قاسم یعقوب
دہشت گردی کیا ہے اور دہشت گرد کس طرح سماج کے طے شدہ رویوں سے بغاوت پر اترتا ہے اور ایک ایسا عمل کر گزرتا ہے جو پورے سماج کو ناقبول ہوتا ہے یا سماج کے لیے نقصان زدہ ثابت ہوتا ہے؟ یہ سوال دہشت گردی کو سمجھنے سے زیادہ دہشت گرد پر اثرانداز ہونے والے اثرات (influences)کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔دہشت گرد سوچ انتہا پسند فکر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ایسی سوچ سماجی قوانین سے خود کوغیر مطمعن اوردوسرے کے حوالے سے خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے۔دہشت گرد کی سماجیات بنیادی طور پرا خلاقیات سے اشیا کو دیکھتی اور ماپتی ہے جہاں سے وہ سماج میں تفریق یا عدم استحقام پاتا ہے۔یہ اخلاقیات، مذہبی ایتھکس کہلاتی ہے۔دہشت گردسوچ ثقافتی (Cultured)نہیں ہوتی۔ کلچر چوں کہ دیر پا ہوتا ہے اور زندگی آموز حرکیات کا فروغ چاہتا ہے اس لیے ایسے افراد ثقافتی عملیات(Cutural Practices)سے دور بھاگتے ہیں۔
دہشت گر کیوں بنتا ہے؟یہ سوال فرد کی نفسیات کو کھوجتا ہے۔فرد کی نفسیات سماجی سطح پر بہت سی اشیا سے متاثر ہو رہی ہوتی ہے۔جس میں مذہبی تقاریر، واعظ، اور جہادی ترانے عوامی سطح پر متاثر کرنے والے سورسز ہیں۔ تعلیم کی سطح پر نصاب اور استاد کا رویہ بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔دیکھنا یہ ہوگا کہ نصاب میں ایسا کیا مواد ہے جو انتہا پسند یاسماجی اخلاقیات سے روگردانی کا سبق دے کے بچے کی نفسیات کو الگ سے سوچنے پر مائل کرتا ہے۔عوامی سطح پر رائے عامہ(Public Pool) بھی ایک فرد کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ رائے عامہ میں رائج تعلیمات ایک فرد کی پوری نفسیات کی تشکیل کرتی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔رائے عامہ اگر انتہا پسند رویوں کے خلاف ہے تو نصاب اور استاد کا منفی رویہ بھی ناکام ہو سکتا ہے ۔ بچہ قبول کرتے ہوئے ہچکچائے گا۔ اسی طرح جہادی مواد یا لٹریچر کی عوامی سطح پر نمائش یا تزئین رائے عامہ کے خلاف ہے تو فرد اُس کے جال میں جلدی نہیں آئے گا بلکہ نفرت کاا ظہار کرے گا۔
رائے عامہ کس طرح عوامی نفسیات کو متعین کرتی ہے اس کی ایک جھلک ڈاکٹر طارق رحمان نے اپنے ایک آرٹیکل ’’حکایتوں کا جال‘‘ میں پیش کی ہے۔ آپ بھی چند حکایتیں سنیے:
۱۔ ’’امریکہ ہمارے جوہری ہتھیاروں پر قابض ہونا چاہتا ہے اور طالبان کے ذریعے پاکستان میں انتشار پھیلا رہا ہے۔
۲۔ پاکستان میں وہی کچھ ہوتا ہے جو امریکہ چاہتا ہے۔
۳۔ طالبان ملک میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن ان کا طریقۂ جہاد غلط ہے۔
۴۔ اگر نیٹو افواج افغانستان سے چلی جائیں تو امن قائم ہو جائے گا۔
۵۔ غربت اور جہالت کی وجہ سے اسلامی عسکریت پسندی پیدا ہوئی ہے۔ ‘‘(شدت پسندی ، چنداہم فکری زاویے، ص۷)
آپ دیکھیے یہ صرف رائے عامہ نہیں بلکہ ہماری اجتماعی نفسیات کا مجموعہ بھی ہے۔ پوری قوم نے اس بیانیے (Pro Taliban Narrative)کو تشکیل کیا تھا ۔یہ رائے عامہ ہے جو مختلف اطراف سے سماجی سوچ کو متعین کرتی اور ایک فلسفے کو تشکیل دیتی رہی ہے۔پاکستانی قوم اس حوالے سے بے حد انتشار کا شکار رہی ہے ۔ عوامی رائے کو بنانے اور بدلنے میں مقتدرہ کا بہت ہاتھ رہا ۔ مقتدر قوتیں جو بظاہر نظر نہیں آتیں سماجی سوچ کو متعین کرتی ہیں۔ اب رائے عامہ انتہا پسندی کے خلاف ہے۔ مگر آج بھی کسی نہ کسی طرح انتہا پسند فکر کا ورود جاری ہے۔
پچھلے دنوں مجھے اسلامیات اختیاری جماعت نہم کی ایک کتاب دیکھنے کا موقع ملا جس میں جہاد کے تصور کو ابھارا گیا تھا۔ سو شکر کے اس قسم کے اسباق دیگر اسلامیات(لازمی) کی سکول کتب میں نہیں ہیں۔ مگر اس تصور کو اسلامیات اختیاری کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا؟ یہ سوال بہر حال اپنی اہمیت رکھتا ہے۔
