ڈاکٹر ناصر عباس نیّر
’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کا موضوع’ تقسیمِ ہند‘ہے۔اسے بعض نے ’آزادیِ ہند ‘بھی کہا ہے،جو درست نہیں،اس لیے کہ ایک تو تقسیمِ ہند اور آزادیِ ہندکے معنوی تلازمات میں کافی فرق ہے،اس کے باوجود کہ یہ دونوں باتیں بہ یک وقت ممکن ہوئیں:ایک کا مفہوم سیاسی اور قومی ہے تو دوسرے کے مفہوم میں ثقافتی،مذہبی تلازمات کا غلبہ ہے۔اور قومی مفہوم بھی کوئی سادہ اور یک جہت مفہوم نہیں ہے۔اس کی تہ میں وہ جغرافیائی اور مذہبی تصوراتِ قومیت موجود ہیں جو آزادیِ ہند کی تحریک کے دوران میں کارفرما تھے۔
یہاں یہ سوال اٹھانا بے محل نہیں کہ منٹو نے’ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ میں تقسیمِ ہندکوآزادیِ ہند پر ترجیح کیوں دی؟اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ ترجیح کا معاملہ ہمیشہ اقداری اور آئیڈیالوجیکل ہوتاہے،مگر منٹو کا بہ طور افسانہ نگار کمال یہ کہ اس نے اپنے عہد کی سیاسی قومی فضا کے معاملے میں ایک آئیڈیالوجیکل مؤقف تو اختیا ر کیا ،مگراپنے افسانوی بیانیوں پر اس مؤقف کا بوجھ نہیں لادا۔وہ اپنے افسانے کو آئیڈیالوجی کا ترجمان یا آئیڈیالوجی کی تشہیر کا ذریعہ نہیں بناتے۔ان کے یہاں آئیڈیالوجی افسانوی متن سے باہر ،ایک ترجیحی شعور کے طور پر موجود ہوتی ہے۔اور افسانہ تھیم پرمبنی ہوتا ہے۔مگر اس کا کیا کیا جاے کہ’ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کو ایک آئیڈیالوجیکل متن کے طور پر پڑھا گیا ہے اور اس کے موضوع کو تقسیم کے بجائے ،محدود طور پرآزادیِ ہند قراردیا گیا ہے۔اس رویے کو متن کی ’آزادی ‘پر نقادکے شب خون مارنے کی کوشش کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے! ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ بلاشبہ تھیم کا افسانہ ہے۔اور اس کا تھیم ہے:’’ آدمی کا وجود اور شناخت اس دھرتی کی مرہون ہے،جہاں وہ پیدا ہوتا ہے۔اس دھرتی کی تقسیم سے آدمی کا وجود اور شناخت ،تقسیم کے اس بحران کا شکار ہوتے ہیں ،جس سے آدمی سمجھوتا کر سکتا ہے نہ اس سے باہر نکل سکتا ہے۔‘‘
یہ تھیم ،فلسفے کے قبل تجربی اصول (a priori) کی مانند نہیں ہے،جسے من مرضی کا نتیجہ اخذ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اگر ایسا ہوتا تو اس افسانے کو آ سانی سے آئیڈیالوجیکل افسانہ قرار دیا جاسکتا تھا۔اصل یہ ہے کہ یہ تھیم افسانے کے ڈسکورس میں اسی طرح سرایت کیے ہوئے ہے جس طرح برف میں پانی!کسی افسانے میں آئیڈیالوجی کی کارفرمائی جانچنے کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ اس میں راوی یا بیان کنندہ ،افسانوی عمل میں کتنا دخل اندازہوتا ہے۔وہ کسی کردار کے اوصاف کی وضاحت اورکسی واقعے کی تعبیر میں کتنا حصہ لیتا ہے۔اگر یہ حصہ افسانے میں اس کے متعین کردار سے زیادہ ہو اور یہ قاری کو افسانے کے خاص مفہوم کی طرف ہانکنے کے مترادف ہو تو سمجھیے آئیڈیالوجی کارفرما ہے۔ مثلاً افسانہ’ کفن ‘میں جہاں سماجی صورتِ حال کے تناظر میں مادھو اور گھیسو کی ذہنیت کا تجزیہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ’’جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی…..اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہوجاناکوئی تعجب کی بات نہ تھی۔‘‘یہ سراسربیان کنندہ کی افسانوی عمل میں کھلی مداخلت ہے۔
