امیرخسرو کی ’ہیومنزم‘
(شکیل الرّحمٰن)
امیرخسرو کی ’ہیومنزم‘ ایک مثبت رجحان ہے، کون سا عقیدہ درست ہے اور کون سا غلط،کوئی بھی شخص وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا، حقیقت یا سچائی کی بنیادی صورت اور فطرت کے متعلق فیصلہ نہیں کرسکتے، مختلف عقائد اور نظریات ہیں اور ہوسکتے ہیں، اس مثبت رجحان کے مطابق ایک بڑی سچائی زندگی ہے، یہ ہے اور ہم اسے بسر کرتے ہیں لہٰذا اس زندگی کو آگے بڑھانے، نکھارنے اور اسے زیادہ سے زیادہ حسین اور خوبصورت بنانے کی کوشش ضروری ہے۔ مشائخِ چشت کی روایات میں یہ ’ہیومنزم‘ یا انسان دوستی، یہ محبت اور یہ عشق بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ احتجاج بھی ہے اور انسان کے لہو کے رنگ کی پہچان کا خوب صورت تجربہ بھی۔ اس مثبت رجحان نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ دنیا اور یہ زندگی ہماری بنیادی دلچسپی کا مرکز ہے اور ’ہیومنزم‘ ہمارا نصب العین یا آئیڈیل ہے۔ انسان اور انسان کے باہمی رشتوں کی ہم آہنگی ’ہیومنزم‘ کا تقاضا ہے۔ اللہ کا جلوہ ہر شخص میں ودیعت ہے۔ اس جلوے سے رشتہ قائم کرنا خالق سے رشتہ قائم کرنا ہے۔ انسان سب سے بڑی قوم ہے انسانیت جو عشق و محبت کی صورت جلوہ گر ہوتی ہے اس قوم کی زندگی ہے۔ اس رجحان سے وہ ’تیبوز‘ (Taboos) ٹوٹ سکتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ہماری رگوں سے لہو جاری ہوتا رہتا ہے۔ اخلاقیات کی سب سے بہتر بنیاد ’ہیومنزم‘ ہی ہوسکتی ہے۔ امیرخسرو کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے اس حقیقت کی پہچان ہو جاتی ہے کہ ’ہیومنزم‘ کے تصوّر میں توازن ہے، وہ داخلی موزونیت یا ’ہارمونی‘ کو ضروری جانتے ہیں۔ ہزار برس پہلے چین کے معروف مفکّر اور دانشور کنفیوسیش (Confucius) نے اس رجحان کو بڑی شدّت سے نمایاں کیا تھا اُس نے کہا تھا انسان کا وجود ایک بہت بڑی حقیقت اور سچائی ہے انسان اور انسان کے متوازن رشتوں سے اس حقیقت یا سچائی کا جوہر ظاہر ہوتا ہے۔ امیرخسرو نے بھی انسانی رشتوں اور انسانی قدروں کی اہمیت کا احساس دیا ہے، ’انسانی قدریں‘، ’ہیومنزم‘ میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں، انسان ہونے کا احساس و شعور اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ رشتوں کا احساس نہ ہو۔ انسان کی بنیادی خواہشوں یا بنیادی جبلّتوں میں ایک جبلّت یہ ہے کہ دوسروں سے خوبصورت رشتے قائم ہوں۔ امیرخسرو رشتوں کا احترام کرتے ہیں۔ اُن کا جمالیاتی شعور حسن کو ٹٹول لیتا ہے اور جمالِ زندگی کی وحدت کو عزیز جانتا ہے۔ کلامِ خسرو میں فنکار کا ذہن اعلیٰ اور عمدہ قدروں کی تلاش میں سرگرداں ہے، حسن اور وحدتِ حسن کی تلاش ہی زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ حسن اور وحدتِ حسن ہی میں سب کچھ ہے۔ عشقِ حسن کا معاملہ ہے:
کافر عشقم مسلمانی مراد کار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ حاجتِ زنّار نیست
یعنی میں عشق کا مارا کافر، مجھے مسلمانی کی بھلا کیا ضرورت، میری ہر رگ تار بن گئی ہے مجھے زنّار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
انسان وجودِ کل کے حسن کا حصّہ ہے، اپنے حسن کا عاشق، امیرخسرو کہتے ہیں میں نہ گل ہوں اور نہ بلبل، نہ شمع نہ پروانہ، اپنے حسن کا عاشق اور دیوانہ ہوں،میرا وجود بھی دراصل حصّہ ہے وجودِ کل کے حسن کا:
نے گلم نے بُلبُلم نے شمع نے پروانہ ام
عاشقِ حسنِ خودم بر حسنِ خود دیوانہ ام
قبلہ ہو یا بت کدہ ہر جگہ محبوب کا عشق میرے ساتھ رہتا ہے، دوست کے عاشقوں کو بھلا کفر و ایماں سے کیا سروکار:
ما و عشقِ یار اگر در قبلہ گر درِ بت کدہ
عاشقانِ دوست را با کفر و ایماں کارنیست
سیاہ رنگ کو تو آنکھوں میں جگہ دی گئی ہے اور آنکھ کی پتلی میں تو ہر فرد سیاہ ہی دکھائی دیتا ہے، سیاہ رنگ پر طعنہ زن کیوں ہو۔ اس رنگ میں (ہندوستانیوں کے سیاہ رنگ میں) آبِ حیات (چشمۂ ظلمات یا بحرِ ظلمت— سیاہی کا دریا یا چشمہ) کی آمیزش ہے:
سیہ را خود بدیدہ جانگاہ است
کہ اندر دیدہ ہم مردم سیاہ است
ہندرا اے مدعی طعنہ بہ تاریکی مزن
زانکہ اندر ظلمتِ اوآبِ حیواں مدغم است
(دول رانی خضر خاں)
کہتے ہیں: با کہ دمہ صحبت از انساں گزیں
یعنی میل جول اور محبت اور دوستی سے عقل بڑھتی ہے، تجربہ وسیع ہوتا ہے۔
خسرو کعبہ میں ہو یا بت خانہ میں، ہر جگہ اس کا دل تیرے دَر پر رہتا ہے، تیری دیوار دل میں بسی ہوتی ہے:
دَر کعبہ و بت خانہ ہر جا کہ رود خسرو
دل بادرِ تو بدخودیوار ہماں در دل!
اور تیرے چہرے کے ہزار نام ہیں:
یک روئے ترا ہزار نام است