۔ یہ وقت تبدیلی کا ہے۔ مگر یہ تبدیلی پاکستان کی کسی جماعت سے منسوب کسی نعرہ کا ہر گز شبہ معلوم نہیں ہونا چاہئے۔ یہ تبدیلی عالمی سیاست اور اس وقت کے سب سے بڑے چیلنج دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور اس کا سبب داعش ہے۔ مغربی دنیا کا دشمن طالبان سے ہو کر داعش کا روپ دھار چکاہے اور ایسے میں پھر سے امریکی عوام اپنے مستقبل اور گورننس کی باگ ڈور کے لئے رہنما کے چناؤ کے لیے سرگرم ہے۔
ہم بھی اب پہلے سے کچھ زیادہ ہوشیار اورکچھ اپنے ہم عصر سینئر، پروڈیوسرز، سینئر اینکرز، سینئر رپورٹر اور سینئر یہ سینئر وہ کی طرح کچھ عقل سے پیدل ہوکر ہر بات پر تجزیہ نگاری کرنے لگے ہیں۔ اس کا سر چشمہ سرا سر ہماری سوشل میڈیا کی ٹریننگ ہے جو ہم نے کبھی نہیں لی۔
تو 2015 سے ایک ریڈیو پروگرام میں بین الااقوامی دنیا میں کیا کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے اس کا تبصرہ کررہی ہوں اور گہری نظر رکھتے ہوئے امریکی انتخابات کے پرائمری انتخابات سے لے کر آج آخری اور فائنل مباحثے کا بھی بغور جائزہ لیا۔ وہاں کچھ کیا ہورہا ہے اور ہوتا رہا ہے اس کی دلچسپی کا اندازہ سوشل میڈیا سے لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر پاکستانی بھی اتنے ہی جوش وخروش سے تبصرہ کررہے ہیں کہ بس چلے تو ۸ نومبر کو آن لائن ووٹ ڈال سکیں۔
خیر اس دفعہ کے الیکشن میرے پچھلے دو تجربوں سے کافی مختلف ہیں۔ شروع ہی سے ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور ان کی انتخابی مہم متنازع رہی ہے جبکہ دوسری طرف امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون امیدوار اور وہ بھی سابقہ خاتونِ اول اور ساتھ ساتھ باراک اوبامہ کے دورِحکومت میں سیکرٹری اسٹیٹ رہنے والی ہیلری کلنٹن ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیں۔
ماضی میں خواتین کے بارے میں توہین آمیز جنسی گفتگو اور سلوک کے ثبوت سا منے آنے پر ٹرمپ کی مقبولیت اور انتخابی مہم کو کافی نقصان پہنچا ہے مگر پھر بھی وہ اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ کو یہ تمام واقعات ہونے کے باوجود کٹر مذہبی عوام کی حمایت حاصل ہے۔
پہلی بار معتبر ریپبلکن قائدین بھی اپنی جماعت کے امیدوار سے لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں۔ گو کہ ہیلری کی عوامی مقبولیت کاگراف ٹرمپ سے بہت آگے ہیں مگر سخت مقابلہ کی ریاستیں اب بھی ٹرمپ کیلئے امید کا سہارا ہیں۔
سخت مقابلے والی ریاستوں کو سوئنگ اسٹیٹس کہا جاتا ہے۔ جیسے کہ جارجیا ریاست ری پبلکن کی حمایتی ہے یا نیویارک جوکہ امریکہ معاشی انجن ہے ڈیموکریٹ کو ہی منتخب کرتا ہے۔ اسی طرح کچھ ریاستیں ایسی ہیں جن کو سیاسی دنگل کا اصل میدان تصور کیا جاتاہے جس میں
کولوراڈو، فلوریڈا، آئیووا، مشی گن، نیواڈا، نیو ہیمپشائر، شمالی کیرولائنا، اوہائیو، پینسلوانیا، ورجینیا اور وسکونسن وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں سوئنگ ریاستیں کہاجاتاہے۔ اب بھی ان ریاستوں کا نتیجہ ہیلری یا ٹرمپ کی کامیابی پر اثر ڈال سکتا ہے۔ بہرحال صدر وہی منتخب ہو گا جو 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 ووٹ حاصل کرے گا۔
اس پوری صورتحال میں یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کے حق میں کون سا امیدوار بہتر ہے۔ تاہم، جنوبی ایشیا میں، دونوں میں سے کسی کے بھی جیتنے کا بہت کم فرق پڑتا ہے۔ بھارت کے معاملے میں، مثال کے طور پر، دونوں امیدواروں نے نئی دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات کی حمایت کی ہے۔ پاکستان کے لیے بھی، ٹرمپ یا کلنٹن کی جیت سے کوئی واضح فرق نہیں پڑتا مگر اس کے برعکس، کلنٹن اور ٹرمپ دونوں نے گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور ملک کی طرف ایک سخت اقدام لینے کا بھی امکان ظاہر کیاہے۔
ٹرمپ کی بات کی جائے تو مئی میں فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں افغانستان میں رہ کر نہ صرف پاکستان پر گہری نظر رکھنے کو ترجیح دیں گے بلکہ۲۰۱۱سے نظربند شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے بھی انتظام کرنے کے خواہاں ہیں۔ٹرمپ کے برعکس، ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے اور امریکی شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ موجودہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے حق میں بات کی۔
مگر جیسے اس خطے کی صورتحال میں تبدیلی رونما ہوتی نظر آرہی ہے۔ وہیں صدر منتخب ہونے کی صورت، کلنٹن شاید پاکستان کے حوالے سے ایک مشکل تعاون ثابت ہوں خاص طور پر جب امریکہ کو پاکستا ن کے اب بھی دہشت گرد گروپوں کے ساتھ روابط کے خدشات لاحق ہوں۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات یقینی طور پر تبدیلی کے مراحل سے گزر رہے ہیں اور شاید اگلے امریکی صدر کی قیادت میں مسلسل مایوس کن نتائج کی روشنی میں تعلقات مزید تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