’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘کا مذکورہ تھیم پاگلوں کے تبادلے کی اس کہانی کے ذریعے پیش کیا گیا ہے،جو قیامِ پاکستان کے دو تین سال بعد کے زمانے کو محیط ہے۔یہ وہی زمانہ ہے جب سرحد کے دونوں اطراف سے آبادیوں کا تبادلہ ہو رہا تھا۔’’دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ….بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہو گیا…وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندستان میں ہی تھے،وہیں رہنے دیے گئے تھے جو باقی تھے ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا۔یہاں پاکستان میں چوں کہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے،اس لیے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوا،جتنے سکھ پاگل تھے،سب کے سب پولیس کی حفاظت میں سرحد پر پہنچا دیے گئے۔‘‘یہاں سب سے پہلا سوال ہی یہ پیدا ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے پاگلوں کے تبادلے کی کہانی ہی کا انتخاب کیوں کیا؟کیا مذکورہ تھیم کے لیے پاگلوں کی کہانی ہی اسے موزوں لگی؟تقسیم کے موضوع کے سلسلے میں پاگل خانے کی کیا خصوصی معنویت ہے،جس کی ترسیل افسانہ نگار کو مطلوب ہے؟اس کے جواب میں یہ کہنا تو نری سادہ لوحی ہو گی کہ چوں کہ منٹو نے کچھ عرصہ لاہور کے پاگل خانے میں گزارا تھا ،اس لیے وہ کچھ خصوصی تجربات رکھتے تھے او ر انھی کو اس افسانے میں با اندازِ دگر پیش کیا ہے۔اصل یہ ہے کہ اس افسانے کے تھیم کا نشانیاتی اور’وجودیاتی تعلق ‘پاگل خانے کے ساتھ ہے۔
منٹو نے اس افسانے میں جن پاگلوں کو پیش کیا ہے،اگرچہ وہ کئی قسم کے ہیں،مگر کوئی ایک بھی ایسا نہیں ،جس کی حرکات یا بیانات کی تقسیم کے ضمن میں گہری معنویت نہ ہو۔مثلاًپہلا پاگل مسلمان ہے جو بارہ برس سے زمیندار کا مطالعہ کررہاہے۔جب اس سے پاکستان کے بارے میں پوچھا جاتاہے تو اس کا جواب آج ساٹھ برس بعد زیادہ بلاغت کے ساتھ سمجھ میں آتا ہے۔’’ہندستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔‘‘استر ے کی لغوی اور استعاراتی معنویت عیاں ہے:سنگدلی اور مہارت سے کاٹنا،آدمی کا گلہ ہو ،دوسروں کا حق ہوکہ آئین اور قانون ! اسی طرح ایک پاگل کا درخت پر چڑھ کر یہ اعلان کرنا کہ ’’ میں ہندستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں…..میں اس درخت پر ہی رہوں گا۔‘‘انخلاع کی تمثیل اس سے بہتر کیا ہوگی!اور ایم ۔ایس ۔سی پاس ریڈیو انجینئر کا باغ کی روش پر تمام کپڑے اتار کر ،ننگ دھڑنگ گھومنا شروع کرنا ،قبل منطق عہد میں پہنچنے کی تمثیل ہے۔ان باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنابے جا نہیں کہ پاگل خانے میں مریض نہیں ،منحرفین رکھے جاتے ہیں۔’