فیاض احمد جندران
عدالت عظمیٰ پاکستان نے مشہور زمانہ مقدمہ نمبر ۱۰۵/۲۰۱۲ء نامور صحافی حامدمیر اورابصارعالم حیدر بنام وفاق پاکستان وغیرہ کا فیصلہ ۸۔ جولائی ۲۰۱۳ء کو سنایا ۔ اس آئینی مقدمہ کی سماعت عدالت عظمیٰ پاکستان میں جناب جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جناب جسٹس خلجی عارف حسین اور جناب جسٹس اعجاز افضل خان کے تین رکنی بنچ کے روبرو ہوئی۔ عدالت کے معاون وکیل خواجہ حارث احمد، سینئرایڈووکیٹ سپریم کورٹ تھے۔ یہ مقدمہ سرکاری خزانے کے استعمال میں ذرائع ابلاغ پر حکومت کے اثرانداز ہونے کے ضمن میںآئین کی دفعہ ۱۸۴ (۳) کے تحت دائر کیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے اس اہم فیصلے میں بنچ کے سربراہ جناب جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے ملک میں قومی زبان کے نفاذ کی ضرورت کے حوالے سے دو حصوں پر مشتمل اردو میں تحریر شدہ ایک مختصر مگر نہایت جامع نوٹ بھی شامل کیا ہے۔ جج صاحب نے مذکورہ نوٹ میں نہایت مدلل انداز میں ملک میں قومی زبان کے عدم نفاذ اور نفاذ میں تاخیر کے مضمرات واضح کردیے ہیں۔ان مضمرات میں سے ایک مثال خود یہ مقدمہ ہے۔ اِن نکات پر مزید بات کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فیصلے کے متعلقہ حصوں کو من و عن ملاحظہ کرلیا جائے ،جسے ہم نے سپریم کورٹ منتھلی ریویو(SCMR) ۲۰۱۳ء سے لیا ہے۔
(d) Constitution of Pakistan….
….Arts.251 & 28قومی زبان…زبان، رسم الخط اور ثقافت کا تحفظ… سرکاری امور میں قومی زبان کی اہمیت … تجزیہ …ملک میں انگریزی زبان کے رائج ہونے کی وجہ سے آئین اور قانون کے نسبتاً سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں… ایسی فنی پیچیدگی تو اپنی جگہ مگر Art.251 کے عدم نفاذ کا ایک پہلو اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے… آئین پاکستان عوام کی اس خواہش کا عکاس ہے کہ وہ خودپر لاگو قانونی ضوابط اور اپنے آئینی حقوق کی بابت صادر کیے گئے فیصلوں کو براہ راست سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکمران جب اُن سے مخاطب ہوں تو ایک پرائی زبان میں نہیں بلکہ قومی یا صوبائی زبان میں گفتگو کریں جو کہ نہ صرف عزت نفس کا تقاضا ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور کا بھی تقاضا ہے … سپریم کورٹ نے ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادر کرنے کو محض ایک اتفاق نہیں بلکہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ کہا … اس صورت حال کا تاریخی پس منظر اور قومی یکجہتی پر برے اثرات کا مختصر بیان۔ ]صفحہM[1902
جواد ایس خواجہ، جج
یہ نوٹ آئین کے آرٹیکل 251اور28کی رو سے اردو میں بھی تحریر کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے ”منیر حسین بھٹی بنام وفاق پاکستان” (PLD 2011 SC 407) اور ”محمد یٰسین بنام وفاقِ پاکستان ” (PLD 2012 SC 132)میں بھی ہم ان آئینی مندرجات کی اہمیت کی طرف توجہ دلا چکے ہیں اور سرکاری امور میں قومی زبان کے نفاذ کی اہمیت اجاگر کر چکے ہیں۔ عدالتی کارروائی کی سماعت میں اکثر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں کی محنت شاقہ اور کئی بے نوا نسلوں کی کاوشوں کے باوجود آج بھی انگریزی ہمارے ہاں بہت ہی کم لوگوں کی زبان ہے اور اکثر فاضل وکلاء اور جج صاحبان بھی اس میں اتنی مہارت نہیں رکھتے جتنی کہ درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کے نسبتاً سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں۔ یہ فنی پیچیدگی تو اپنی جگہ مگر آرٹیکل251کے عدم نفاذ کا ایک پہلو اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔ ہمارا آئین پاکستان کے عوام کی اس خواہش کا عکاس ہے کہ وہ خود پر لاگو قانونی ضوابط اور اپنے آئینی حقوق کی بابت صادر کیے گئے فیصلوں کو براہ راست سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکمران جب اُن سے مخاطب ہوں تو ایک پرائی زبان میں نہیں بلکہ قومی یا صوبائی زبان میں گفتگو کریں۔ یہ نہ صرف عزت نفس کا تقاضا ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور کا بھی تقاضا ہے۔ ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادر کرنا محض اتفاق نہیں۔ یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔
۲۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یورپ میں ایک عرصہ تک کلیسائی عدالتوں کا راج رہا جہاں شرع و قانون کا بیان صرف لاطینی زبان میں ہوتا تھا، جو راہبوں اور شہزادوں کے سوا کسی کی زبان نہ تھی۔ یہاں برصغیر پاک و ہند میں آریائی عہد میں حکمران طبقے نے قانون کو سنسکرت کے حصار میں محدود کر دیا تاکہ برہمنوں، شاستریوں اور پنڈتوں کے سوا کسی کے پلے کچھ نہ پڑے۔ بعد میں درباری اور عدالتی زبان ایک عرصہ تک فارسی رہی جو بادشاہوں، قاضیوں اور رئیسوں کی تو زبان تھی لیکن عوام کی زبان نہ تھی۔ انگریزوں کے غلبے کے بعد لارڈ مکائولے کی تہذیب دشمن سوچ کے زیر سایہ ہماری مقامی اور قومی زبانوں کی تحقیر کا ایک نیا باب شروع ہوا جو بدقسمتی سے آج تک جاری ہے اور جس کے نتیجہ میں ایک طبقاتی تفریق نے جنم لیا ہے جس نے ایک قلیل لیکن قوی اور غالب اقلیت (جو انگریزی جانتی ہے اور عنان حکومت سنبھالے ہے) اور عوام الناس جو انگریزی سے آشنا نہیں، کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا کر دی ہے جو کسی بھی طور قومی یکجہتی کے لیے کار گر نہیں۔ آئین پاکستان البتہ ہمارے عوام کے سیاسی اور تہذیبی شعور کا منہ بولتا ثبوت ہے، جنھوں نے آرٹیکل ۲۵۱اور آرٹیکل۲۸میں محکومانہ سوچ کو خیر باد کہہ دیا ہے اور حکمرانوں کو بھی تحکمانہ رسم و رواج ترک کرنے اور سنتِ خادمانہ اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔ آئین کی تشریح سے متعلق فیصلے اردو میں سنانا یا کم از کم ان کے تراجم اردو میں کرانا اسی سلسلے کی ایک چھوٹی سی کڑی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اسی کڑی کو آگے بڑھانے میں ایک شعبۂ تراجم بھی قائم کیا ہے جو عدالتی فیصلوں کو عام فہم زبان میں منتقل کرتا ہے……
MWA/H-13/SC Order accordingly
اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ عدالت عظمٰی پاکستان کے جج صاحب کوفیصلے میں اپنے اس نوٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس نوٹ کے متن میں کن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے؟ ہم جہاں تک سمجھتے ہیں،وہ یہ ہے کہ اس مقدمے میں عوام سے حاصل کی گئی سرکاری رقوم کے درست استعمال پر فیصلہ دیاگیا ہے جس کا اثر براہ راست ریاست کے شہریوں پر پڑتا ہے۔لہٰذا عوام یہ جاننے کا پورا پورا قانونی حق رکھتے ہیںکہ حکومت ان کے خون پسینے کی کمائی کو کس طرح خرچ کررہی ہے؟ فیصلے کی شق : ۵ میں آئین کی دفعہ : ۱۹ ”ہر شہری کو مفادعامہ کے تمام معاملات میں معلومات حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا بشرطیکہ نظم و نسق برقرار رہے اور معقول قانونی پابندیاں عائد ہوں” کے حوالے سے باور کرایا گیا ۔ فیصلے کے اندر اسی دفعہ کے تحت پریس کی آزادی کی بھی ضمانت کو یقینی بتایا گیا ہے۔
