امیرخسرو کی جمالیات
(شکیل الرّحمٰن)
امیرخسرو کا تصوّر کیجیے محسوس ہو گا جیسے غالبؔ کے جلوۂ صد رنگ کی معنویت واضح ہوتی جا رہی ہے۔
ایک شخصیت میں اتنے جلوؤں کا سمٹ آنا یقیناً غیر معمولی بات ہے۔ دُنیا کی تاریخ میں بڑے دانشوروں کی کمی نہیں لیکن بہت کم سوچنے والوں اور دانشوروں کی شخصیتیں ایسی ہیں کہ جن کی اتنی جہتیں ایک ساتھ ظاہر ہوئی ہوں۔ اپنی شخصیت کا اظہار اتنی شدّت سے دُنیا کے بہت کم دانشوروں اور فنکاروں نے کیا ہے۔ جب بھی امیرخسرو کے متعلّق سوچتا ہوں ایک ایسے اساطیری پیکر کا تصوّر پیدا ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ اپنے جانے کتنے پَر کھولتا ہے، ایک پَر کھلتا ہے اور جلوہ تمثالِ ذات اور جلوۂ تمثالِ خیال کی ایک دُنیا نظر آنے لگتی ہے۔
امیرخسرو بلاشبہ ایک بڑے جینیس (Genius) تھے ایک جینیس، اپنے عہد کی اعلیٰ قدروں کی آمیزش اور عمدہ روایات کے شعور کا معنی خیز اشارہ بن جاتا ہے۔ اس کی شخصیت تہذیبی واقعات اور خوبصورت تاریخی اور ثقافتی حادثات کے مطالعے کا موضوع بن جاتی ہے، آپ چاہیں تو اس کی شخصیت، اُس کی فکر و نظر اور اس کی تخلیقات سے زمانے کو پڑھ لیں یا زمانے سے اُس کی شخصیت کا مطالعہ کریں اُس کے افکار و خیالات کا تجزیہ کریں اور اُس کی تخلیقات کا جائزہ لیں، ایک بڑی سچائی یہ بھی ہے کہ وقت اور زمانے کے ساتھ اُس کی شخصیت بھی عہد کے بعض اہم ترین رجحانات، واقعات اور خوبصورت حادثات کی تخلیق و تشکیل میں حصہ لیتے ہیں۔
تمدنی اقدار و روایات کے نئے احساس سے ایک جینیس صرف اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نہیں اُبھارتا، ان کی ترکیب اور آمیزش میں حصّہ لے کر ان کی نئی صورتوں کا خالق اور ان کی علامت بن جاتا ہے اعلیٰ اور عمدہ روایات کا رَس پی کر اور موجود تہذیبی قدروں کی آمیزش میں ایک بڑے فنکار کی طرح حصہ لے کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے اور—
جب یہ کہتا ہے۔
’روشنی!‘
تو واقعی روشنی ہو جاتی ہے!
جینیس وہ ہے کہ جس کی شخصیت میں تہذیب و تمدّن کی اعلیٰ قدروں کی ایسی ترکیب اور آمیزش ہو کہ اُن کی عمدہ اور عمدہ ترین صورتیں اُجاگر ہو جائیں، قدریں جلوہ بن جائیں خود اُس کی شخصیت ان جلوؤں کا آئینہ ہو۔
امیرخسرو کی شخصیت، ہندوستانی اور عجمی (وسط ایشیائی + ترکی + عربی+ عجمی) قدروں کی آمیزش کے جلوؤں کو پیش کرتی ہے، خود اُن کی شخصیت ہندی اور عجمی قدروں کی اعلیٰ تر صورتوں کا آئینہ نظر آتی ہے، انھوں نے موجود تہذیبی قدروں اور روایتوں کے نئے احساس سے اپنی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کو شدّت سے اُبھارا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ ان کی ترکیب اور آمیزش میں نمایاں حصہ لے کر ان کی نئی صورتوں کے خالق اور ان کی علامت بھی بن گئے!
امیرخسرو نے کلاسیکی روایات کا رَس پیا تھا اور جو یہ رَس پی لیتا ہے اُس کی شخصیت فعال بن جاتی ہے، آپ چاہیں تو اُن کی شخصیت سے اُن کے زمانے کو پڑھ سکتے ہیں اور عجمی ہندی عمدہ قدروں کی آمیزش کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں لہٰذا امیرخسرو کے متعلق سوچنا ہندوستانی تہذیب کی اُس روح کے متعلق سوچنا ہے جو ترکیب و آمیزش کے بعد مشترکہ تہذیب کی روشن ترین صورت ہے۔
اعلیٰ ذہن، تجربوں کی بہتر روشنیوں اور تجربوں کے سرچشمے اور ماحول اور معاشرے کا نتیجہ ہے، پھیلے ہوئے اور تہہ دار اجتماعی یا نسلی لاشعور کی وجہ سے بعض ذہن تجربوں کی بہتر روشنی پینے اور روایات اور تجربات کے سرچشمے اور معاشرے کی اعلیٰ اقدار سے فیض یاب ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور اپنے ذہنی عمل اور اپنے تجربوں سے ایک ساتھ کئی عہد میں منفرد نظر آتے ہیں۔
۱۲۵۳ء سے ۱۳۲۵ء کے درمیان تہذیبی قدروں کی آمیزش سے جو فضا بنی تھی اُس میں صدیوں کے تجربوں کی روشنی تھی اور اس کی تشکیل میں اَن گنت نسلوں کے افراد کے خونِ جگر سے چراغ روشن تھے، امیرخسرو کے پھیلے ہوئے اور تہہ دار اجتماعی لاشعور اور ان کے تخلیقی ذہن سے ان میں سے بیشتر نوری لکیریں ٹکراتی رہی ہیں، کسی عہد میں تہذیبی اور ثقافتی قدروں کا بہاؤ محض خاموش بہتی ہوئی ندی کا بہاؤ نہیں ہوتا اس میں اُتار چڑھاؤ ہوتے ہیں، اُبھرنے کا رجحان ہوتا ہے پھسلنے اور نیچے گرنے کی کیفیت ہوتی ہے، دُہرانے کا عمل ہوتا ہے۔ تسلسل میں یکسانیت بھی ہوتی ہے، رکاوٹیں بھی آتی ہیں، ایک جینیس تجربوں کی اس دُنیا میں ان کا شعور حاصل کرتا ہے اور اپنے تخلیقی ذہن سے اُن کی نئی صورت بھی خلق کرتا ہے۔ اس عمل میں اس کی شخصیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے، ترکیب اور آمیزش کے انفرادی تخلیقی عمل کے پیچھے کئی نسلوں کے تجربے ہوتے ہیں، انفرادی تخلیقی عمل سے ان تجربوں کی ایک نئی اور بہتر صورت اُبھرتی ہے اور جینیس صدیوں کے تجربوں کی علامت کی صورت پہچانا جاتا ہے۔
امیرخسرو کا مطالعہ اسی سچائی کے پیشِ نظر کرنا چاہیے، اُن کی شخصیت اعلیٰ قدروں کی آمیزش کا خوبصورت نمونہ ہے اور ان کی تخلیقات اس آمیزش کی عمدہ مثالیں ہیں۔