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے تمام پاگل ایک درجے میں منحرفین ہیں۔مریض اور ’پاگل منحرف‘ میں موٹا فرق یہ ہے کہ مریض ارد گرد سے لا تعلق ہوتا ہے،وہ ارد گرد میں رونما ہونے والے ان واقعات سے جو اس کے طبعی وجود پر اثرانداز نہیں ہوتے، ان کے سلسلے میں کسی ردّ عمل کا مظاہرہ نہیں کرتا۔دوسرے لفظوں میں وہ محض جسم کی سطح پر جیتا ہے، جب کہ پاگل ارد گرد کے واقعات پر ردّعمل ظاہر کرتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس کا ردّعمل ،شعورِ عامہ سے مختلف ہوتا اور بعض صورتوں میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس کا ردّعمل ایک طرح کا کوڈ ہوتا ہے،جس کی تفہیم کے لیے شعور عامہ کو ایک نئی ،مگر اس کوڈ سے نشانیاتی سطح پر ہم آہنگ منطق وضع کرنا پڑتی ہے۔تمام منحرفین بھی اپنے اعمال کی نئی منطق پیش کرتے ہیں۔’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ میں کئی کوڈ ہیں۔
منٹو کے اس افسانے میں پاگل خانہ ،مریضوں کی جاے پناہ یا علاج گا ہ نہیں،منحرفین کا مستقر ہے!یہ وہ سب لوگ ہیں جو اپنے عہد کے ’خداؤں‘سے الگ اور انحراف پسندانہ زاویہ ء نگاہ رکھتے ہیں۔ان میں بھی’خدا‘ بننے کی صلاحیت ہے اور اسی بنا پر قید ہیں۔افسانے میں یہ Mythosمحض اتفاق سے پیش نہیں ہواکہ’’ ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندستان میں تو اس نے حسب عادت قہقہہ لگایا اور کہا’وہ پاکستان میں ہے نہ ہندستان میں ۔اس لیے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا۔‘‘آخر پاگل پن میں خدا کے ساتھ تماثل کیوں؟یقینااس کی گہری نفسیاتی اور ثقافتی وجہ ہے۔ پاگل پن میں ’اختیار اور اقتدار ‘ کی ثقافتی علامتیں ،نفسیاتی صداقت بن کر اپنا اظہار کرتی ہیں۔ڈیوڈ کوپر نے میثل فوکو کی معروف کتاب پاگل پن اور تہذیب کے پیش لفظ میں برسبیلِ تذکرہ نہیں ، سوچ سمجھ کرلکھا ہے کہ
“Madness, for instance, is a matter of voicing the realization that I am(or you are) Christ.”
[مثال کے طور پاگل پن،اس ادراک کی پکار ہے کہ میں یا آپ ہی مسیح ہیں]
’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘کے تمام پاگل تقسیم کے واقعے پر ردّعمل ظاہر کرتے ہیں اور ایک متبادل نقطہ ءِ نظر (Counter View) پیش کرتے ہیں ۔یہ نقطہء نظراس عہد کی سماجی اور سیاسی تاریخ کے اس خلا کو بھرتاہے ،جو اس عہد کے خداؤں نے اپنے فیصلوں کے ذریعے پیدا کر دیا تھا۔یہ پاگل اس عہد کی تاریخ کا متبادل بیانیہ لکھتے ہیں ۔ اور اس بیانیے کا ہیرو بشن سنگھ ہے!
بشن سنگھ کے پاگل پن کے بیانیے کا تجزیہ کیا جاے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذہنی مریض نہیں ،ایک دیدہ ور (Visionary) ہے، مگر ایک ایسا دیدہ ور جس کی دیدہ وری اور بصیرت،اپنے لسانی تشکیلی مرحلے میں مسخ ہو گئی ہے۔چوں کہ اس کی دیدہ وری اپنی ’وجودیاتی سطح‘پر سلامت ہے،اس لیے وہ اسے کام میں لاتا اور اس کی روشنی میں فیصلے بھی کرتا ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت اس کا آخری اقدام ہے۔زمین کے اس ٹکڑے پر اوندھے منھ گرنا ،جس کا کوئی نام نہیں ہوتا اور جس کے دونوں اطراف دو نئے ممالک ہیں، اس کا اختیاری فیصلہ تھا۔اور یہی فیصلہ دراصل اس بحران سے نکلنے کا واحد حل تھا ،جس میں بشن سنگھ تقسیم کی خبر سننے کے بعد گرفتار ہو گیا تھا۔