مذکورہ بالا تناظر میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت سامنے آئے گی کہ عوام کو ان سب باتوں کا علم اُسی وقت ہوسکتا ہے جب حکومت انھیں اُن کی زبان عامہ میں بتائے گی۔ کسی ملک کی زبان عامہ اس کی قومی زبان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ کسی غیرزبان میں بیان کرنے سے الفاظ اور اصطلاحات کو دونوں طرح سے نئے سے نئے معانی پہنائے جانے کی پوری گنجائش ہوتی ہے جو معاملات کو سلجھانے کے بجائے اُلجھانے کا باعث بنتے ہیں۔ اگر حکومت قومی زبان میں عوام کو یہ سب معلومات بہم پہنچانے کا خاطرخواہ بندوبست کردے تو انھیں کسی بھی لفظ یا اصطلاح کے مفہوم کی براہ راست تفہیم میں سہولت ہو۔ اس سے نہ صرف انفرادی بلکہ درحقیقت پوری قوم کاوقت، انسانی صلاحیت اور مالیاتی وسائل، ہر تین، کی بچت ہو اور ملک کی ترقی میں بھی اضافہ ہو۔
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جج صاحبان اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں۔ جج صاحب جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے نوٹ میں قبل ازیں ”منیرحسین بھٹی بنام وفاق پاکستان (۴۰۷/۲۰۱۱ئ) اور ”محمدیٰسین بنام وفاقِ پاکستان (۱۳۲/۲۰۱۲ئ) کے فیصلوں میں بھی اس جانب توجہ دلانے اور سرکاری اُمور میں قومی زبان کے نفاذ کی اہمیت اجاگر کرنے کا حوالہ دیا ہے۔
اس تحریری فیصلے کے پہلے آئینی حوالہ جاتی حصے کی جزو ڈی اور پھر فیصلے کے دوسرے حصے ‘حکم’ کی شق : ۳۸ میں بنچ کے سربراہ فاضل جناب جج جسٹس جواد ایس خواجہ کا نوٹ درج ہے۔ جج صاحب جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے انگریزی زبان کے حوالے سے ہمارے ملک کی صورت حال بھی چند جملوں میںکھول کر رکھ دی ہے۔ جج صاحب کے یہ چند جملے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ خوب صورت اسلوب کی یہ اردو تحریراشتیاق دلاتی ہے کہ کاش ہماری عدالتوں کا ہر فیصلہ قومی زبان میں تحریر ہوا کرے۔
جج صاحب جناب جسٹس جواد ایس خواجہ کے الفاظ ”عدالتی کارروائی کی سماعت میں اکثر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں کی محنت شاقہ اور کئی بے نوا نسلوں کی کاوشوں کے باوجود آج بھی انگریزی ہمارے ہاں بہت ہی کم لوگوں کی زبان ہے۔ اور اکثر فاضل وکلاء اور جج صاحبان بھی اس میں اتنی مہارت نہیں رکھتے جتنی کہ درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کے نسبتاً سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں۔”
فیصلے کے اسی حصے میں عدالت عظمیٰ پاکستان میں جج صاحبان، وکلاء ، قانونی شعبے سے وابستہ محققین، قانون کے اساتذہ اور طلبہ کی عملی سہولت اور عدالت میں قومی زبان کے لیے عملی اقدام کے طور پر ” تراجم”کی کوششوں کا حوالہ بھی دیاگیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد بعض عدالتی فیصلوں کو عام فہم زبان میں منتقل کرنا بتایا گیا ہے۔