(اجمل کمال)
شمالی ہندوستان میں اُردو ہندی تنازعہ اس وقت پیدا ہوا تھا جب انگریزوں نے نچلی عدالتوں اور انتظامی اور تعلیمی اداروں میں فارسی کی جگہ مقامی زبانوں کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا (یہ برصغیر کی تاریخ میں پہلی بارہوا کہ حکومت کی طرف سے عام مقامی باشندوں کی تعلیم کے سلسلے میں کسی قسم کی پالیسی اختیار کی گئی)۔ اس موقعے پر دو متخالف مؤقف رکھنے والے دو گروہ سامنے آئے جن میں سے ایک ناگری رسم الخط (اور موجودہ ہندی زبان) استعمال کرنا چاہتا تھا اور دوسرا اُردو کو اس کے مروّج رسم الخط میں۔ اس مناقشے نے رفتہ رفتہ مناظروں، مجادلوں اور ایک دوسرے کا متشدد انداز میں رد کرنے والی تحریروں کے ذریعے اُردووالوں اور ہندی والوں کے ذہنوں میں اس پختہ خیال کی صورت اختیار کر لی کہ ان کی پسندیدہ زبان مخالف زبان پر تاریخی اعتبار سے مقدم ہے، لسانی خصوصیات کے لحاظ سے فوقیت رکھتی ہے، برتر رسم الخط کی مالک ہے اور پورے برصغیر کی ’’قومی‘‘ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس تنازعے کی تفصیلات بہت سی کتابوں اور مضامین کا موضوع بنی ہیں لیکن بیشتر تحریروں میں اپنے اپنے سیاسی مؤقف سے اوپر اٹھ کر پورے منظرپر نگاہ ڈالنے کا رجحان مفقود ہے۔ اس کی ایک دل چسپ مثال اُردو اور ہندی والوں کی ان تحریروں میں ملتی ہے جو فورٹ ولیم کالج نامی ادارے کی تاریخ سے (جس کی تعلیمی سرگرمیاں، برسبیل تذکرہ، فورٹ ولیم نامی قلعے میں کبھی پیش نہیں آئیں) یہ نتیجہ نکالنے پر مُصر ہیں کہ انگریز اُردو اور ہندی کے سلسلے میں پھوٹ ڈال کر راج کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے اور اُردو والوں کی نظر میں ہندی کو اور ہندی والوں کی نگاہ میں اُردو کو آگے بڑھانے کی سازش میں مصروف تھے۔ آئیے اس ادارے کی تاریخ پر مختصراً نگاہ ڈالیں۔
اُردووالوں اور ہندی والوں کے مؤقف کی روشنی میں فورٹ ولیم کالج کوئی ایسا ادارہ معلوم ہوتا ہے جیسے ہندی ساہتیہ سمیلن یا انجمنِ ترقی اُردو، جسے اُردو اور ہندی میں تفریق پیدا کرنے اور اُردو یا ہندی کے ادب کو ترقی دینے کے مقصد سے وجود میں لایا گیا تھا۔ شواہد اس تصور کی تصدیق نہیں کرتے۔ ۱۸۰۰ء میں قایم کیے جانے والے اس ادارے کے تحریری دستور کی روشنی میں اس کا مقصد انگلستان سے آنے والے کمپنی کے ملازمین میں مقامی زبانوں، قوانین، تاریخ، رسم ورواج اور معیشت سے اس قدر واقفیت پیدا کرنا تھا کہ وہ کمپنی کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مقامی باشندوں سے معاملہ کر سکیں اور انتظامی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ ان ملازمین کو اقتصادیات، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس کی تعلیم دینا بھی اس ادارے کے مقاصد میں شامل تھا۔ جہاں تک مقامی زبانوں کاتعلق ہے، اس دستور کے تحت کلاسیکی زبانوں عربی، فارسی اور سنسکرت کے علاوہ مقامی زبانوں ہندوستانی، بنگالی، تیلگو، مراٹھی، تامل اور کنڑ کو کمپنی کے ملازمین کو سکھانے کے لیے چناگیا تھا (ہندوستانی زبان کے شعبے کے وجود میں آنے پر اس میں اُردو کے ساتھ ساتھ ناگری رسم الخط سکھانے والے افراد کا بھی تقرر کیا گیا)۔ مندرجہ بالا تفصیلات سے اوّل تو اُردووالوں اور ہندی والوں کا یہ دعویٰ مشترکہ طور پر رَد ہو جاتا ہے کہ ان کی زبان پورے برصغیر میں ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی تھی (چناں چہ ’’قومی‘‘ زبان بنائے جانے کی مستحق تھی)، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو کمپنی کے ملازمین کو دیگر زبانیں سکھانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی (یہ بات بھی یاد رکھیے کہ اس کالج کے لیے کمپنی کے ڈائریکٹروں سے رقم حاصل کرنے میں خاصی مشکل پیش آتی تھی، یہ کوئی اُردو کونسل کی قسم کا ادارہ نہیں تھا جس کا بجٹ ایک کروڑ سے بڑھا کر تین سال میں آٹھ کروڑ کر دیا جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو)۔ دوسرا نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ ناگری رسم الخط کسی نہ کسی حد تک مروّج تھا اور شمالی ہندوستان کے باشندوں کی کچھ نہ کچھ تعداد ایسی تھی جن سے رابطہ رکھنے کے لیے انگریز طلبہ کو یہ رسم الخط سکھانا ضروری سمجھا گیا۔ یہ کوئی ایسی شے بہرحال نہیں تھی جسے انگریزوں نے فورٹ ولیم کی تجربہ گاہ میں ایجاد کر کے شمالی ہندوستان کے جسم میں داخل کر دیا ہو۔ جہاں تک پھوٹ ڈلوانے کے الزام کا تعلق ہے، ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ کسی اور زبان کے شعبے میں الگ الگ رسم الخط کے منشیوں وغیرہ کا تقرر کیا گیا ہو۔ مذکورہ کالج سے باہر بھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ انگریزوں کی پالیسی کے نتیجے میں برصغیر کے کسی اور علاقے میں ایسا لسانی تنازع پیدا ہوا ہو جیسا شمالی ہندوستان میں اُردو اور ہندی کے سلسلے میں ہوا۔ کیا اس سے یہ واضح نتیجہ برآمد نہیں ہوتا کہ اس مخصوص علاقے میں یہ تقسیم پہلے سے موجود تھی اور نئے حکمرانوں کے راج میں دونوں گروہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ معاشرتی گنجائش اور معاشی مفادات حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھے اور اس باہمی رقابت کے زیراثر یہ چاہتے تھے کہ ان کے مخالف گروہ کے وجود کو تسلیم نہ کیا جائے اور نئے معاشی مواقع میں اسے کوئی حصہ نہ دیا جائے؟
جہاں تک اس موضوع پر دستیاب اُردو تحریروں کا تعلق ہے، ان میں غالب رجحان اسی عجیب مؤقف پر اصرار کرنے کا ہے کہ مذکورہ علاقے میں صرف ایک زبان (یعنی موجودہ اُردو) اور اس کا صرف ایک رسم الخط (یعنی اُردو کا موجودہ رسم الخط) پایا جاتا تھا۔ ناگری رسم الخط اور جدید ہندی استعمال کرنے کے خواہش مند گروہ کے بارے میں مبہم سی بات کی جاتی ہے کہ جیسے اس قسم کی مخلوق وجود ہی نہ رکھتی تھی اور بالفرض موجود بھی تھی تو انگریز حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ اس گروہ کے مطالبات کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ اگرچہ اب تاریخ کا وہ مقام اتنا پیچھے چھوٹ گیا ہے کہ پوری صورتِ حال یکسر منقلب ہو چکی ہے، لیکن اس کی یادگار یہ عجیب و غریب لسانی نقطۂ نظراب تک جوں کا توں موجود ہے اور ہم اسے اپنا قدیم ثقافتی ورثہ سمجھ کر سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں اور اس پورے معاملے کو کسی وسیع تر تناظر میں دیکھنے کوتیار نہیں ہوتے۔ گیان چند جین نے اپنی زیربحث کتاب میں اپنے عمر بھر کے علمی تجربے کی روشنی میں یہی بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ یہ فرسودہ نقطۂ نظر ہمیں اپنی زبان کی قدیم تاریخ سے معروضی واقفیت پیدا کرنے کی کوشش سے باز رکھتا ہے۔ ان کے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اُردو والے اس امکان پر غور کرنے تک کو تیار نہیں کہ جب انگریزوں نے برصغیر پر اپنا اقتدار مستحکم کیا تب یہاں کے غیرمسلم باشندوں میں ایک چھوٹا یا بڑا گروہ ایسا موجودہو سکتا تھا جسے مسلمان حکمران طبقوں کی بعض پالیسیوں اور اقدامات سے آزردگی رہی ہو، جسے مثلاً داستان سرائی کی محفلوں میں مسلمان فاتحین کے ہاتھوں بت پرستوں کی تباہی و بربادی اور تحقیروتذلیل کے بیانات سے تکلیف اور اہانت محسوس ہوتی ہو اورنئے حالات نے جس میں اپنی پسند کی زبان اور رسم الخط کو اختیار کرنے کی خواہش پیدا کر دی ہو۔ بابایانِ اُردو اس قسم کے کسی امکان کی طرف اشارہ تک کرنے سے چراغ پا ہو جاتے ہیں، جیساکہ جین صاحب کی کتاب پر ہونے والی بحث میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرے مؤقف سے اعتنا کیے بغیر اپنے مؤقف کو واحد درست نقطۂ نظر سمجھنا اور اپنے مفادکو مسلّمہ طور پرباقی سب کے مفادات پر مقدم جاننا ہی وہ رویہ ہے جووسیع تر دائرے میں لسانی، مذہبی، صنفی اور ثقافتی رواداری کو پنپنے نہیں دیتا۔ مثلاً اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ پانے کی اسی معذوری کے باعث ہم مسلمانوں کا خیال یہ ہے کہ مذہبی جذبات صرف ہمارے ہوتے ہیں جن کا احترام کرنا پوری دنیا کی اوّلین (غالباً واحد) ذمے داری ہے۔ دوسروں کے مذہب کی مقدس سمجھی جانے والی ہستیوں اور عزیز رکھے جانے والے تصورات کی اگر توہین کی جائے تو ان کو غالباً کوئی خاص تکلیف نہیں پہنچتی اور اگر پہنچتی بھی ہو تو انھیں اس کا اظہار کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مئی ۲۰۰۷ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک غیرمسلم رکن نے ملک کے توہینِ مذہب کے قانون میں ایک ترمیم پیش کرنے کی کوشش کی جس کی رُو سے اسلام کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کی مقدس ہستیوں کی توہین کو بھی قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے، تو اسمبلی کے تمام مسلم ارکان نے متفق ہو کر اس تجویز کو بحث تک کے لیے منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ دراصل ایک انتہائی منفرد اندازِفکر کا حامل ہونے کے باعث ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ہمارا مذہب، ہماری ثقافت، ہماری زبان، ہمارا رسم الخط وغیرہ سب سے اعلیٰ ہے تو دوسرے لوگ کس طرح کوئی دوسرا نقطۂ نظر رکھنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