بشن سنگھ کے پاگل پن کے محرکات افسانے میں مذکور نہیں ہیں،بس یہ بتایا گیا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کئی زمینیں تھیں۔اچھا کھاتاپیتا زمیندار تھاکہ اچانک دماغ الٹ گیا۔اس کے دماغ کے الٹنے کے واقعے کو پندرہ برس قبل بتایا گیا ہے۔یعنی جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا۔برصغیر سے دور برپا ہونے والے اس عظیم محاربے برصغیر کو بھی متاثر کیا۔اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے رشتہ دار وں نے اس کی زمینوں پر قابض ہونے کے لیے اسے پاگل بنا کر،اسے موٹی موٹی زنجیریں پہنا کر پاگل خانے چھوڑ گئے ہوں۔ہمارے یہاں ایسا اکثر ہوتا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ باتیں بشن سنگھ کے اس جملے میں نشانیاتی تجسیم پا گئی ہیں جو وہ اکثر بولتا ہے۔’’ اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لا لٹین ‘‘۔یہ بیان افسانے میں موتف کا درجہ رکھتا ہے۔اس بیان کو ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کے بارے میں فقط یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ شدید جذباتی کیفیت میں ادا کیا گیا ،بے ربط اور بے معنی اظہار ہے۔اصل یہ ہے کہ یہ بے ربط تو ہے،بے معنی نہیں۔اسے ہم جملہ نہیں کَہ سکتے کہ جملہ زبان کی رواجی نحوی ترتیب میں ادا کیا گیا قابلِ فہم مجمو عہ ء الفاظ ہے ۔یہ بشن سنگھ کا اظہار ہے ۔ایک ایسا اظہار جسے اس نے خود وضع کیا ہے ۔بلاشبہ اس میں شعورِ عامہ کی سیدھی منطقی اور لسانی لکیر کو توڑا گیا ہے۔جب بھی کسی آدمی کو اپنی ذات کا حقیقی اظہار مطلوب ہو تو اسے زبان کی سیدھی منطق کو توڑنا ہی پڑتا ہے ۔رواجی اورعام منطقی اظہار میں تناظر ہمیشہ خارجی ہوتا ہے ،مگر ایک حقیقی اظہار میں اظہار کا تناظر خود وہی اظہار ہوتا ہے ۔بشن سنگھ کے اظہار کا تناظر خود یہی اظہار ہے۔ہماری مانوس زبان نہیں۔بشن سنگھ کا اظہار اس کی اپنی شخصیت کی طرح خود اسی کی طرف راجع ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے بشن سنگھ اپنی دیدہ وری کو سلامت رکھنے میں کام یاب ہوتا ہے۔پہلے یہی دیکھیے کہ وہ اس جملے کا اظہار ایک سے انداز میں کرتا ہے۔اس کے بے ربط جملے کی لسانی ترتیب قائم رہتی ہے اور جب وہ اس جملے کے آخر میں حک و اضافہ کرتا ہے تو یہ بھی معنی خیز ہوتا ہے۔تاہم ایک عجیب دبدھا یہ ہے کہ ہم کسی فکشنی کردار کی حقیقی اور ہمارے مطابق Absurdزبان کی تفہیم اپنی زبان میں کرنے پر مجبور ہیں۔حالاں کہ وہ اسی زبان سے انحراف کر رہا ہوتا ہے۔ایک باغی کو اس نظام کی رو سے سمجھنے سے بڑھ کر کیا ستم ہو سکتا ہے جس کے خلاف وہ بغاوت کرتا ہے!
