اُردو زبان کے نصاب پر ایک نوحہ خوانی

(قاسم یعقوب)

پڑھانا اور پھر اُردو کو پڑھانا بہت مشکل کام ہے۔ اس لیے نہیں کہ اُردو کوئی مشکل اور تحقیق طلب مضمون ہے بلکہ پڑھانے کے دوران جس طرح کی فکری کج رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ایک اُردو کا استاد ہی جانتا ہے۔ اُردو پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے بیک وقت زبان کی تعلیم اور ادب کی فکری سمت نمائی سے گزرنا پڑتا ہے۔ہم یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ زبان پڑھارہے ہیں یا زبان کے اندرموجود فکر_______
اُردو کا مضمون سکول لیول پر بارھویں کلاسسز تک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔اُردو کا سیلبس تمام ٹیکسٹ بک بورڈز کے نصابات میں تقریباًیکساں نوعیت کاہے۔ اگر انٹر لیول پر دیکھا جائے تو نصاب میں منظومات اور حصہ نثر کو الگ الگ ترتیب دیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر نصاب کو نہایت آسان اور فکری حوالے سے نظریاتی حدود کے اندرمتعین کیا جاتا ہے۔آسان سے مُراد طالب علم کو کسی بھی قسم کے نظریاتی یا ذہنی چیلنج کا سامنا نہ کرنا ہے۔ انٹر لیول تک جس طرح کے اُردو نصاب سے پالا پڑتا ہے اُس میں سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا بچوں کو زبان پڑھائی جا رہی ہے یا Content؟ اگر کونٹینٹ پر توجہ رکھی جائے (جو لا محالہ رکھی جاتی ہے) تو زبان کا عمل ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ کونٹینٹ سے کیسے پیچھا چھڑایا جاسکتا ہے اس کا اندازہ سیرت النبیؐ اور خالص سائنسی مضامین پڑھاتے ہوئے بخوبی ہوتا ہے۔ کچھ مضامین تو اُردو سے کسی طرح بھی میل نہیں کھاتے۔ یوں بچے زبان پر توجہ دینے کی بجائے کونٹینٹ کے اندر ہی کھو جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر نصاب کو بے کار اور ’’بورنگ‘‘ سرگرمی کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔ اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ یہ کسی باذوق قاری کے لیے انتخاب نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کو ایک لازمی مضمون کے طور پر کلاس روم سرگرمی کا حصہ بھی بننا ہے۔ جب بچہ مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضمونوںیا ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کے ابواب پڑھے گا تو اُس کی نفسیاتی ترجیحات کو یک سر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایک بچہ صرف اُردو کا مضمون نہیں پڑھتا وہ پہلے یا بعد کے پیریڈز میں حیاتیات،کیمسٹری ، ریاضی یا فزکس کی حیران کن فکریات سے آشنا بھی ہوتا ہے۔ وہ بھرپور چاہتے ہوئے بھی اُردو کی ان تحریروں میں دل چسپی پیدا نہیں کر پاتا۔اس لیے کہ یہ منتخب تحریریں اپنے عہد اور طالب علم کی نفسیاتی کشمکش کا احاطہ کرنے سے معزور ہیں۔
ایک اور سب سے بڑا مسئلہ حصہ شاعری کا ہے۔ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ شاعری میں فکری سمت نمائی ایک ناگزیر عمل ہے۔ مگر جب بھی بے تکی غزلوں اور زندگی سے مایوس نظموں کے انتخاب پر اعتراض کیا جاتا ہے تو کہ دیا جاتاہے کہ یہ تو اُردو کے مختلف ادوار کے مختلف لہجے ہیں۔ان سے آشنا ہونا زبان دانی کے عمل کے لیے بہت ناگزیر ہے۔
مجھے پچھلے دنوں کچھ ایسے ہی برملا سوالات سے گزرنا پڑا جب میرے کچھ طلبا نے مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ اصل میں یہ سوالات سے زیادہ اُردو نصاب سے بیزاری کا عمل لگ رہا تھا۔ پہلا سوال ہی یہ تھا کہ اُردو شاعر زندگی کا Prosperرویہ کیوں نہیں دکھاتا۔ بس غم، غم، غم______کیا زندگی صرف غم سے بھری ہے؟
سبز ہوتی ہی نہیں یہ سر زمیں
تخمِ خواہش دل میں تُو بوتا ہے کیا!
(میر)