جہاد کا تصور اور اس کے سماج پر اثرات ایک وسیع موضوع ہے۔ سوال یہ نہیں کہ جہاد کا اصل تصور کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ایک نہم جماعت کا بچہ جس کی حد عمر ۱۴ سال ہوتی ہے وہ ان تصورات کو کس طرح لے گا۔ کیا اُس کے تصورات میں شدت پسند فکر پروان چڑھے گی یا فکری علوم کی بحث جنم لے گی۔ اسلام میں تصورِ جہاد اور نبی پاکﷺ کے غزوات کو ایم اے کی سطح پر الگ سے پڑھایا جاتا ہے اور وہاں ان علوم یا مباحث کو پڑھایا جانا عین ضروری بھی ہے تاکہ طالب علم ان موضوعات پر سیر حاصل بحث کر لے۔اور اپنے موقف کو بنا سکے اور سماج کے سوالات کا جواب دے سکے۔مگر چودہ سال کے بچے کو ان تعلیمات سے شدت پسند بنانے کے کیا مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں!!!کتاب کے صفحہ ۶۸ پہ جہاد کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے، لکھا گیا ہے:
’’پوری زندگی میں اسلام کی سربلندی کی خاطر جان ومال دینا اور طاقت کے مطابق دشمنانِ دین کے مقابلے کے لیے تیاری کرناجہاد ہے ۔‘‘
یہاں نفسیاتی سطح پر بچے کو مشدد کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ دشمنانِ دین کے خلاف جنگ کی تیاری کرتے رہنا۔ اب وہ بچہ دشمن اور دشمنِ دین کو سمجھنے سے قاصر ہے اور پوری زندگی اسی کام پر وقف کرنے کے تصور سے بھی بے بہرہ ہے، اسے آسانی سے انتہا پسند تحریک دی جاسکتی ہے۔
جہاد کی اقسام کا بھی بالتفصیل ذکر ہے جس میں تین اقسام بتائی گئی ہیں۔
جہاد بالنفس، جہاد بالمال اورجہاد یعنی قتال فی السبیل اللہ کی اجازت
’’جہاد یعنی قتال فی السبیل اللہ کی اجازت‘‘ کی سرخی کو نمایاں انداز سے لکھا گیا ہے۔جہاد کے قتال فی سبیل اللہ کے تصور کو سمجھانے کے لیے مندرجہ ذیل اشارات دیے گئے ہیں:
۱۔ دشمن اسلامی ملک پر حملہ آور ہو
۲۔ دشمن اپنے ملک میں اہلِ اسلام کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائے اور دین پر پابندیاں عائد کرے۔
۳۔ دشمن مسلمانوں کو بے گناہ قتل کرے۔
۴۔ دشمن شکستِ عہد کا مرتکب ہو اور غداری کرے۔
۵۔ فسادی اور خطرناک دشمن کی طرف سے حملے کا خطرہ ہو
جب اعلانِ جنگ ہو جائے تو ہر مسلمان مرد عاقل بالغ پر جو محتاج اور بیمار نہ ہو، جنگ میں شریک ہونا واجب ہو جاتا ہے۔ یہ امیر المومنین کا کام ہے کہ جسے چاہے میدان جنگ میں بھیجے اور جسے چاہے پیچھے چھوڑ دے۔ ایسے وقت میں جنگ سے کترانا یا میدان جنگ سے بھاگ نکلنا نفاق کی علامت ے اور اس قسم کی حرکت مومن کی شان کے خلاف ہے جو اپنا مال و جان اللہ کے ہاتھ جنت کے بدلے میں فروخت کر چکا ہے۔‘‘( اسلامیات (اختیاری) پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ ،لاہور،۲۰۱۶،ص ۶۹، ۷۰)
یہاں چودہ سال کے بچے کو یہ بتانا یہ امیر مومنین کون ہوتا ہے ۔ میدان جنگ سے بھاگنا کیا ہوتا ہے۔دشمن کون ہے؟دشمن اپنے ملک پر مسلمان پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس سے جہاد کس طرح فرض ہے؟ کیا اُس ملک پر چڑھائی کر دی جائے گی یا چوری چوری جہاد کیا جائے گا؟ اس طرح کے کئی سوال بچے کے ذہن کو منتشر کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ ایسی جگہ جہاں رائے عامہ بھی جہاد کے تصور کے عین مطابق موجود ہو اور بچے کے لیے اس قسم کے تصورات کے لیے مواد یا تحریک کے مواقع بھی جابجا ہوں تو ایسے میں بچے کا بھٹکنا یا غلط تشریحات تک پہنچ جانا کوئی بعید نہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جہاد کا ہر فرد پر فرض حضرت عمر فاروق کے دور میں ایک اور شکل اختیار کر گیا تھا ۔دورِ عمر میں باقاعدہ فوج بنا لی گئی تھی اور انھیں تنخواہ دی جاتی تھی۔ جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں اسی فوج نے شمولیت اختیار کی۔ عوامی شمولیت کو لازمی قرار نہین دیا گیا جس طرح کی شمولیت حضورﷺ نے تبوک نے موقع پر سب پر فرض کر دی تھی۔ تبوک والی صورتِ حال بعد میں خلفائے راشدین کے کسی دور میں بھی پیش نہیں آئی اور وہی جنگ کے لیے جاتے تھے جو اسلامی سپاہ کا تنخواہ دار عملہ تھا۔
میرے خیال میں بچے کی نفسیات پر ایسے تصورات بہت اثر ڈالتے ہے۔شدت پسند فکر نفسیاتی طور پر ہر مثبت فکرو عمل کو رد کرتی ہے اور دوسرے پر بھروسا کرنا سیکھاتی ہے جو سب سے خطرناک عمل ہے ۔ بچہ ایسی فکر کے دام میں پھنستے ہی سب سے پہلے اپنی ثقافتی(Cutured)شناخت سے دست بردار ہوتا ہے اور پھر سماجی سرگرمیوں سے منہ موڑنے لگتا ہے۔ایسے نصابات کو مرتب کرتے ہوئے بچے کی عمر اور نفسیات کا بہت خیال رکھنا چاہیے