بہر کیف غور کریں تو ’’اوپڑ دی گڑ گڑ ‘‘کے الفاظ ایسے صوتیوں کا مجموعہ ہیں،جن کے معانی زبان کی سیمانٹکس کے بجائے محض اس کے صوتی اثرات سے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اثرات تشدّد کے ہیں۔یہ الفاظ بشن سنگھ کو پہنائی گئی موٹی موٹی زنجیروں ،اور کسی ان دیکھی منجدھار میں ڈوبنے کی حقیقی حالت سے واضح کنایاتی رشتہ رکھتے ہیں۔بے دھیانا کا لفظ ان بے بصر لوگوں کے لیے ہے جو بشن سنگھ کی اس بصیرت کے ادراک سے قا صر ہی نہیں ،اس کے مخا لف بھی ہیں،جووہ اینکس (Annex)یعنی الحاق کے سلسلے میں رکھتا ہے۔ابتدا میں یہ بے بصر لوگ اس کے رشتہ دار ہیں ،جو اسے پاگل خانے چھوڑ گئے تھے اور ہر مہینے اس سے ملاقات کی غرض سے آتے تھے؛اور بعد میں وہ لوگ جو اسے سرحد پر لے جاتے ہیں ۔لالٹین کو بغیر کسی ردو کد کے بشن سنگھ کی روح میں روشن دیے کا استعارہ قرار دیا جاسکتا ہے۔بشن سنگھ کی روح کا سب سے بڑا مطالبہ ہی یہ ہے کہ یہ دیا نہ بجھے ۔ظاہر ہے یہ بات افسانے میں براہ راست نہیں کہی گئی ۔دیکھیے :بشن سنگھ کے جملے یا افسانے کے موتف میں جب بھی تبدیلی ہوتی ہے ،وہ اس کے آخری حصے میں ہوتی ہے۔صرف لالٹین کا لفظ بے دخل ہوتا ہے۔غور کیجیے اس کو بے دخل کون سے الفاظ کرتے ہیں۔پاکستان گورنمنٹ اورگورو جی خالصہ اینڈ واہے گوروجی کی فتح۔لالٹین کی بے دخلی پہلی با ر اس وقت ہوتی ہے جب پاکستان گورنمنٹ اسے سرحد پار بھیجنے کا فیصلہ کرتی ہے؛اور دوسری بار جب اسے خدا بننے والا پاگل کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جگہ کا تعین اس لیے نہیں کر سکا کہ وہ بہت مصروف تھااور اسے بے شمار حکم دینے تھے۔لہٰذا لفظ لالٹین کی Displacement کا محرک دونوں جگہ ’طاقت‘ ہے:سیاسی اور مذہبی طاقت۔افسانے میں بشن سنگھ کا بہ طور ہیر وکارنامہ یہ ہے کہ وہ طاقت کی ان دونوں صورتوں کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے۔یعنی اپنی روح میں روشن لالٹین کی حفاظت اپنی جان پر کھیل کر کرتا ہے؛اور ایک ایسے انداز میں اپنی جان دیتا ہے ،جس کی علامتی معنویت گہری ہے،اتنی ہی گہری جتنی ایڈی پس کے آنکھیں پھوڑنے کی ہے۔اس کا پندرہ برس تک اپنے پاؤں پر کھڑا رہنا ،اس کی استقامت ہی کو ظاہر کرتا ہے۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے روز بشن سنگھ کیوں اچھی طرح نہاتا تھا ،تیل لگا کر کنگھا کرتا تھا اور اپنے وہ کپڑے پہنتا تھا جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا؟اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنی (یا اپنے مؤقف) کی استقامت کا اعلان ان کے سامنے کرتا تھا ۔پاگلوں کی ایک قسم مالیخولیا کی ہوتی ہے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مینیا قسم کے پاگلوں کے برعکس اپنی قوت متصورہ کے انتشار کا شکار نہیں ہوتے۔بشن سنگھ بھی انتشار کا شکار نہیں۔اگر ہوتا تو اس کی حرکات اور بیانات میں اس انتشارکا ظہار ضرور ہوتا۔ اس کے کردار کی استقامت ہی خاردار تاروں پر گر کر جان دینے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
اب اس افسانے کے تھیم کی تعمیم کریں تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں:
*آدمی اپنے وجود کی شناخت ’فطری‘انداز میں کرتا ہے۔اس کی دھرتی اور اس سے وابستہ کلچر اسے فطری طریق سے پہچان دیتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں وجود کی شناخت کا عمل فلسفیانہ اور تجریدی نہیں۔
وجود کی شناخت جب فطری طریق سے ہو تو اس کا تحفظ انسان کی سب سے بڑی وجودی ذمے داری بن جاتا ہے۔فلسفیانہ یا تجریدی انداز میں طے کی گئی اپنی شناخت پر سمجھوتا کیا جاسکتا ہے، اس میں تبدیلی کی جاسکتی،اس کی جگہ شناخت کا کوئی دوسرا متن یا ورژن قبول کیا جاسکتا ہے۔یعنی اس صورت میں طاقت کی کسی شکل کے آگے جھکا جا سکتا ہے،مگر ’فطری طریق‘ سے حاصل کی گئی شناخت ہر نوع کی طاقت کے آگے جھکنے سے انکار کرتی ہے۔
یہ ’’اصول‘‘ ظاہر ہیں ،افسانے کے داخلی تناظر کے پابند ہیں۔انھیں آفاقی اور لا زمانی اصولوں کے طور پر پیش کرنا ایک جسارت ہی ہو گی۔ افسانے کا داخلی تناظر نو آبادیاتی ملک کی آزادی اور تقسیم ہے۔لہٰذا وجودی شناخت کے یہ اصول اسی تناظر میں تشکیل پاتے اور اپنی معنویت متعین کرتے ہیں۔اہم ترین بات یہ ہے کہ اس اصول کا جتنا مستند (اپنے تناظر کے اندر)علم یہ افسانوی بیانیہ مہیا کرتا ہے،کوئی دوسرا متن مہیا کرنے کا اوّل دعوا نہیں کر سکتااور اگر کرتا ہے تو اسے منطقی اور تجربی استناد میں سے محض ایک حاصل ہوتا ہے۔
بہت خوب ڈاکٹر صاحب ۔آپکی تحریر ہمیشہ ایک ٹریٹ کی طرح ہوتی ہے۔سوچ کے نئے در وا کرتی ہوئی۔نئے پہلوؤں سے فن پارے کی تفہیم ممکن بناتی ہے۔ فرخ ندیم نے اوپڑ دی گڑ گڑ کو ڈی کوڈ کرنے کی ایک تہذیبی، معنیاتی اور پس ساختیاتی کوشش کی ہے۔ آپ کا مضمون اس کی تفہیم میں بھی معاون ہے۔جئیں
کیا ہی شاندار تجزیہ ہے
نئی قدر، نیا زاویہ، بے حد دلکش تحریر
جدید نظریات کی روشنی میں کیا ہی نئی وضاحت ہے۔بہت دعائیں۔ہمیشہ کی طرح آپ کی تحریر نے نئے در کو وا کیا ہے۔
ایک بات جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ منٹو کے ہاں استرے کی علامت کاٹنے کے لئے نہیں بلکہ مذہب کی علامت بن کے سامنے اآتی ہے۔استرا کسی بھی دور میں کاٹنے کا آلہ نہیں رہا۔منٹو کے ہاں مسلمانوں اور سکھوں کا فرق کرنے کی علامت استرا ہے۔ایک چھوٹی سی مثال دیکھیں سیاہ حاشیے کے اس افسانچے سے جس کا عنوان ہے استقلال
میں سکھ بننے کے لئے ہرگز تیار نہیں
میرا استرا مجھے واپس دے دو
ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی یہ تحریر اپنی ثروت مندی اور اسلوب کی بدولت نہ صرف ٹوبہ ٹیک سنگھ سے نئی ملاقات کا موقعہ فراہم کرتی ہے بل کہ آرٹ سے علم(لطف) حاصل کرنے کا طریقہ بھی سمجھاتی ہے. (محمد یامین)
It is a short story of reason in madness and madness in reason.One has to it from this perspective.
ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ آپ نے اس افسانے کی تفہیم کے کئ نئے در وا کر دیے ہیں.اتنی مدلل اور منطقی بحث کہ کڑی سے کڑی ملتی گئ اور گرہیں کهلتی گءیں.منٹو کے قاری پر آپ کا احسان ہے.اتنی اچهی تحریر لکهنے اور اسے شئیر کرنے پر ایک بار پهر شکریہ
“ٹوبہ ٹیک سنگھ” پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن وہ سب تاثراتی تنقید کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ مضمون خود بتاتا ہے کہ متن کی تہہ میں پڑے معانی کو کیسے سطح لایاجاتا ہے۔اس افسانے کی اس سے بہتر تفہیم شاید ہی ممکن ہو۔ ناصر صاحب نے بشن سنگھ کی علامت کو ایڈیپس کی علامت کے پہلو بہ پہلو کھڑا کرکے اسے متھ بنا دیا ہے جس سے اس کردار کی زندگی لا فانی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔یہ مضمون بڑے تنقیدی ویژن کے ساتھ منٹو کے اس افسانے کو ادبیاتِ عالم کے عظیم فن پاروں کے مقابل لا کھڑا کرتا ہے۔
زبردست تفہیمی پہلو سامنے آئے ھیں ڈاکٹر صاحب سے التماس کہ یہ فیض عام جاری رکھیں