دوسرا سوال یہ تھا کہ شاعری زندگی کی کون سی اہم ذمہ داری پوری کر رہی ہے یا تاریخ کے ادروار میں کرتی آئی ہے۔؟ دکن سے لے کر بیسویں صدی تک اُردو شاعری درباروں اور ذاتی مسئلوں کی گرہ کشائی کا کارِ مشکل تو انجام دیتی رہی مگر سماج کے لیے کیا کرتی رہی۔ یہی کوئی قیام پاکستان کے آگے پیچھے یا کچھ دہائی پیشتر جنگوں میں شاعری نے اپنا کردار ادا کیا ہے یا زندگی کے براہِ راست مسائل اور اُن کے جذباتی اظہار کی نمائندہ بنی ورنہ اُردو شاعری تو بند کمرے میں اکیلے ماتم والا رویہ اپنائے ہوئے نظر آتی ہے۔
میں ان سوالات کے جوابات بہت خوبصورت انداز سے دیتا رہا مگر مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ طلبا و طالبات معاشرے کے اُن سفاک تجربوں سے گزر کے آگے آئیں ہیں کہ جنھیں ٹی ہاؤس میں بیٹھ کے ٹیبل فتح کر لینے کی طرح مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ میر زندگی کی اٹل حقیقتوں میں بے بس کردیتا ہے اور کہتا ہے:غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا۔اسی طرح غالب کو پڑھتے ہوئے ہم ایسے اشعار سے بھی گزرتے ہیں:
قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں!
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا!
مسئلہ یہ نہیں کہ ان کے اندر زندگی کا کون سا فلسفہ بیان کیا گیا ہے اور اس فلسفہ کو زندگی کی جبریت سے کیسے نکال سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ کچے ذہنوں کو ہم کس طرح جبر کے اندر سے آزادی کا درس دیں۔ اگر جبر ہی سب کچھ ہے تو کچے ذہن کو اس کے اندر سے آزادی کا وہ متحرک عمل کیسے اجاگر ہوتا دکھایا جائے جو اس عمر کے طلبا کے لیے تازگی یا بشاشت کا جھونکا ثابت ہو! اس پہلو پر سوچنا اور کوئی نتیجہ برآمد کرنا ضروری ہے۔ ہمارا شاعر غم زدہ اور نڈھال کیوں ہے وہ زندگی کا وہ روپ اُس طرح پیش کیوں نہیں کرتا جس طرح انگریزی نظموں میں نظر آتا ہے۔ میر تقی میر کا دور اُس کی شاعری پر غلبہ پالیتا ہے تو زندگی کا فلسفہ غم ناک روپ دھار لیتا ہے جب زندگی توانا خطوط پر استوار ہوتی ہے تو ہمارے شاعر نے تب بھی بیگار ہونے کا ہی رونا رویا۔ پھر کیا ہمارے پاس ان شعرا کی یہی نمائندہ تحریریں رہ گئیں ہیں؟ کیا ہمارے پاس ادب کا روشن چہرہ یا زندگی آموز رُخ موجود نہیں۔ کیا ہمارے پاس راشد نہیں ۔ مجید امجد سے لے کر کہانیوں میں منٹو ، قاسمی ، نیر مسعود اور منشا یاد تک کیسی کہکشاں موجود ہے کیا ہم نے ادب کا ایسا روپ متعارف نہیں کروانا جہاں کچا ذہن زندگی کی معاشرتی ، فلسفیایہ اور نفسیاتی باریکیوں سے آگاہ ہو۔ کیا ادب کا بنیادی وظیفہ ’’جمالیات‘‘ کا کہیں نام و نشان بھی ہے؟بچے کو aesthetics کو نہیں پڑھانی ؟ ہم کس قدر ظلم کرتے ہیں کہ سکول سطح پر بچے کو ادب کے مضامین (اُردو اور انگریزی) ہونے کے باجود aesthetics کی الف بے بھی نہیں سکھا پاتے۔
مجھے اس طرح کے سوالات کے آگے خود کو بے بس کردینے میں کوئی تامل نہیں ہے اور آپ کوبھی ان سوالات کے حوالے کر نا چاہوں گا۔ کیوں کہ اگر میں ایک جواب کی تلاش میں نکلتا ہوں تو دوسری طرف سے کئی اور سوالات ان کے اندر سے نکلتے محسوس ہوتے ہیں۔ امید ہے اس سلسلے میں آپ ہی کچھ راہ نکالیں گے۔
اصل بات وہیں کی وہیں رہ گئی کہ ہمارے نصابات نے اُردو کو ایک دقیانوس اور قدامت پرست مضمون کے طور پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔بچہ جب دیکھتا ہے کہ اُردو کے اِس نہایت’’ آسان‘‘ ٹاسک کو وہ بغیر پڑھے بھی پورا کر سکتا ہے تو اُس کی ساری توجہ سائنسس کی طرف ہو جاتی ہے۔ وہ اُردو کو کسی توجہ میں نہیں لاتا۔ رہی سہی کسر اُردو کے لیے جانے والے امتحانات نے بھی پوری کر دی ہے۔ جس میں معروضی قسم کے سوالات نے طالب علم کو اُردو سیکھنے سے زیادہ اُسے اپنے حافظے کو ٹھیک کرنے کی تربیت دی ہے۔اختررضا سلیمی کا یہ شعر میری گفتگو کا ختتامیہ بن رہا ہے مگر بچوں کے نصاب میں ایک نئی لہر بھی اسی سے
اٹھتی نظر آتی ہے:
جی میں ہے اس جہاں کو دوبارہ بنائیے
جیسا یہ بن نہیں سکا ، ویسا بنائیے

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