(نصیر احمد)
دلا مرو چنیں از دست
کہ روزن امیدی ہست
اے دل ہمت نہ ہار کہ ابھی امید کا روزن کھلا ہے۔ چلی کے آمر پنوشے نے بھی دیگر کئی آمروں کی طرح مزدور گاہیں تعمیر کر رکھی تھیں۔ ان میں سیاسی اور معاشرتی مخالفین کے ساتھ بہت سارے غریب مشقتیں کرتے، جھڑکیاں کھاتے اور جسمانی تشدد سہتے تھے۔ پنوشے کے زوال کے بعد جب ان کی رہائی ہوئی تو کسی نے پوچھا کہ ان مزدور گاہوں میں بے کسی کے دن کیسے گزرتے تھے؟ ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ستاروں کو دیکھتے تھے اور ستاروں کی مدد سے گھر کی سمت کا اندازہ کرتے تھے اور امید کرتے تھے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح گھر پہنچ جائیں گے۔
انسانیت کے بدترین زوال کے دنوں میں امید زندہ رکھنے کے واقعات زندگی سے محبت کی ایسی تصدیق ہیں کہ انسانوں کی زندگی سے محبت کے اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔ کبھی معبود کی شبیہیں امید زندہ رکھتی ہیں۔ کبھی اپنے پسندیدہ گانے شب ظلمت میں دلداری کرتے ہیں۔ کبھی مصوری، کبھی
شاعری، کبھی خلق کی خدمت اور کبھی ملاقات کی آرزو اور کبھی زندانوں سے رہائی کی جستجو۔ کبھی خبر پہنچتی ہے کہ بیریا کسی تعفن گاہ میں سر کے بل گرا ہے، تو امید بندھ جاتی ہے۔ کبھی کوئی گیرنگ حقائق سامنے آنے پر آئیں بائیں شائیں کرتا ہے تو سچ کی بحالی اور بقا کی
امید کی کچھ مسیحائی ہو جاتی ہے۔ کبھی کاغذات کے پلندے اور ماہر وکلا امید کے پاسبان بن جاتے ہیں اور کبھی عقوبت گاہوں کے احوال لکھنے والے مصنف امید کا معالج بن جاتے ہیں۔ اور کبھی وہ فلسفی جن پر پردے کا پار کا سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے امید کی طبابت کرتے ہیں۔ اور
کبھی وہ شاعر جو احساسات اور حقائق کے ساتھ کچھ ایسے تخلیقی تجربے کرتے ہیں جو امید کے لیے راہیں اجاگر کردیتے ہیں۔
ہو سکتا ہے ہم غلط ہوں لیکن ہمارے اندازے میں امید کے اکثر و بیشتر پہلو زندگی سے محبت سے منسلک ہیں۔ اور امید کو موت سے مربوط کر دینا آپ کو انسانیت کے بدترین زوال سے منسلک کر دیتا ہے۔ اور آمرانہ نظریات امید کو موت سے منسلک کرتے ہیں اس لیے جب بھی ان پر عمل کیا
جاتا ہے، وہ انسانیت کے بدترین زوال کا سبب بن جاتے ہیں۔چاہے وہ ناٹزیوں کی حیاتی جگہ (لونگ سپیس) ہو یا ملکیوں کی تزویراتی گہرائی( سٹریٹیجک ڈیپتھ) یا دہشت گردوں کی فردوس، ایسی صورت میں امید زندگی سے شدید نفرت کے لیے ایک اچھا نام بن جاتی ہے۔
ان نظریات کی امید کش بے رحمی اس وقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے، جب یہ فرد کی تحقیر و تذلیل کے ارد گرد بہترین معاشرہ تعمیر کرنے کے منطقی مغالطے کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن شور وغل کا اپنا ایک نشہ ہے جس میں جو آوازیں سننے لائق ہوتی ہیں، وہ دب جاتی ہیں اور ہم احمق
امید کے قتل کا جشن مناتے پائے جاتے ہیں۔
کہنے کا مقصد ہے یہ جو حادثوں میں، دہشت گردوں کے حملوں میں، افواج کے مظالم کا شکار ہو کر، عدالت کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں، رہنماؤں کی نالائقیوں کے ستم رسیدہ ہو کر، معلموں اور پیشواؤں کی نخوت میں جل کر مرتے ہیں، ان کی موت کے پیچھے زندگی سے محبت کی عدم موجودگی ایک اہم وجہ ہے اور افراد میں زندگی سے محبت کی عدم موجودگی امید پر مبنی ایک معاشرہ نہیں ترتیب دے سکتی۔
زندگی سے محبت کا رشتہ قائم کرنے کے لیے جہالت سے محبت ترک کرنی پڑتی ہے اور جہالت سے محبت ہی انسانیت کے بدترین زوال کی شہادت ہے۔ اور اس بدترین زوال میں امید کی بقا ہمارا فرض ہے لیکن یہ بہت اچھا ہو گا اگر ہم سے بعد آنے والے انسانیت کے بدترین زوال سے نہ نبرد آزما
ہوں۔ بلکہ ایک اچھی زندگی کی امید کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جدو جہد کر رہے ہوں۔ یہ چاروں سو لٹیروں کی گھات چھوڑ کے مر جا نا تو ایک بد ترین ثقافتی ورثہ ہو گا۔ کیا خیال ہے؟