توقیر ساجد کھرل
16 دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد دہشت گردی کے عفریت سے نکلنے کیلئے فوج، حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام چاروں فریق پہلی مرتبہ ایک صفحے پر دکھائی دے رہے تھے، کیونکہ سب اس بات کا ادراک کرچکے تھے کہ دہشت گردی ختم نہ ہوئی تو ہر زندہ کندھے کو لاش اٹھانی پڑے گی اور ملک میں سیاست اور حکومت دونوں ناممکن ہو جائیں گی۔ سب دہشت گردی سے نجات چاہتے تھے، لیکن سوال یہ تھا کہ ایک صفحے پر ہونے کے باوجود اس عذاب سے نکلا جاسکتا ہے؟ ملک کے بعض دانشوروں نے سماج کو فساد سے نکالنے کے لئے مذہب کو انفرادی حیثیت پر لانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں دو عیدوں کے علاوہ کسی تہوار کو سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہونی چاہیے، مذہبی اجتماعات پر پابندی ہونی چاہیے، لوگ مجلس کرنا چاہیں یا ذکر یہ چار دیوار ی تک محدود رہیں، ان کی آواز باہر نہیں آنی چاہیے، مساجد اور مدارس بنانا حکومت کی ذمے داری ہونی چاہیے۔
بعض کالم نگاروں نے پشاور کے سانحے میں 133 بچوں کی شہادت کے بعد دہشت گردی کے اور بھی انوکھے حل بتاتے ہوئے لانگ ٹرم پلان کا خیالی پلائو بھی پکایا۔ ان کا ماننا تھا کہ ملک کا 35 سال قبل کا معاشرہ دہشت گردی سے مکمل پاک تھا۔ ملک میں کھیل، لائبریریاں، تھیٹر، سینما گھر اور پارک تھے اور یہ سب آج کے اس 35 سال کے بعد کے پاکستان میں نہیں ہے؟ ماضی میں پاکستان سکوائش، ہاکی، کبڈی اور کرکٹ میں دنیا پر حکمرانی کرتا تھا اور آج نہیں۔ اس لئے کھیل کو دوبارہ زندہ کرنا ملک میں یورپ کی طرح پرائیویٹ کلب اور کرکٹ ٹیمیں بنوانا کر اور میچ کرانا، ملک کے تمام اسکولوں میں لائبریریاں، ہر کلاس میں کھیل، کتاب اور موسیقی کو لازم قرار دینے کے بظاہر مفید مشورے دیئے گئے۔
معاشرے میں شدت پسندی کو کم کرنے کیلئے یہ بھی تجویز بھی دی گئی کہ چائے، کافی اور لسی کے ریستوران بنائے جائیں، تاکہ لوگ ہر شام وہاں بیٹھ سکیں۔ یوں لوگوں کے درمیاں انٹرایکشن بڑھے گا اور اس سے معاشرے کی شدت میں کمی آئے گی۔ ملک سے شدت پسندی کے خاتمہ کیلئے یہ سب تجاویز بظاہر پرکشش اور ملک میں پیدا ہونے والے دہشت گردی کے خلاف عزم کیلئے عارضی طور پر پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو کم کرنے کیلئے فقط بہترین طریقہ کار ضرور تھے، لیکن دہشتگردی کے ناسور کا دائمی حل نہ تھے۔ ملک کو 35 سال قبل پرامن قرار دینے والے شاید بھول چکے تھے کہ دہشتگردی کا بیج بھی انہی ادوار میں بویا گیا، جس کے خطرناک نتائج یہ قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ جہاں ملک کے معروف کالم نگاروں نے اس مسئلہ کے حل لئے تجاویز پیش کیں، وہاں طالبعلم بھی دہشت گردی سے نمبرد آزما ہونے کے لئے کچھ مفید آراء رکھتا ہے۔
شدت پسندی اور دہشتگردی کے خاتمہ سے قبل دہشتگردی کی کوئی ایک جامعہ اور حتمی تعریف سامنے لانی ہوگی۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت دنیا بھر کا اس ناسور میں مبتلا ہونے کے باجود کسی ایک تعریف پر اتفاق نہیں کیا گیا۔ دہشتگردی کا مسئلہ اب عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس لئے دہشتگردی پر عالمی سطح پر ایک تعریف کا ہونا ضروری ہے، تاکہ ایک مشترکہ مسئلہ کے حل کیلئے مشترکہ کوششیں کی جاسکیں۔ دہشت گردی کی ایک تعریف کے آنے کے بعد ہی دہشت گردی کے نظریات کو رد کیا جاسکتا ہے۔ داعش یا طالبان سمیت تمام دہشتگرد تنظیمیں ایک نظریہ پر متفق ہیں، جس کی بنیاد پر وہ دنیا بھر میں مختلف اشکال میں دہشتگردی کے مکروہ عمل میں ملوث ہیں، دہشت گردوں کے اس نظریہ کو بھانپتے ہوئے دہشتگردی کے نظریہ کے رد میں ایک نظریہ قائم کرنا ہوگا، تاکہ دہشتگردی کے تمام نظریات کے رد میں دلیل پر مبنی بیانیہ مرتب کیا جاسکے اور اس بیانیہ کی بنیاد امن و آشتی پر مبنی ہوگی۔
دنیا بھر میں اسلام کے حقیقی چہرہ کو مسخ کیا جا رہا ہے، جو عالم اسلام کیلئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔ اس لئے اسلام کی تعلیمات کو روشناس کرانے لئے اسلام کے حقیقی چہرہ کو سامنے لانا ہوگا کیونکہ اسلام نے انسانیت کے تقدس کا درس دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، حتٰی کہ اسلام جنگ میں بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنانے سے روکتا ہے، اسلام کے ان حقیقی نظریات کی بنیاد پر ہی بیانیہ مرتب کرنا ہوگا، تاکہ متبادل بیانیہ سے شدت پسندی کا قلع قمع کیا جاسکے۔ متبادل بیانیہ کے آنے کے بعد ریاست اور عوام کی باہمی آہنگی سے سانحہ پشاور سمیت دنیا بھر میں ہونے والے المناک واقعات سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے اور معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا