انتہا پسندی کے خاتمے میں ماؤں کا کردار

انتہا پسندی کے خاتمے میں ماؤں کا کردار

از، شائستہ یاسمین

اوشو نے اس تاریخی حقیقت کو خوب بیان کیا ہے کہ ہر جنگ مردوں نے چھیڑی تھی جب کہ عورت نے بے پناہ مصیبتیں برداشت کیں۔ حیرت کی بات ہے، مجرم مرد لیکن سزا عورت بھگتتی ہے، عورت اپنے شوہر کو گنواتی ہے، اپنے بچے گنواتی ہے، اپنی عصمت گنواتی ہے۔ جنگ کا عورت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، وہ تو کھیل سے باہر ہوتی ہے تاہم سب سے زیادہ نشانہ عورت کو بنایا جاتا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب گھر کے ایک حصے میں آگ لگی ہو اور یہ تصور کر لیا جائے کہ یہ آگ صرف اُسی کمرے تک محدود رہے گی اور گھر کے دوسرے حصے اُن شعلوں کی لپیٹ میں نہیں آئیں گے۔ پاکستان کی مثال بھی اُسی گھر کی ہے جو اس وقت دہشت گردی کے لپیٹ میں۔ خواہ خیبر پختونخواہ ہو یا بلوچستان کوئی جگہ شدت پسندوں کے شر سے محفوظ نہیں۔

اس دہشت گردی سے بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے اور عسکریت پسندی کی یہ لہربھی تاحال ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی جس سے کوئی محفوظ نہیں۔ 15دسمبر2014 کا واقعہ “آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کا حملہ اور 145 بچوں اور استاتذہ کو موت کی نیند سلانا” آج بھی ہمارے ذہنوں میں نقش ہے۔ جن بچوں کو ماؤں نے پاکستان کے شاندار مستقبل کا حصہ بنانے کے لئے سکولوں کی طرف روانہ کیا تھا اس واقعے کے بعد گھر وآپس نا لو ٹ سکے۔ اس واقعے نے جہاں پاکستان کی تاریخ رقم کی ، سیکیورٹی فورسز نے ضرب عضب جیسا آپریشن شروع کیا، وہاں ماؤں کے جگر گوشوں کے لاشے اُٹھائے جانے پر کونسی آنکھ آشکبار نہ ہو سکی۔

اتنے لاشے ایک دن میں
کوئی اُس ماں سے پوچھے؟
جگر گوشوں کے کھونے کا غم کیا ہوتا ہے ؟

ماؤں کے جگر پھٹے اور آج بھی وہ اس نفسیاتی اذیت کا شکار ہے۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ امن کی کوششیں ہوں یا جنگ کے معاملات ان تمام فیصلوں میں عورتوں اور خصوصاً ماؤں کی آوازیں بہت کم سامنے آتی ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ دہشت گردی نے ماؤں کو بہت متاثر کیا ہے۔ ایک طرف ایک ماں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آخر وہ اس ناسور کے خاتمے کے لئے کوئی پلان رکھتی ہے؟ کیا وہ چاہتی ہے کہ اُس کی آواز بھی اس اہم مسئلے میں لی جائے؟ یا شاید صرف بچوں کو اس دہشت گردی کا شکارہوتے دیکھ کر وہ اپنے زخموں سے رسنے والا خون دیکھ دیکھ کر اُس کا ذہن سو گیا ہے؟ یا شاہد حکومت اُن ماؤں تک پہنچنے میں ناکام بری طرح ناکام رہی ہے؟


مزید و متعلقہ: عورت اور معاشرتی بے حسی  از، افتخار احمد


اکژو بیشتر ان ماؤں کی آوزیں سامنے آتی تو ہیں جن کے بیٹے دہشت گردی کا بلاواسطہ شکار ہوئے یا وہ بیٹے جو بالواسطہ دہشت گردوں کے ہتھے چڑھے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ہلاک کرگئے۔ یقینی طور پر میڈیا میں انتہا پسندی میں ملوث افراد کی ماؤں کی آوازیں بہت کم ہیں۔ اُن سے حالات و واقعات کو جاننا اس لئے ضروری ہے کہ ہم اس کا تدارک کرسکیں، ایوانوں میں بیٹھے پالیسی ساز کچھ اہم قوانین اور پالسیاں بنائیں تاکہ مزید ماؤں کو اپنے پیارے وطن پاکستان کو اپنے بچوں کے ذریعے شاندار بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں۔

آئے روز دہشت گردی کی لپیٹ میں یہ نوح انسان کشمکش کا شکار ہے۔ ایک طرف کچھ لوگ مذہب ذمے دار قرار دیتے ہیں ، کچھ تو ریاست کو ہی اس بیمار ی کی جڑ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف مائیں خود اس سے نبرد آزما نہیں ہونا چاہتیں۔ ایک انکار ہے جو لب پر ہے جو دل کے اندر کینسر سی صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ بات کرو تو سیکیورٹی ایجنسنز در پر آ کھڑی ہوتیں ہیں۔ اور ایک طرف یہ انکار کہ ہمارا بیٹا کیسے ایسا کام کر سکتا ہے؟ سیکیورٹی اداروں کو ہی کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ کچھ مائیں ایسی بھی تھیں جن کو اس بات کا ٖفخر تھا کہ اسلام کے نام پر اپنے کہیں بیٹے قربان۔

اس بات سے قطع نظر کے میڈیا میں ہمیشہ دہشت گردی اور دہشت گردوں سے متعلق خبریں گرم رہتی ہیں کتنے بم دھماکے ہوئے اور کتنی لاشیں گریں جیسی خبریں اخبارات، ریڈیو یا ٹیلی ویژن پروگرامز اورشہ سرخیوں کا محور رہتی ہیں۔ جب بھی کبھی امن کی بات ہو تی ہے یا تضادات کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے یا اُن کے بارے میں مائیں کیا سوچتی ہیں ذرائع ابلاغ خواتین اور خصوصا ماؤں کے آوازیں سامنے لانے میں اُتنا کامیا ب نظر نہیں آتا ہے جتنا یہ عمل ضروری ہے۔

غیر سرکاری تنطیم کے ایک پراجیکٹ کے بدولت ہم ایسی ماؤں سے ملے جن کے بیٹے عسکریت پسندی میں بلاواسطہ شامل رہے اور اس کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔وہ کیا عوامل تھے کہ اُن کے بیٹے شدت پسندوں کی رائے سے متفق ہوکرتباہی کی راہ پر چلنے لگے؟ وہ ابتدائی علامات کیا تھیں جو ماؤں نے اپنے بیٹوں میں محسوس کیں جو یکسر اُن کی شخصیت کو بدلنے کا پیش خیمہ بنیں؟ اُن ماؤں کے حالات کیا رہے جب اُنھے سردی اور گرمی کے مہنیوں کے روزو شب اتنے طویل لگے جسے صدیاں؟ لوگوں کا ان سے قطع تعلق کر لینا؟ خون کے رشتے کا پانی ہوجانا سب اسی زندگی میں بدلتے دیکھا۔ انہی پر مبنی یہ آب بیتیاں جو ایک کوشش کے دوسرے خاندانوں کے یہ جگر گو شے تباہی کے راستے پر نہ چلیں اور اپنی ماؤں کا سوچیں جوپل پل یہ سوچتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بچانہ سکیں۔

ایسی ہی ایک ماں

گل بادشاہ کی والدہ کی آب بیتی ۔۔۔۔ مردان

تعارف:
گل بادشاہ جو کہ لال مسجد میں مذہبی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ آپریشن کے بعد وہ وزیرستان میں جاری جہادی ٹریننگ حاصل کرنے گیا جس کے بعد کئی سال گھر سے دور تھا۔ ایک وقت تک تو کسی کو خبر ہی نہیں تھی کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ لیکن کئی سالوں کے بعد جب گاؤں کو واپس آیا تو اُس کی وضع قطع یہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ ایک سخت گیر جہادی بن چکا ہے اور پاکستانی فورسز کے بارے میں اس کے خیالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان دنوں میں والدین نے ان کی شادی بھی کر دی اور اب اُن کا ایک بیٹا بھی ہے۔ لیکن وہ اب خود نہیں ہے۔

گل بادشاہ کی والدہ کی آب بیتی:

بیوی جوان ہے اور چھ ماہ کا بچہ جو باپ مانگتا ہے۔ اور یہ چیز میرا دل چھلنی کر دیتی ہے۔ وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ میرا باپ کب آئے گا۔ تم نے تو مجھے کہا تھا کہ وہ روزے میں آجائے گا۔ کتنے روزے گزر گئے ہیں، یہ کونسواں روزہ ہے جو آپ بتا رہی ہیں۔ باپ بیمار ہے اور دماغ بہت خراب ہے۔ بچے کے بچپن کے بارے میں بتائیں۔

ہشتم کے بعد قرآن کی تعلیم دلوائی ۔ پہلے بنیر لے کر گئے پھر اسلام آبا د گیا بہن سے ملنے گیا تھا آج پورے چھ سال ہو گئے۔ لال مسجد میں جو ہو ا اُس کے بعد اس کا دماغ پھر گیا۔ مجھے آپ لوگ کیوں لے آئے۔ وہاں بچے شھید ہوئے ہیں ان سشھیدوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ چوتھے لیول پر تھا۔ میں تو جان ہی نہیں پائی کہ آخر کب یہ ہوا۔ ایک آدمی تھا جس نے میرے بیٹے کو اس کے پیچھے لگایا۔ میرے دل سے صرف بدعائیں نکلتی ہیں۔ شادی کرائی تاکہ اس کا کچھ دھیان بدلے لیکن یہ بس میں کیا کہوں۔۔۔ میں تو اس سے عالم بنانا چاہتی ہے میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرے بیٹے کو کس نے اس راستے پر لگایا۔

مجھے نہیں یاد آئے گا۔ میں تو روزہ افطار کروں تب دل خون کے آنسو روتا ہے اور سہری کے وقت۔
بچہ روتا ہے۔۔ بچہ باپ مانگتا ہے۔ پانچ سال ہو گئے ہیں۔ اور سات سال اُس کے ہوگئے ہیں۔

متبادل:

میرا دل تو دوسری بات کرنے کو دل نہیں کرتا۔ دل ہے کہ گھبراتا ہے۔ خاوند میرا اتنا بوڑھا ہے کہ نہ دوائی اثر کرتی ہے اور نہ دعا۔ قرآن پڑھتی ہوں اور دعائیں کرتی ہوں۔

یہ سچی کہانی ہے۔ اس میں جگہ اور نام ظاہر نہیں کئے گئے۔ اس بات کا سب جانتے ہیں کہ ایک ماں کا درد ایک ماں سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا اور اس دکھ کا مداوا ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ ہم یہ سچی کہانیاں لوگوں اور ارباب اختیار کے سامنے لے کر آئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں شعور پیدا کر سکیں کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کا انجام صرف تباہی ہے اور کچھ بھی نہیں۔۔!